اقبال کے شاہین تجھے سلام

Alama Iqbal

Alama Iqbal

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نُوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
سیاست دان کھانس بھی دیں توخبر ٹیلیوژن سکرین پر بریکننگ نیوز کی صورت میں چھا جاتی ہے۔نامور تجزیہ نگار اِس کھانسی کی پوشیدہ اور بظاہری وجوہات پر کھنٹوں کیمروں کے سامنے بیٹھے تبصرہ کرتے نظر آئیں گے۔پاکستان کا سرمایہ، درویش صفت ،جزبہ حب الوطنی سے سرشار سیکنڈوں میں انڈیا کی انا کو زمیں بوس کرنے والا محمد محمود عالم(ایم ایم عالم) 18-03-2013کوخاموشی کے ساتھ اِس عالمِ فانی سے رخصت ہو گیا ۔
بچھڑا کچھ اِس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اِک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

ایم ایم عالم کی زندگی کے بارے نہ تو کوئی خاص پروگرام پیش کیا گیا اور نہ کوئی خاص خبریں چلیں۔6جولائی 1935کو کلکتہ میں پیدا ہونے والا ایم ایم عالم زندگی کی 78بہاریں دیکھ کر خاموشی سے رخصت ہو گیا۔میں سالک مجید،محمد زاہرنور البشر،مستنصر حسین تارڑ ،نغمہ حبیب،حامد میر اور دیگر کالم نگاروں کا انتہائی مشکور ہوں کہ انہوں نے اپنے قیمتی اثاثے کے کھو جانے پر اپنے دکھ کا اظہار کیااور مستند تحریریں لکھیں۔

7ستمبر1965کوسکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم نے سرکودھا بیس کو انڈین حملوں سے انتہائی دلیرانہ انداز میں نہ صرف بچایا بلکہ انڈین ائیر فورس کے ایسے دانت کھٹے کئے کہ وہ آج تک اُس کھٹاس کے ذئقے سے خود کو آزاد نہیں کر پائے۔انہوں نے اپنے F-86طیارے جو اس وقت کے حساب سے کوئی خاص قسم کا جنگی طیارہ نہ تھا اور اُس کے مقابلے میں تیز ترین چھوٹے سائیز کے انڈین جیٹ تیارے تھے سب مار گرائے ۔ایم ایم عالم کو فلائٹ لیفٹیننٹ مسعود اختر نے سرگودھا بیس پر اچانک انڈین حملے کی وائرلیس اطلاع دی ایم ایم عالم پہلے سے کچھ انڈین طیاروں کا تعاقب کر رہے تھے۔

اطلاع ملنے پر وہ پلٹے تو اچانک سامنے سے انڈین ائیر فورس کے پانچ طیارے آتے دکھائی دیے انہوں نے 30سیکنڈ کے اندر اندر پہلے وار میں ہی انڈیا کے چار لڑاکا طیارے مار گرائے اور اگلے 30سکینڈ سے بھی پہلے ایک اور انڈین جیٹ طیارہ زمین بوس کر دیا ۔یوںتقریبا ایک منٹ میں انڈیا کے پانچ طیا رے تباہ کر کے انہوں نے ایسا عظیم ولڈ ریکارڈ قائم کیا جو آج تک ناقابلِ تسخیر ہے۔ایم ایم عالم نے اِسی سن 65ء کی جنگ میں تقریبا انڈیا ائیر فورس کے9لڑاکا طیارے تباہ و برباد کیے۔

مگر ہم نے اِس ہیرو کی ذرا بھی قدر نہ کی اور 1971ء کی جنگ میں انہیں بنگالی قرار دے کر ان پر طرح طرح کے الزامات عائد کر دیے گئے اور ایم ایم عالم کی بار بار کی جانے والی فرمائش کے باوجود انہیں 71ء کی جنگ میں حصہ لینے کیلئے معراج طیارہ نہیں دیا گیا۔ایم ایم عالم نے اپنا مرنا جینا پاکستان کے نام وقف کر دیا تھا اور اِس بات پر مرتے دم تک قائم بھی رہے ۔کیونکہ انہیں بنگلہ دیش کی جانب سے Air Chief Marshal بنانے کی آفر بھی کی گئی، مگر انہوں نے ٹھکرادی تھی ۔ایم ایم عالم کے اپنے الفاظ تھے کہ اگر وہ واپس بنگلہ دیش چلیں جائیں تو انقلاب لا سکتے ہیں۔

ایم ایم عالم کی تمام تر جیحات پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک انتہائی درویش صفت، اعلیٰ ظرف اور حب الوطن انسان تھے۔انہوں کی تمام زندگی اصول پرستی میں گزری ۔وہ دوٹوک بات کرنے کے عادی اور انتہائی بہادر اور دلیر بھی تھے ۔انہیں کتابوں سے دوستی اور مذہبِ اسلام سے الفت تھی ،نماز کی پابندی کرتے یونیفارم کے علاوہ لباس انتہائی سادہ کھدر کا ہوتا ،سر پر ٹوپی اور پائوں میں سلیپر ٹائپ جوتا پہنتے۔انتہائی قریبی ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ انہوں نے شادی نہیں کی تھی۔

