اوورسیز پاکستانیز اور بیرسٹر طاہر اکرم کی تجاویز

Overseas Pakistanis

Overseas Pakistanis

تحریر : ڈاکٹر شجاع اختر اعوان

اوورسیز پاکستانیز ملکی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ محنت کش طبقہ اپنی جوانیاں صرف کر کے اپنے خاندانوں، ملک و قوم کی ترقی کے لیے قیمتی زرمبادلہ اپنے ملک بجھواتے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں حصول روز گار کے لیے خدمات انجام دینے و الے پاکستانیوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ جو بیرون ممالک مختلف شعبہ جات میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوئے وطن عزیز پاکستان کے لیے نیک نامی کا باعث ہیں ان کی شب و روز کی محنت سے حاصل ہونے والی کمائی سے نہ صرف ان کے گھروں اور خاندانوں کی معاشی حالت بہتر ہوتی ہے بلکہ ملکی معیشت کی بہتری کے لیے ان کی جانب سے پاکستان بجھوائے جانے والے اربوں ڈالرز کا زر مبادلہ کلیدی کردار ادا کرتا ہے تحریک انصاف کی حکومت کا آئے روز سے ہی واضح موقف رہا ہے کہ اوورسیز پاکستانی ملک و قوم کا عظیم اثاثہ ہیں اور ان کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کیئے جائیںگے اور ان کو ہر طرح کی سہولیات فراہم کی جائیںگی تاکہ وہ اپنے ملک اور خاندانوں سے ہزاروں میل دور دیار غیر میں خود کو اکیلا تصور نہ کریں۔ اور دلجمعی سے خدمات انجام دے سکیں۔

اوورسیز پاکستانیز نے ہر مشکل وقت میں ملک و قوم کو اخلاقی و مالی مدد فراہم کی ہے۔ قدرتی آفات ، سیلاب ، زلزلہ میں کروڑوں ڈالر چندہ جمع کر کے اپنے ملک بجھوانے کے علاوہ قرض اتارو ملک سنواروہو یا ڈیمز کی تعمیر کے لیے اپیل انہوں نے اپنے وسائل سے ہر ممکنہ امداد فراہم کی ہے کشمیر کے مسئلہ کو اجاگر کرنا ہو یا دہشت گردی کے خلاف احتجاج بیرو ن ممالک پاکستان کے لیے بہترین سفیر کا کردار ادا کیا ہے۔ مگر پاکستانی سفارت خانوں ، قونصل خانوں سے اوورسیز کو ہمیشہ شکایات رہتی ہیں کہ پاکستان کی طرف سے مختلف ممالک میںتعینات ان اداروں اور اہلکاروں کا رویہ نہ صرف غیر مناسب ہوتا ہے بلکہ اوورسیز کو کسی بھی کام کے سلسلہ میں بیسیوں چکر لگوائے جاتے ہیں ۔ اپنے کاغذات کی تصدیق وصولی کے لیے ان کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بیرون ممالک میں موجود پاکستانی ایمبیسیز ، ہائی کمشنز اور کونسل خانے جو سلوک روا رکھتے ہیں وہ انتہائی شرمناک اور قابل افسوس ہے۔ امریکہ میں مقیم معروف کاروباری شخصیت پاکستانی کمیونٹی کے ہر دلعزیز ہمارے دوست بیرسٹر طاہر اکرم نے حکومت پاکستان کی توجہ ان مسائل کی جانب مبذول کرواتے ہوئے تجاویز پیش کی ہیں انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت پاکستان میںبہتری کے لیے کام کرر ہی ہے بیرون ملک پاکستانی اس سے پر امید ہیں اور میں اندرون و بیرون ملک پاکستانیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ حکومت کا بھر پور ساتھ دیں انہوں نے کونسلیٹس کے متعلق عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جہاں جہاں کونسلیٹس اوورسیز کو سہولیات پہنچانے کے لیے کام کر رہی ہیں ان کو اگر دفتر ی اوقات میں فون کیا جائے تو وہ اٹینڈ نہیں کرتے ان کی ویب سائیٹس اپ ڈیٹ نہیں ہوتیں جن سے معلومات تک رسائی ہوجس کی وجہ سے اوورسیز اورقونصل خانوں میں رابطہ کا فقدان ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔

