بھارت سے تعلقات اور ڈرون حملے

National Assembly

National Assembly

حلف وفاداری کے ساتھ نئی قومی اسمبلی نے نئے سفر کا آغا ز کر دیا ہے آنے والی حکومت سے عوام نے بڑی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں ملک اس وقت بڑے بڑے بحرانوں کا شکار ہے تنہا کوئی بھی جماعت ان بحرانوں کا خاتمہ نہیں کر سکتی ہے ن لیگ اکثریتی جماعت ہے اگر میاں نواز شریف نے قومی اتفاق رائے سے فیصلے کیے تو نتائج بہتر سامنے آئیں گے قوم بجلی مانگتی ہے اور نگران حکومت جاتے جاتے بھی مہنگی بجلی کا تحفہ دے گئی ہے اس وقت جہاں ملک کو اندرونی مسائل نے گھیرا ہوا ہے وہیں پر ہمیں اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی اپنے تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت ہے سب سے پہلے ملک میں جاری بجلی کی لوڈ شیڈنگ کو ختم کیا جائے اس کے بعد ڈرون حملوں سے نمٹا جائے کیونکہ ڈرون حملے نہ صرف پاکستان کی خود داری، خود مختاری اور سالمیت پر حملہ ہے بلکہ ان حملوں کے نتیجہ میں عام شہریوں کی طالبان سے ہمدردیوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

مگر سب سے پہلے ہم پاک بھارت دوستی کی طرف آتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لئے مذاکراتی عمل سنجیدگی سے آگے بڑھنا چا ہیے اور نئی حکومت بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کو خارجہ پالیسی میںترجیح دے جبکہ اس سلسلہ میں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے نوازشریف کے مثبت رویے پر اچھے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اپنے خصوصی نمائندے ایس کے لائمبا کو لاہور بھیجا جہاں انہوں نے میاں نواز شریف سے ملاقات کی پاکستان اور بھارت دونوں کی طرف سے حالیہ دنوں میں بیانات حوصلہ افزاء ہیں جو تعلقات کی بہتری کا اشارہ دے رہے ہیں ،دونوں ملکوں کے درمیان اچھے ہمسایوں والے دوستانہ تعلقات ایک دوسرے کے عوام کے باہمی مفاد میں ہیں اور ان خوشگوار تعلقات سے خطے کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

Elections

Elections

دونوں ملک جموں و کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لئے مذاکراتی عمل کو آگے بڑھائیں تاکہ تعاون کے نئے امکانات پیدا کئے جا سکیں اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ اس حوالے سے میڈیا کا کردار بہت اہم ہے اور میڈیا کو مثبت فضاء قائم کرنا ہوگی ،بھارت میں پاکستان کے حالیہ انتخابات کے نتائج کو سراہا گیاہے کہ نواز شریف کے وزیراعظم بننے سے 1999ء کی حالت واپس لوٹ سکتی ہے جب بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی لاہور آئے تھے اور پاک بھارت تعلقات تاریخ کے خوشگوار ترین لمحے پر تھے ، اب پھر موقع ہے کہ دونوں ملک تعلقات کواسی نہج پر لے جائیں بھارت کے ساتھ دوستانہ اور برابری کے تعلقات سے نہ صرف دونوں ملکوں کو فائدہ ہو گا بلکہ خطہ میں بھی خوشحالی کا باعث بنے گا مگر کچھ ایسی طاقتیں جو نہ صرف اس علاقہ میں امن قائم نہیں ہونے دینا چاہتی بلکہ بلخصوص پاکستان جیسے پر امن اسلامی ملک میں انتشار پھیلائے رکھنا چاہتی ہیں۔

ڈرون حملے اسی سازش کا حصہ ہیں اور امریکہ کا حالیہ ڈرون حملہ دراصل نواز شریف کی طالبان پالیسی پر ڈرون حملہ تھا جس میں کمانڈر ولی الرحمن کی ہلاکت کے بعد تحریک طالبان پاکستان نے مذاکرات تو کجا نواز شریف کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے بدلہ لینے کا اعلان کردیا ہے اس حملے نے پاک امریکہ تعلقات کوپھر اسی طرح کشیدہ کردیا ہے اور بحث کو چھیڑ دیا ہے کہ پاکستان میں امریکی ڈرون حملے کس قانون اور ضابطے کے تحت کئے جارہے ہیں جبکہ نواز حکومت اور طالبان مذاکرات کے لئے سنجیدہ تھے اور ایک دوسرے کے لئے نیک جذبات کا اظہار کیا گیا تھا لیکن کمانڈر ولی الرحمن کی موت نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو شدید دھچکا پہنچایا ہے جس نے ان کا اعتماد توڑ دیا ہے ۔

2009 ء میں بیت اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد ٹی ٹی پی پر یہ دوسرا بڑا ڈرون حملہ تھا جس نے اس سے اس کی قیادت چھین لی ، یہ حملے دراصل طالبان کی حمایت کا موجب بنتے ہیں اور نئے جنگجو طالبان کو جوائن کرتے ہیں پاکستان میں اب
تک ڈرون حملوںمیں کوئی 3540 تک افراد مارے جاچکے ہیں اور ان میں تقریباً ہزار کے قریب عام شہری ہیں، پاکستان کے 90 فیصد عوام سمجھتے ہیں ڈرون حملوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے اوران میں بے گناہ شہری مارے جارہے ہیں ، مارچ 2011ء میں ایک بڑے ڈرون حملے میں 40 افراد ہلاک ہو گئے تھے جو ایک قبائلی جرگے میں شریک تھے اور ان میں اکثریت شہریوں کی تھی۔

ڈرون حملوں کی وجہ سے طالبان کو اخلاقی حمایت حاصل ہوتی ہے اور عوام کی ہمدردیاں حاصل کرتے ہیں ،دیہاتوں اور قصبوں سے نوجوان لڑکے طالبان گروپ میں شامل ہوتے ہیں ،ٹائم سکوائر میں بم حملے کی منصوبہ بندی کرنیوالے پاکستانی نژاد امریکی شہری فیصل شہزاد نے بھی دوران تفتیش بتایا تھا کہ اسے ڈرون حملوں کی وجہ سے امریکہ کے خلاف نفرت ہوئی ہے ڈرون حملے طالبان کو شکست دینے میں اب تک ناکام رہے ہیں اور انہوں نے تمام پاکستانیوں کو رسک پر ڈال دیا ہے ، حالیہ ڈرون حملے کے بعد طالبان جوابی کارروائیاں کریں گے اور یقیناً بدلہ لیں گے ، آئندہ چند دنوںمیں جوابی حملے متوقع ہیں۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر
03466444144
rohailakbar@gmail.com