وہ بہن بھائیوں میں نمایاں تھے والد صاحب کی وفات کے بعد انہوں نے تمام تر توجہ بہن بھائیوں کی کفالت کی جانب مرکوز کر دی تھی۔ایم ایم عالم نے پاکستان ائیر فورس میں 1953میں کمیشن لیا اور ائیر کموڈور کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے۔ پیارے وطن پاکستان میں ایمانداری، حب الوطنی اور وفاداری کا صلہ خوب دیا جاتا ہے۔ان کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے بھی کئی انکشافات سامنے آئے کہ انہیں جبراً ریٹائر کیا گیا۔ ایم ایم عالم سچ اور حق کہنے سے کبھی نہیں ڈرتے تھے۔

General Zia Ul Haq

General Zia Ul Haq

خواہ ان کے سامنے کوئی سینیئر ہی کیوں نہ ہو۔جب جنرل ضیاء الحق اپنے عزیزو اقارب کو اہم عہدوں پر فائز کر رہے تھے تو ایم ایم عالم ہی تھے جنہوں نے پوری قوم کے لیئے نہ صرف کلمہِ حق بلند کیا بلکہ جنر ل ضیاء الحق کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تھا کہ یہ سب آپ سراسر غلط کر رہے ہیں۔ آپ کی وفاداری واضح ثابت ہو رہی ہے جو کہ ملک و قوم کیلئے نہیں اپنی ذات برادری کیلئے ہے۔

آگے چل کر یہی حق اور سچ کے کڑوے الفاظ ایم ایم عالم کی پروموشن کو روکتے ہوئے اُن کی جبراً ریٹائر منٹ کی وجہ بنے۔خیر ایم ایم عالم کی ریٹائر منٹ کے حوالے سے کئی باتیں سامنے آئیں۔کچھ نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے خود ریٹائر منٹ لی تھی ۔اُن کی ریٹائر منٹ متنازہ ہی بنی رہی ۔جِس ایم ایم عالم نے پوری انسانیت ،تمام قوم کیلئے آواز اُٹھائی انصاف دلانے کی کوشش کی وہ آخری دم تک انصاف سے دور رہا۔ جناب مستنصر حسین تارڑ نے اپنے کالم میں بہت خوب لکھا ہے کہ وہ نہ صرف عالم میں انتخاب تھا ،بلکہ خود عالم تھا۔

ایم ایم عالم کی عالمانہ و درویشانہ خصوصیات کِسی تعرف کی محتاج نہیں جب میں نے یہ کالم لکھنے کا سوچا تو مجھے خیال آیا میں تو ایک سولین ہوں اور جِس کے بارے لکھنے جارہا ہوں وہ کوئی عام ہستی نہیں پاکستان ائیر فورس کے ائیر کموڈور (ر) رہ چکیں ہیں لہذا میں نے وردی والوں سے رابطہ قائم کیا ۔ایک ریٹائرڈ آرمی آفیسر ”ایس
،کے عباس” سے گفتگو کے درمیان ایم ایم عالم کے بارے ایک انتہائی خوبصورت بات سامنے آئی۔ملٹری آفیسر(ر)ایس، کے عباس اپنی یاد داشت دہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک روز میں ان سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے کیلئے گیا ہوا تھا وہ اُس وقت پشاور ہیڈ کوارٹر میں تعینات تھے۔

اِن کے آفس میں ایک ملازم تھا پٹھان سا سب اُسے بابا ،بابا کے لقب سے پکار رہے تھے یہ بابا شاید چپڑاسی کی پوسٹ پر تعینات تھا۔بابا کافی پریشانی کے عالم میں آ جا رہا تھا اِس پریشانی کا اندازہ مجھے بھی ہو گیا تھا ۔ ایم ایم عالم نے بھی اُس بابا کی پریشانی کو بھانپ لیا تھا ۔انہوں نے بابے کو اپنے پاس بلایا انتہائی شفقت سے اُس کی پریشانی کا سبب بیان کرنے کو کہا ۔بابا بچارا جو شاید پہلے سے ہی بھرا پڑا تھا اتنی شفقت اور محبت پا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور کہا ۔عالم صاحب میں بہت پریشان ہوں میری بیٹی کی شادی تیار ہے۔

