بھارت میں تیلنگانہ ریاست کے قیام کی منظوری

India

India

بھارت (جیوڈیسک) میں حکمران کانگریس پارٹی نے جنوب مشرقی ریاست آندھرا پردیش میں سے ایک نئی ”تیلنگانہ” ریاست کے قیام کے متنازع مطالبے کو عملی شکل دینے کی منظوری دے دی ہے۔ نئی دہلی میں ہونے والے ایک پارٹی اجلاس میں ایک قرارداد پیش کی گئی جو منظور کر لی گئی۔ اجلاس میں کانگریس پارٹی کی سربراہ سونیا گاندھی اور وزیر اعظم من موہن سنگھ نے بھی اس فیصلے کی حمایت کی۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کانگریس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ 1956 سے تیلنگانہ کے قیام کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔

اور کانگریس پارٹی نے اپنے اجلاس میں اس مطالبے کی تاریخ کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد اس کی منظوری کا فیصلہ کیا۔ پارٹی ترجمان اجے مکین نے اجلاس کے بعد صحافیوں کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں ایک قرارداد منظور کر لی گئی جس میں مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ تیلنگانہ ریاست کے قیام کے لیے ضروری اقدامات کرے۔

واضع رہے کہ نئی ریاست کے قیام کے لیے پارلیمانی منظوری بھی درکار ہو گی۔ اپوزیشن جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی بھی اس نئی ریاست کے قیام کی حامی ہے۔ بے جے پی اس سے قبل کانگریس پر الزام عائد کرتی رہی ہے کہ وہ اس معاملے کو جان بوجھ کر ٹالتی رہی ہے۔ تیلنگانہ بھارت کی 29 ویں ریاست کے طور پر ملکی نقشے پر ابھرے گی جو بالخصوص آندھرا پردیش کی قبائلی پٹی میں خشک سالی کے شکار خطے پر مشتمل ہو گی۔ اس کے قیام کے لیے سرگرم قوتوں کو شکایت رہی ہے۔

کہ آندھرا پردیش کی ریاستی حکومتوں نے اس علاقے کو مسلسل نظر انداز کیے رکھا ہے۔ 1956 میں قائم کئی گئی ریاست آندھرا پردیش رقبے کے لحاظ سے بھارت کی پانچویں بڑی ریاست ہے۔ 543 رکنی بھارتی پارلیمان کے 42 ارکان اسی ریاست سے چنے جاتے ہیں۔ 2009 کے انتخابات میں کانگریس کو وہاں واضح برتری حاصل ہوئی تھی۔ مبصرین کے خیال میں آندھرا پردیش کی تقسیم جس کے بعد حیدرآباد دس برس تک آندھرا اور تیلنگانہ دونوں کا مشترکہ دارالحکومت رکھا جائے گا۔

کانگریس کا ایک ایسا ”جوا” ہے جس سے وہ اس اہم سیاسی خطے پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرنے کی امید لگائے بیٹھی ہے۔ ادھر تیلنگانہ کے قیام کے لیے کیے جانے والے مظاہروں کے سبب بھارتی پولیس کو حیدرآباد شہر میں 2009 سے ہی ہائی الرٹ پر رکھنا پڑا ہے، جہاں امریکی انٹرنیٹ کمپنیوں گوگل اور فیس بک سمیت متعدد اداروں کے دفاتر قائم ہیں۔

وزارت داخلہ کے ترجمان کلدیپ دھاتوالیا نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ کانگریس پارٹی کے اجلاس میں کیے گئے فیصلے کے بعد سکیورٹی فورسز کے ایک ہزار اضافی اہلکاروں کو آندھرا پردیش کی جانب روانہ کر دیا گیا ہے۔ کانگریس کے فیصلے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس طرح لسانیت، مذہب اور ثقافت کے حوالے سے اس متنوع ملک میں ہر طرف سے نئی ریاستوں کے قیام کے مطالبات کا سیلاب امڈ پڑے گا۔