بھارتی اہلکار کی دوحہ میں طالبان کے اعلیٰ عہدیدار سے اولین ملاقات

Afghan Taliban Political Office

Afghan Taliban Political Office

دوحہ (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان کے دوبارہ طالبان کے کنٹرول میں چلے جانے اور ہندوکش کی اس ریاست سے امریکا کے فوجی انخلا کی تکمیل کے اگلے ہی روز ایک اعلیٰ بھارتی اہلکار نے پہلی مرتبہ دوحہ میں طالبان کے ایک مرکزی عہدیدار سے ملاقات کی۔

نئی دہلی سے منگل اکتیس اگست کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق بھارتی وزارت خارجہ نے بتایا کہ قطر میں تعینات بھارتی سفیر دیپک متل نے اس خلیجی عرب ریاست کے دارالحکومت میں قائم افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ شیر محمد عباس ستانک زئی سے پہلی مرتبہ ایک ملاقات کی۔

بھارتی وزارت خارجہ کے مطابق یہ ملاقات طالبان کی درخواست پر ہوئی اور یہ کابل پر رواں ماہ کے وسط میں طالبان کے قبضے کے بعد سے نئی دہلی اور سخت گیر مذہبی سوچ کے حامل افغان طالبان کے مابین اپنی نوعیت کا اولین باقاعدہ رابطہ تھی۔

بھارت ماضی میں طویل عرصے تک افغان طالبان کے بارے میں ان کے بھارت کے حریف ہمسایہ ملک پاکستان کے ساتھ قریبی روابط کی وجہ سے تحفظات کا اظہا کرتا رہا ہے۔ نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق دوحہ میں دیپک متل اور شیر محد عباس ستانک زئی کے مابین اس ملاقات میں ان بھارتی باشندو‌ں کی سلامتی کے موضوع پر بھی گفتگو ہوئی، جو اب تک افغانستان میں موجود ہیں۔

افغانستان ميں سابق سوويت يونين کی افواج اور مجاہدين کے مابين سن 1979 سے لے کر سن 1989 تک جنگ جاری ہے۔ سرد جنگ کے دور ميں سوويت افواج کو شکست دينے کے ليے امريکا، برطانيہ، پاکستان، ايران، سعودی عرب، چين اور ديگر کئی ملکوں نے مجاہدين کی مدد کی۔ 1989ء ميں سوويت افواج کی واپسی کے بعد بھی مجاہدين نے صدر نجيب اللہ کی حکومت کے خاتمے کے ليے مسلح کارروائياں جاری رکھيں۔

خارجہ امور کی بھارتی وزارت کے مطابق اس ملاقات میں قطر میں بھارتی سفیر متل نے ستانک زئی کو نئی دہلی کے ان خدشات سے بھی آگاہ کیا کہ بھارت مخالف عسکریت پسند بھارت کے خلاف اپنے حملوں میں اضافے کے لیے افغان سرزمین استعمال کر سکتے ہیں۔

اس تشویش کے جواب میں طالبان کے دوحہ میں سیاسی دفتر کے سربراہ نے بھارتی سفیر کو یقین دلایا کہ نئی دہلی کے ان خدشات کا پوری طرح تدارک کیا جائے گا۔

قبل ازیں بھارت کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا تھا کہ وہ ‘افغانستان میں اہم سٹیک ہولڈرز‘ کے ساتھ مذاکرات کرتا رہا ہے۔ تاہم نئی دہلی نے کبھی بھی یہ تصدیق یا تردید نہیں کی تھی کہ بھارتی حکام نے کبھی طالبان کی قیادت یا ان کے نمائندوں کے ساتھ ملاقاتیں کی تھیں۔