میرے پاس کچھ بھی نہیں ہو سکے تو آپ میری کچھ مالی امداد فر مادیں تاکہ میں اپنی لختِ جگر کو سُر خ جوڑا پہنا کر با عزت رخصت کر سکوں۔ایم ایم عالم اُس بابے کی فریاد سن کر خود بھی پریشان ہو گئے اور اِسی عالم میں فوری طور پر ایک معقول رقم کا چیک سائن کر کے بابے کے حوالے کر دیا ۔بابا دعائیں دیتا ہوا روانہ ہوگیا ۔اگلے روز بابا پہلے سے زیادہ پریشانی کے عالم میں دوبارہ ایم ایم عالم کے پاس آگیااور جیب سے چیک نکال کر واپس دیتے ہوئے بولا کہ صاحب آپ کے اکائونٹ میں تو صرف 17روپے اور 50پیسے ہی ہیں جبکہ آپ نے مجھے ایک بڑی رقم کا چیک دیا ہے۔

MM Alam

MM Alam

یہ سنکر ایم ایم عالم نے نہ صرف شرمندگی کا اظہار کیا بلکہ اُس بابے سے معافی بھی مانگی اور کہا مجھے اندازہ ہی نہ تھا کہ میرے اکائنٹ میں رقم موجود نہیں ہے ۔پھر بابے سے پو چھا کہ آج تاریخ کیا ہے تو بابے نے کہا کہ آج 26تاریخ ہے ۔تو عالم صاحب نے کہا کہ بابا جی آپ چار ،پانچ دِن بعد یعنی یکم تاریخ کو میرے پاس آئیں اور ایک بار پھر
معذرت کی۔اور پھر یکم کو میری نگاہوں کے سامنے پورے ماہ کی ساری تنخواہ(Saving)اُس بابے کی ہتھیلی پر رکھ دی اور ایک بار پھر معذرت کی کہ آپ کو دیر تک پیسوں کا انتظار کرنا پڑا۔ایس۔ ایم عباس کہتے ہیں کہ مجھے اُس دِن اندازہ ہوا کہ اصل درویش کِسے کہتے ہیں یعنی جسے اپنے اکائونٹ میں موجود رقم کا اندازہ ہی نہیںکہ ہے بھی یا نہیں۔

ائیر فورس کے ایک اور ریٹائرڈ آفیسر نے بھی ایم ایم عالم کی گزشتہ حیات کے بارے تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ انتہائی سادہ لوح اور درویش صفت ہونے کے ساتھ ساتھ خوش اخلاق قول و فعل کے پکے اور سچے انسان تھے۔اور انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اُن کی حیات میں ہی پاکستان کی چند شاہراہوں کو ایم ایم عالم کے نام سے منسوب کر دیا گیا تھا۔لیکن یہ کافی نہیں ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو ایسے جانباز ،نڈر حب الوطن ہیروز کی زندگیوں کے بارے بتانا ہوگا ۔اِس کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان میں کئی ایک مقامات پر ایم ایم عالم کے نام سے چھوٹی موٹی یادگاریں بنا دی جائیں۔

ساتھ ہی اِس عظیم ترین ہیرو کے کارنامے تحریری صورت میں درج کر دیے جائیں ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جِس روز ایم ایم عالم نے داعی اجل کو لبیک کہا اُس کے اگلے روز ہی تمام سکولوں اور کالجوں میں تقریباً10منٹ کا ایم ایم عالم کی حیات کے بارے لیکچر دیا جاتااور ویسے بگڑا تو ابھی بھی کچھ نہیں ہے ۔ ویسے ہونا تو یہ ہی چاہیے کہ ہم اپنے تمام تر عظیم ہیروز کی زندگیوں پر آنے والی نسلوں کو لیکچرز دینے کا خاص اہتمام کریں۔اور ایسا کالجوں ،یونیورسٹیوں اور سکولوں و اکیڈمیوں میں باخوبی ہوسکتا ہے۔

ہر ملک قوم کے قومی ہروز وقم و ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں اور دانشور سر مائے کی قدر کرنا خوب جانتے ہیں۔ایم ایم عالم ایک ایسی ہستی تھے جنہیں بھول پاناقدردان اور جذبہِ حب الوطنی سے سرشاردلوں کیلئے ناممکن ہے۔ بلاشبہ ایم ایم عالم آپ ”فخرِ پاکستان تھے”آپ”مردِ مجاہد تھے”آپ ”قبال کے شاہین تھے”آپ”قوم کے سچے سپاہی تھے”آپ”جانباز بیٹے تھے”اے پاک وطن کی مٹی گواہا رہنا ہم ایم ایم عالم کو کبھی بھول نہ پائیں گے۔ شاید میڈم نور جہاں نے ایم ایم عالم جیسے مردِ مجاہد وں کیلئے ہی کہا تھا کہ ”اے پُتر ہٹاں تے نئی وکدے ،تُوں لبدی پھریں بازار کُڑے”(یہ بیٹے دکانوں پر نہیں بکتے ،تم چاہے بازار وں میں ڈھونڈکر دیکھ لو)
بدل دے ہستی کو اپنی اگر کچھ مرتبہ چاہتا ہے
کہ دانہ خاک میں مِل کر گلِ گلزار ہوتا ہے

Muhmmad Ali Rana

Muhmmad Ali Rana

تحریر : محمد علی رانا
0300-3535195
muhammadalirana26@yahoo.com