پاکستانی عجیب لوگ

Pakistani People

Pakistani People

پاکستانی بھی عجیب لوگ ہیں شاید اس لئے عجیب وغریب خواہشیں دلوںمیں پروانچڑھتیرہتی ہیں خواہشوں کے بارے میں مرزا غالب کا کہناہے ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہرخواہش پر دم نکلے پر اپنے الطاف بھائی نے گذشتہ دنوںایک عجیب بلکہ غریب خواہش کااظہارکیاہے کہ”دہشت گردی کے خلاف فوج اور حکومت کو ایک پیج پرآنا چاہیے، ور نہ فوج افتدار پر قبضہ کرکے ملک میں مارشل لاء لگادے” ایک معروف سیاستدان اور پارٹی سربراہ کاایسی باتیں کرنا عقل سے بعید ہے دن رات جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کو بہترین سوچ کا مظاہرہ کرنا چاہیے یقینا الطاف حسین کے اس بیان سے ہر جمہوری سوچ رکھنے والے کو تکلیف ہوئی ہے۔ شاید اسی لئے دنیا بھرمیں ہم پاکستانیوں کو عجیب لوگ کہا جاتا ہے کہ جب ملک میں آمریت ہوتی ہے ہم جمہوریت کیلئے جدوجہد کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن جمہوریت آ جائے تو پھر آمریت کی راہ ہموار کرنے کی کوششیں شروع ہوجاتی ہیں پاکستان کی سیاست میں گذشتہ نصف صدی سے یہی کھیل کھیلا جارہاہے ہمارے بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کی پوری زندگی کا یہی حاصل تھا کہ ہم نے انہوں کو ہمیشہ جمہوریت کیلئے نبرد آزما دیکھا۔۔ان کا کہنا تھا لنگڑی لولی جمہوریت بھی مارشل لاء سے ہزار گنا بہترہوتی ہے اب نہ جانے کچھ لوگ کیوں جمہوریت کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتے۔۔ عشق قاتل سے بھی ، مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟

سجدہ خالق کو بھی ، ابلیس سے یارانہ بھی حشرمیں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟غور کیا جائے تو محسوس ہوگا کہ الطاف حسین کا عسکری قیادت کو مارشل لاء لگانے کا مشورہ در حقیقت فوج کو بغاوت پر اکسان لیکن شاید وہ اس حقیقت سے ہم سے زیادہ با خبر ہوںگے کہ پاکستان کو آج جن مسائل کا سامنا ہے سقوط ِ ڈھاکہ، نام نہاد افغان جہاد، کارگل ایڈونچر، دہشت گردی کے خلاف جنگ وہ سب کے سب مسائل آمریت کی پیداوارہیںجن کا خمیازہ مسلسل قوم بھگت رہی ہے اور 50,000 جانوں کا نذرانہ دینے کے باوجوداس سے چھٹکارا پانے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی اس کربناک صورت ِ حال کے باوجود پھر ملک میں مارشل لاء کی خواہش رکھنا کتنی اذیت ناک اورکس قدر عجیب وغریب خواہش ہے یہ خواہش ایک اوربات کا برملا اعلان کررہی ہے کہ یہ خواہش رکھنے والے اپنے مستقبل یا پھر جمہوریت سے مایوس ہوگئے ہیںیہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ مایوس انسان اپنے آپ کوتنہا محسوس کرتاہے یہ تنہائی رفتہ رفتہ اس کیلئے جان لیوا بھی بن سکتی ہے لیکن جن لوگوںنے سیاست میں ہمیشہ اقتدار کے مزے لوٹے ہوںان کی سیاسی تنہائی اپوزیشن میں رہ کر کیسے دور ہو سکتی ہے اپنا تو یہ حال جی ہار چکے، لٹ بھی چکے اور محبت وہی انداز پرانے مانگے مایوسی کا شکار سیاستدانوں کو اس بات پر مزید مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا کہ اب پاکستان کے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور جغرافیائی حالات ایسے نہیں کہ ملک میں مارشل لاء لگ سکے اب فوج کے اندر بھی کسی کی ایسی کوئی خواہش یا حسرت نہیں تمام ادارے اپنی حد میں رہتے ہوئے پاکستان کو مضبوط بنانے کے خواہاں ہیں بلکہ ذہنی طورپر سب ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں یہ انداز ِ فکر ایک زندہ قوم کی ترجمانی کرتا ہے

Democracy

Democracy

اس لئے جمہوریت کے ساتھ چوہے بلی کا کھیل تماشہ ختم ہو گیا ہے ایک وزیرِ اعظم کو سزا اور نااہلی دوسرے وزیرِ اعظم پر کرپشن مقدمات کے باوجود اگر قوم نے پیپلز پارٹی کی 5سالہ حکومت کہ برداشت کرلیا ہے تو اس کا مطلب ہے اب پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل روشن اور تابناک ہے موجود ہ حکومت تو پھر گذشتہ دور سے نیک نام ہے اس لئے جمہوریت کے خلاف عجیب وغریب خواہشیں”بری بات” ہے اب رہی طالبان سے مذاکرات کی بات تواس وقت ملک بھر کے مسلمان دہشت گردی کے سخت خلاف ہیںہم ہر خاص و عام کو یہ صائب مشورہ دے رہے ہیں کہ دہشت گردی پر سیاست کرنے کی بجائے اگر اس سلسلہ میں حکومت کی معاونت کی جائے تو بہتوں کا بھلا ہو گاویسے بھی طالبان کنفیوژ لوگ ہیں جولوگ بے گناہوںکے خون سے ہاتھ رنگ رہے ہیں، عبادت گاہوں میں دھماکوں، خودکش حملوں میں ملوث ہیں یا جو سیکورٹی اہلکاروں کو اغوا کرکے انہیں ذبح کرنے کے مرتکب ہیں، اسلا م کے نام پر فتنہ فساد بپا کر رہے ہیںیا ملکی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں یا جو آئین تسلیم کرنے سے انکاری ہیں وہ یقینا کسی رعایت کے مستحق نہیں انہیں ہر قیمت پر کچل دینا ریاست کا فرض بنتا ہے اس لئے حکومت قومی سلامتی پر واضح مؤقف اختیار کرے یہ پاکستان کی بقاء، وجود،سالمیت اور مستقبل کا معاملہ ہے اس سے صرف ِ نظر کرنا کسی طور بھی مناسب نہ ہوگا مذاکرات یا فوجی ایکشن دونوں صورتوں میں اسے کامیابی اور منطقی انجام تک پہنچانا ناگزیرہ ے۔۔ یہی حالات کا تقاضا ہے اور ہر محب ِ وطن کے دل کی آواز بھی۔
عشق قاتل سے بھی ،مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟
سجدہ خالق کو بھی ، ابلیس سے یارانہ بھی
حشرمیں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟

Sarwar Siddiqui

Sarwar Siddiqui

تحریر: ایم سرور صدیقی