انٹرنیٹ اور موبائل فوبیا

Technologies

Technologies

اکیسویں صدی کے شروع ہوتے ہی نئی سے نئی حیرت انگیز ایجادات نے تہلکہ مچانا شروع کر دیا اور اس صدی میں سب سے زیادہ مقبولیت پانے والی ا یجادات میں موبائل اور انٹرنیٹ سرفہرست ہیں جو بیسویں صدی کے آخر میں ایجاد ہوئیں۔ ان دونوں ٹیکنالوجیز نے دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں کو حیران و پریشان کر دیا کیونکہ اس سے پہلے لوگوں کے درمیان آپس میں رابطہ کرنا اتنا آسان نہ تھا جتنا اب ان جدید ٹیکنالوجیز نے بنا دیا ہے۔

موبائل اور انٹر نیٹ دونوں کی ایجادات بیسویں صدی کے آخر میں ہوئی مگر عام آدمی کی پہنچ میں یہ سہولیات اکیسویں صدی کے شروع میں آنا شروع ہوئی کیونکہ اس سے پہلے موبائل اور انٹرنیٹ دونوں کی خدمات بہت مہنگی تھیں جو کہ ایک عام آدمی کی پہنچ سے باہر تھیں۔ آج کل کے دور میں موبائل سے تقریبا ہر شخص فائدہ اٹھا رہا ہے جبکہ لوگوں کی اکثریت انٹر نیٹ سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔

پاکستان میں اس وقت25ملین سے شزائد لوگ انٹر نیہٹ استعمال کر رہے ہیں مگر افسوس کے ساتھ عرض کرنا پڑ رہا ہے کہ ان میں سے زیادہ شرح اُن نوجوانوں کی ہے جو بغیر کسی مقصد محض اپنا قیمتی وقت ضائع کرتے ہوئے پورا پورا دن انٹر نیٹ پر بیٹھے بیٹھے بسر کردیتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر ان نوجوانوں کی خاص سرگرمیوں میں فیس بک پر لوگوں کے خلاف پروپگنڈے، و یڈیوز اور تصاویر ایڈٹ کر کے پھیلا نا شامل ہے۔جو کہ ایک منفی سرگرمی سمجھی جاتی ہیں۔

اس کے علاوہ اور بھی کافی ایسی سرگرمیاں ہیں جن میں ہماری نوجوان نسل سارا سارا دن الجھ کر اپنا قیمتی وقت ضائع کرتی ہے۔ ان کی سب سے بڑی وجہ ہماری حکومت کی طرف سے نوجوان نسل کے لیے تفریح مواقع اور سرگرمیوں کا انعقاد نہ کرنا ہے۔ شہروں میں نوجوانوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ کھیل کے میدانوں کی کمی ہے کیونکہ جب نوجوانوں کو کھیل کے مواقع میسر نہیں ہوں گے تو ظاہر سی بات ہے ان نوجوانوں نے وقت صرف کرنے کے لیے انٹر نیٹ اور موبائل کو بغیر کسی مثبت مقاصد کے استعمال کرنا ہے۔

حکومت پاکستان اور وزیر کھیل کو چاہیے کہ پاکستان میں نوجوانوں کو کھیل کے بہتر سے بہتر مواقع کی فراہمی کو یقینی بنائیں جو کے انہیں انٹر نیٹ اور موبائل فوبیا ،ون ویلنگ، منشیات کے استعمال اور اس طرح کی دوسری منفی سرگرمیوں سے دور رکھنے میں کار آمد ثابت ہوں سکیں کیونکہ یہ ان مسائل کا سب سے اچھا متبادل ہے اور بغیر کسی اچھے متبال کے نوجوانوں کی توجہ کسی مثبت سرگرمیوں کی طرف مرغوب کرانا انتہائی مشکل کام ہے۔ حالانکہ تفریحی سرگرمیاں انسان کو ہمیشہ صحت مند رکھتی ہیں جیسے ایک مشہور مقولہ ہے کہ صحت مند جسم ہی ایک صحت مند ذہن رکھتا ہے۔

Hospital

Hospital

کچھ عرصہ پہلے اسپین کے شہر بارسلونا سے خبر آئی کہ اس کے ایک قریبی قصبے لیدا” میں ذہنی امراض کا ایک ادارہ ہے جس کی سربراہ ڈاکٹر اتگیس ہے وہ کہتی ہیں کہ ان کے ہسپتال میں پہلی بار ایسے بچوں کا علاج کیا جا رہا ہے جو موبائل فوبیا کا شکار ہو چکے تھے۔ ان بچوں کی عمریں 12 اور 13 سال ہیں، یہ سکول سے فیل ہو رہے تھے۔ نفسیاتی عوارض کے شکار ہو رہے تھے اور یہ اس قدر فون کے عادی ہو چکے تھے کہ فون کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ اخلاقی عادتیں بھی خراب ہو چکی تھیں۔ رشتہ داروں سے جھوٹ بول کر پیسے لیتے ہیں چنانچہ اب ان کا علاج کیا جا رہا ہے۔