کونسلیٹس کے یہ دفاتر مہنگی عمارتوں میں قائم ہیں۔ اور ان کا درجنوں افراد پر مشتمل عملہ کروڑوں روپے کی مراعات حاصل کرتاہے۔ اور پوری دنیا میں ان دفاتر اور عملہ پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں تاکہ اوورسیز پاکستانیوں کو سہولیات پہنچائیں ۔ مگر یہ دفاتر اوورسیز کے فون تک نہیں اٹھاتے اور جن لوگوں کے مسائل ہوتے ہیں ان کو ان دفاتر کے چکر لگانے پڑتے ہیں جو دوسرے شہروں سے سفر کر کے اپنا قیمتی وقت اور سرمایہ لگا کر ان دفتروں کے چکر لگاتے نظر آتے ہیں اور ایک قونصلیٹ جس پر تقریبا ایک کروڑ سے زائد خرچ آتا ہے اس کے قیام کا مقصد پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔ ان دفاتر کو یا تو مکمل فعال کیا جائے یا پھر ختم کر دیا جائے۔ ان کے اہلکاروں کو کم کرکے دفاتر کو سستے کرائے کی عمارتوں میں منتقل کیا جائے ۔ یہ بیرون ممالک تمام اوورسیز کی آواز ہے۔ اور امریکہ میں میرا ذاتی تجربہ ہے ۔

عمران خان کی حکومت سے میرا مطالبہ ہے کہ اس طرف خصوصی توجہ دی جائے یہ قونصل جنرل صرف فنڈز جمع کرنے اور فوٹو سیشن تک ہی متحرک نظر آتے ہیں اور ایسے موقعوں پر ہی اوورسیز کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ چیف جسٹس کی طرف سے ڈیمزکی تعمیر کے لیے فنڈز کی اپیل پر گزشتہ دنوں بھی ایسا ہی دیکھنے میں آیا اوورسیز نے کروڑوں روپے جمع کروائے میرا اوورسیز کو مشور ہ ہے کہ ایسی مہمات میں جذبات میں آکر نقد رقوم جمع کروانے کے بجائے اس مقصد کے لیے مخصوص کسی اکائونٹ میں رقم جمع کروا کر رسید حاصل کریںجس کا باقاعدہ آڈٹ اور چیک اینڈ بیلنس کا نظام ہو۔ جسے آن لائن بھی کیا جائے۔ میری تجویز یہ بھی ہے کہ ساری پاکستان کمیونٹی جو کہ اوورسیز میں ہیں ان کو پاکستان میں موبائل لے جانے پر ٹیکس دینے پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں مگر جب وہ گھنٹوں کا سفر کرکے اپنے ملک کے ایئر پورٹ پر پہنچے ہیں تو ان کو کئی کئی گھنٹے لائنو ں میں کھڑے ہو کر موبائل رجسٹریشن کے مرحلہ سے گزرنا پڑتا ہے۔ جو کئی گھنٹوں کی مسافت کرکے آنے والے تھکے ہارے مسافرو ں کے لیے انتہائی تکلیف کا باعث بنتا ہے۔

کیونکہ نہ صرف انہیںبلک ان کے ساتھ آنے والے بیوی بچوں اور ان کو ایئر پورٹ لینے کے لیے آنے والے عزیز و اقارب کو بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے موبائل رجسٹریشن کے لیے کوئی آن لائن طریقہ وضع کیا جائے تاکہ باآسانی یہ کام انجام پا سکے۔ بیرسٹر طاہر اکرم کی تجاویز قابل غور ، توجہ و حل طلب ہیں۔ اور تبدیلی کی دعوے دار تحریک انصاف کی حکومت کو چاہیے کہ وہ اوورسیز پاکستانیز کے مسائل کے حل کے لیے ہر ممکنہ اقدامات اٹھائے ۔ پاکستانی قونصل جنرل اور عملہ کا قبلہ درست کرے اور مختلف ممالک میں برسا برس سے قونصل خانوںمیں تعینات ملازمین کو تبدیل کرکے خدمت کے جذبہ سے سرشار نوجوان ، اعلی تعلیم یافتہ اور تجربہ کار اہلکاروں کو تعینات کرے اور ان قونصل خانوں میں آن لائن شکایات سیل قائم کرے تاکہ اوورسیز کے تحفظات دور ہو سکیں ۔ اور وہ بہتر طور پر خدمات انجام دے سکیں۔

 Dr. Shujah Akhtar Awan

Dr. Shujah Akhtar Awan

تحریر : ڈاکٹر شجاع اختر اعوان
37101-1774390-5
0312-2878330