بے حسی کا انجام

Poverty

Poverty

تحریر : شیخ توصیف حسین

پرانے وقتوں میں ایک وزیر جو ملک و قوم کی بہتری اور بھلائی کو اپنا نصب العین سمجھتا تھا نے اپنی عوام کو بے حسی کے عالم میں دیکھا تو فوری طور پر اپنے بادشاہ کو آ گاہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک کی عوام جو نہ صرف نفسا نفسی بلکہ بے حسی کی اس قدر شکار ہو گئی ہے کہ اگر ہمارا دشمن ملک ہمارے ملک پر حملہ کر دے تو یہاں کی عوام اُس کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے بجائے خاموش تماشائی کا کردار ادا کریگی لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی عوام کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگا نے کیلئے کچھ ایسے اقدامات کرنے چاہیے جس سے دلبر داشتہ ہو کر ہماری عوام اپنے بنیادی حقوق کی بقا کے حصول کی خا طر آ واز حق بلند کرے اپنے وزیر کی ان باتوں کو سننے کے بعد بالآخر بادشاہ نے کافی سوچ و بچار کے بعد چند ایک بااثر امرا دوا ساز کمپنیوں کے مالکان و ڈاکٹرز اشیائے خوردنوش کے تاجر بیوروکریٹس علمائے دین اور جج صاحبان کی ایک خفیہ میٹنگ بلائی جس میں یہ طے پایا گیا کہ وہ ہر طریقے سے عوام کو پریشان کرے ممکن ہے کہ پریشانی سے دلبرداشتہ ہو کر ہمارے ملک کی عوام کا سویا ہوا ضمیر جاگ اُٹھے۔

قصہ مختصر کہ اس فیصلے کے بعد تاجروں نے اشیائے خوردنوش کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ادویات ساز کمپنیوں کے مالکان نے ادویات کی قیمتوں میں اضافہ جبکہ ڈاکٹرز صاحبان نے ڈریکولا کا روپ دھار کر غریب مریضوں کا خون چوسنا شروع کر دیا علمائے دین نے مذہبی و لسانی فسادات شروع کروا دیئے عدل و انصاف کا خاتمہ ہو گیا سیاست دانوں نے تعمیراتی کاموں میں دس سے پندرہ پرسنٹ اپنی کمیشن وصول کرنا شروع کر دی جس کے نتیجہ میں تعمیراتی کاموں کے ٹھیکیدار سڑکوں گلیوں اور نالیوں میں ناقص میٹریل کا آ زادانہ استعمال کر نے لگے بازاروں میں نا جائز تجازوات مافیا کا راج قائم ہو گیا جس کی وجہ سے بہو بیٹیوں کا وہاں سے گزرنا محال ہو گیا ٹرینوں کا نظام تباہ و بر باد ہو کر رہ گیا شہروں میں ٹریفک کا نظام بے لگام ہو کر رہ گیا۔

قصہ مختصر کہ اس ملک کے ہر ادارے میں اہلکار بالخصوص اعلی افسران چنگیز خان اور ہلاکو خان کا روپ دھار کر لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی تاریخ راقم کرنے لگے ایسے غلیظ اور قانون شکن حالات کے باوجود اُس ملک کی عوام بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی عوام کے اس گھنائو نے کردار کو دیکھ کر بادشاہ کو شدید پریشانی لا حق ہوئی تو اُس نے اپنی عوام کو شدید اذیت سے دوچار کر نے کیلئے شہر کے باہر آ نے جانے والے راستوں پر چوکیاں تعمیر کروا کر وہاں پر عملہ پولیس کو تعنیات کر دیا جو بادشاہ کے حکم کے مطا بق ہر آنے جانے والے شخص سے نہ صرف بھتہ وصول کرتے بلکہ اُن کی چھترول بھی کر دیتے یہ سلسلہ ابھی جاری تھا کہ اسی دوران چند ایک افراد بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوئے جنکو دیکھ کر بادشاہ اور اُس کا وزیر یہ سوچ کر بہت خوش ہوئے کہ ہماری عوام کا سو یا ہوا ضمیر اب جاگ اُٹھا ہے کہ اسی دوران اُن افراد نے عرض کرتے ہوئے کہا کہ آپ اگر مناسب خیال کرے تو شہر کے باہر آنے جانے والے راستوں میں جو چوکیاں قائم ہیں وہاں پر عملہ پولیس کی تعداد میں اضافہ کر دے تو وہ ہم سے جلد از جلد بھتہ وصول کرنے کے ساتھ ساتھ چھترول کر دے اس سے آپ کو فائدہ حاصل ہو گا اور ہمارا ٹائم بچ جائے گا۔