مجھے یاد آیا اسی طرح کے میسج ہمارے ہاں بھی چل رہے ہیں کہ میں بڑی مصیبت میں ہوں مجھے تیس روپے کا ایزی لوڈ کر وا دیں اور یہ کہ مجھ پر لعنت اگر میں جھوٹ بولوں تو؟ مگر کیا کیا جائے کہ قسمیں اٹھانے والے اور اپنے آپ کو گالیاں دے کر بیس تیس اور دس روپے تک کا ایزی لوڈ لینے والے جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں۔ یہ بھی فون شروع ہو چکے ہیں کہ جناب آپ کو مبارک ہو آپ کی لاٹری پانچ لاکھ روپے نکلی ہے۔

بیک کال کیجئے، جب بے چارہ لالچ کا مارا کال کرتا ہے تو اگے ایک پراسیس بتلایا جاتا ہے جس میں وہ دس پندرہ ہزارخرچ کر دیتا ہے اور پھر پیسے لٹا کر بیٹھ جاتا ہے۔ الغرض! لوٹ مار کا ایک دھندا بھی شروع ہو چکا ہے۔ اس وقت پاکستان میں موبائل استعمال کرنے والوں کی تعداد 125 ملین سے بھی تجاوز کر رہی ہے جو کہ ایک بہت بڑی تعداد ہے۔

موبائل کمپنیوں نے بھی لوگوں کی خدمات میں بے شمار پیکجز نکالے ہوئے ہیں مثلا انہوں نے 100 سے لے کر 500 اور ہزار یا اس سے بھی زائدمفت پیغامات کی سروس دے دی ہے ایک ایک گھنٹے کے پیکج متعارف کرا دیئے ہیں۔ اب ان سے فائدہ اٹھا کر لڑکے اور لڑکیاں اپنے اخلاق تباہ کر رہے ہیں۔ الغرض! موبائل کا شیطانی پہلو خوب ننگا ہو کر ناچ دکھا رہا ہے اور ہماری نسل کو تباہ کر رہا ہے۔ بچیاں اپنی معلومات میسج پر دے دیتی ہیں پھر بلیک میل ہوتی ہیں اور گھرانوں میں وہ اندھیر مچ رہا ہے کہ اللہ کی پناہ۔ یاد رکھئے۔

Mobile

Mobile

موبائل کا زیادہ استعمال خطرناک بھی ہے جیسا کہ ایک امریکی سائنسدان ڈیوس کا کہنا ہے کہ موبائل فون دماغ کے سرطان کا سبب بن رہاہے۔ ڈیوس کے مطابق موبائل سے نکلنے والی شعائیں نقصان دہ ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کی موبائل کمپنیاں اپنے ساڑھے چار ارب صارفین اور تیس کھرب ڈالر کا بزنس بچانے کے لئے سالہا سال سے اس کوشش میں مصروف ہیں کہ موبائل کے استعمال سے ہونے والے دماغ کے سرطان اور دیگر عوارض کے سائنسی شواہد منظرعام پر نہ لائیں اور دفن ہی رہیں۔

والدین خصوصاً مائوں سے گزارش ہے کہ اپنے بچوں پر خاص نظر رکھیں جب دیکھیں کہ اس کے ہاتھ میں ہر وقت موبائل ہے دنیا و مافیہا سے بے نیاز وہ اپنی دھن میں لگا ہے، ماں باپ کی کسی بات پر توجہ نہیں، بڑے کوئی بات کر رہے ہیں، تو وہ صوفے میں گھس کر موبائل سے لگا ہے، تو مائیں پیار سے اس کی یہ عادت ختم کروائیں، خاص طور پر لڑکیاں جو ہر وقت ماں کے پاس ہوتی ہیں اور ماں کی عدم توجہی کی وجہ سے موبائل کو ہی اپنی ماں سمجھ بیٹھتی ہیں۔

مائوں کو چاہئے کہ ان کو وقت دیں، پڑھائی میں ان کی مدد کریں اگر نہیں پڑھ رہی ہوتیں تو تب بھی احساس کے لئے اس کے پاس بیٹھیں، فارغ اوقات میں گھر کے کاموں میں اسے اپنے ساتھ لگائے اور ساتھ ساتھ اسے نصیحت بھی کرتی رہے، اس طرح موبائل کی عادت کم ہو جائے گی۔ لیکن افسوس مائیں لڑکیوں کو موبائل دے کر خود ان سے دور ہو گئیں۔ ماشاء اللہ گھنٹہ بھر پیکج سے اپنی جان چھوٹے تو تب ہی وہ اپنی بچیوں کو ٹائم دے پائیں۔

آخر میں حکومت وقت سے التماس کرنا چاہوں گا کہ ایسی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جانے چاہییں تا کہ ہماری نوجوان نسل راہ راست کی طرف راغب ہو ۔اس کے علاوہ پی ٹی اے کو چاہیے کہ تمام طرح کے گھنٹہ پیکجز وغیرہ پت ہمیشہ کے لیے پابندی لگائیں اور لوگوں کو اچھی اور بہتر خدمات دینے میںموبائل کمپنیوں پر (Check and Balance) رکھیں۔

Mohammad Furqan

Mohammad Furqan

تحریر: محمد فرقان