آج اگر ہم حقیقت کے آ ئینے میں دیکھے تو یہی کیفیت ہمارے ضلع جھنگ کی عوام کی ہے جس کی بے حسی کے نتیجہ میں یہاں پر آنے والا ہر آ فیسر اپنے آپ کو ہلاکو خان چنگیز خان ہیبت خان حشمت خان اور دلاور خان سمجھتے ہوئے لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی تاریخ راقم کرنا شروع کر دیتا ہے جبکہ یہاں کی عوام ان ناسوروں کا محاسبہ کرنے کے بجائے ان کے حق میں نعرے بازی کرنا شروع کر دیتی ہے جس میں انجمن تاجران جھنگ کے عہدے دار و ممبران سر فہرست ہیں اور بعض صحافی بھی جو مذکورہ آ فیسر کو پگڑیاں پیش کرتے ہیں تو آج میں یہاں ایک چھوٹی سی مثال نہ صرف اپنے قارئین بلکہ اپنے ملک کے ارباب و بااختیار کی خدمت اقدس میں پیش کر رہا ہوں کہ شاید کوئی خداوند کریم کی خوشنودگی کی خاطر ایکشن لے سکے ہوا یوں کہ میں گزشتہ روز اپنے دفتر میں بیٹھا اپنے صحافتی فرائض کی ادائیگی میں مصروف عمل تھا کہ اسی دوران میو نسپل کارپوریشن جھنگ کے درجہ دوئم اور سوئم کے اہلکار جن کے سر کے بال آ وارہ بادلوں کی طرح بکھڑے ہوئے ہونٹ خشک پتوں کی طرح مرجھائے ہوئے پھٹے پرانے کپڑے زیب تن کیے ہوئے قصہ مختصر وہ بے بسی اور لاچارگی کی تصویر بنے ہوئے تھے روتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ ہم کئی سالوں سے میو نسپل کارپوریشن جھنگ میں بطور خاکروب اور وہ بھی بیس ہزار روپے ماہانہ پر اپنے فرائض و منصبی ادا کرنے میں مصروف عمل تھے اس دوران متعدد چیرمین و دیگر آ فیسرز آئے انہوں نے ہمیشہ چور اور بے ایمان کہا اور ہم سے ہتک آ میز رویہ اپنائے رکھا حالانکہ وہ از خود لاکھوں اور کروڑوں روپے خرد برد کر کے راہ فرار اختیار کر گئے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مذکورہ بااثر اشخاص میں سے کسی نے بھی ہمیں کنفرم کروانے کی کبھی کوشش نہ کی بلکہ ہمیشہ اپنی چودھراہٹ کو قائم رکھنے کیلئے ہمیں نکال دینے کی دھمکیاں دیتے رہے یہ سلسلہ دس پندرہ سال جاری رہا بالآ خر ہم دو اڑھائی سو اہلکار وں نے مل کر ہائیکورٹ لاہور کی ایک عدالت میں درخواست دائر کر دی بالآ خر کئی سالوں بعد معزز عدالت کے جج نے قانون کے مطا بق ہم تمام ملازمین کو کنفرم قرار دے دیا اس موقعہ پر ہم نے خوشیاں منائی ہم تقریبا ڈیڑھ سال تک کنفرم ملازمین کی تنخواہ وصول کرتے رہے گزشتہ ماہ ہم تنخواہ کے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان کی جانب سے دس پرسنٹ الائونس بھی حاصل کیا کہ اسی دوران ڈپٹی ڈائریکٹر آ ڈٹ آ فیسر عمیس ذیشان جھنگ کا میو نسپل کارپوریشن جھنگ کے عملہ کے ساتھ نجانے کس مصلحت کے تحت جھگڑا ہو گیا جس پر میو نسپل کارپوریشن جھنگ کے عملہ نے مذکورہ آ ڈٹ آ فیسر کے خلاف سٹے آ رڈر بھی حاصل کر لیا جس کا بد لہ لینے کیلئے مذکورہ آ ڈٹ آ فیسر ہم غریب اور بے سہارا اہلکاروں کا موجودہ تنخواہ کے دوران نہ صرف دس پرسنٹ بلکہ پچیس پرسنٹ الائونس جو کہ موجودہ حکومت نے ابھی جاری کیا تھا اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے کاٹ لیا ہم بے سہارا اور غریب ہیں ہم جائیں تو جائیں کہاں ہمیں انصاف کون دے گا یہ کہہ کر مذکورہ افراد وہاں سے اپنے آ نسو صاف کرتے ہوئے میرے دفتر سے چلے گئے اور مجھے اچانک یہ خیال آ یا کہ کیا کسی نے خوب کہا کہ ہر آ فیسر کا کردار ہی اُس کے خون کی عکاسی کرتا ہے اگر کردار اچھا تو خون اچھا اور اگر کردار بُرا تو یہ سمجھ لینا چاہیے تو اُس کے خون کا معاملہ گڑ بڑ ہے
کمزوروں پر رحم نہ کھا نے والا
طاقتوروں سے مار کھاتا ہے

Sheikh Tauseef Hussain

Sheikh Tauseef Hussain

تحریر : شیخ توصیف حسین