داعش القاعدہ کی طرح کا امریکی ڈرمہ ہے

America

America

تحریر:پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید

امریکہ اور اسرائیل نے برطانیہ کو اعتماد میں لے کر عرب اور اسلامی دینا خاص طورپر ایران کی تباہی اور پاکستان جیسی اسلامی ایٹمی قوت کو قابو کرنے کے لئے داعش کے نام سے ایک اور ڈرمے کا آغاز کر دیا جس طرح ا نہوں نے پہلے تحریکِ جہاد اروس کے خلاف شروع کرائی ا ور بعد کی القاعدہ،جسے دہشت گرد تنظیم کہا جانے لگا۔جس کے نام پر ایک جانب مشرق وسطیٰ کے اسلامی ممالک میں تباہی پھیلائی گئی اور بعد میں افغانستان اور پاکستان کی تباہی کے دروازے کھول دیئے۔داعش کے ڈرامے کو multi purposes Drama، کے طور پر ہمیں بنظرِ غائر دیکھنا ہوگا۔کیونکہ یہاں پر ایک جانب ایران کا ایٹمی پروگرام امریکہ اور اسرائیل کے نشانے پر ہے تو دوسری جانب پاکستان کو بھی کسی حالت میں آگے نہیں بڑھنے دینا ہے۔

جو ا ن کی آنکھوں میں خطر ناک کانٹے کے طور پر کھٹک رہے ہےں۔تیسری جانب گریٹر اسرائیل کی تعمیر میں عرب ریاستوں کے حصے بخرے اور ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کر کے دنیا کی راج دہانی پر ہمیشہ کےلئے امریکہ اپنا سکہ بر قرار رکھنے کی تگ و دو میں دن رات مصروف ہے۔ان گندے مقاصد کی تکمیل میں اس کا سب سے بڑا معاون اسرائیل ہے اور دوسرے نمبر کا خفیہ معاون برطانیہ ہے۔جنہوں نے داعش نامی جعلی اسلامی تنظیم کھڑی کر کے اس کے سربراہ کوبڑے سُتھرے طریقے تربیت دے کر اسلامی اسکالر کے طور پر پیش کیا ہے۔داعش کی تحریک کو اسلامی جذباتیت کا رنگ دے کر اپنے ایک انتہائی تربیت یافتہ شخص کو ” ابو بکر البغدادی“کا نام دے کر میدا ن میں اتارا گیا ہے جو(بلیک واٹر) کالے پانی کا انتہائی خطر ناک ایجنٹ ہے۔در حقیقت یہ عرب دنیا کے لئے ایک ا ور ”لارنس آف عربیہ “ ہے۔

جسے اپنی مادری زبان انگریزی کے ساتھ عربی زبان کا بہت بڑا ما ہرعالم بنایا گیا ہے۔ جسے قرآن و حدیث کی بھی بہترین علمی قابلیت دلائی گئی ہے۔جس کو تحریر و تقریر کے فن سے بھی آراستہ کیا گیا ہے۔ جس کا تعلق عراق کے شہر بغدا کے ایک غیر معروف گاﺅں سے بتایا جاتا ہے، جس کے شواہد موجود نہیں ہیں۔ا لبغدادی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے اسلامک یونیورسٹی آف بغداد سے تعلیماتِ اسلامی میں بی اے،ایم اے اور پی ایچ ڈی کیا ہے ۔مگر اس دعوے کے شواہد نا پید ہیں۔کوئی ان کے گاﺅں کا فرد یا کلاس فیلو آج تک سامنے نہیں آیا ہے۔

ابو بکر ا لبغدادی شکل و شباہت کے لحاظ سے تو عرب لگتا ہے۔اس کو (ISIS ) اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ شام (دولتِ اسلامیہ فی العراق و شام) کا سربراہ بنا کر میدانِ عرب پر اتارا گیا ہے۔(مستقبل کی تاریخ موجودہ ابو بکر ا لبغدادی کے چہرے کا پردہ ضرور ہٹائے گی پھر دودھ کا دودھ پانی کا پانی سامنے آجائے گا) مبینہ طور پر 2003 ،میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے ایک عسکری تنظیم جماعت جیشِ اہلِ سنت والجماعت کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا تھا پھر کہا جاتا ہے کہ ا لبغدادی 2006، میں مجاہدین شہری کونسل کا حصہ بن گیااور 29،جون 2014، کو اس گروپ نے اپنا نام دولتِ اسلامیہ رکھ لیا اور خلافت قائم کرنے کا اعلا ن کر د یا جس کا خلیفہ ابو بکر ا لبغدادی کو بنا یا گیا۔ داعش کے امیر ابو عمر ا لبغدادی کے قتل کے بعد ابوبکر ا لبغدادی 16، مئی 2010 ،کو داعش کے امیر مقرر ہوئے۔ داعش کے 43، سالہ رہنماابو بکر ا لبغدادی کو ایک دوسرے نام، ابراہیم بن عواد کے نام سے بھی متعارف کرا یا گیا ہے۔

10،ستمبر 2014،کوامریکہ نے داعش کو عراق اور شام دونوں مقامات پر کچلنے کے منصوبے کاعلان کیا۔جس کے نتیجے میں 23،ستمبر سے امریکی جنگی طیارے مسلسل داعش اور القاعدہ کو فضائی حملوں کا نشانہ بنانے کا دعویدار ہے۔ عراقی نٹیلی جینس کا کہنا ہے امریکی فضائی حملے میں داعش کے سربراہ ابو بکر البغدادی کی ممکنہ ہلاکت کی تحقیقات شروع کردی گئی ہے ۔اس بارے میں ابھی تک کوئی حتمی معلومات موجود نہیں ہیں۔ کہا گیا ہے کہ ا س کی تصدیق میں چند دن لگیں گے۔جب کہ دوسری خبر یہ ہے کہ دولت اسلامیہ کی جانب سے ابوبکرا لبغدادی کے زخمی ہونے کی تصدیق کردی گئی ہے۔

ایک خبر یہ بھی ہے کہ دولت اسلامیہ کے سر براہ کی گرفتاری پر واشنگٹن نے ایک کروڑ ڈالر کا انعام رکھا تھا۔امریکی محکمہ دفاع کے ریکارڈ کے مطابق البغدادی کو ایک بار گرفتار بھی کیا گیا اور وہ 2004، میں چند ماہ عراق میں امریکی فورسز کی قید میں بھی رہا۔ ، اکتوبر 2011، کو امریکی دفترِ خارجہ نے ابو بکر ا لبغدادی کو انتہائی مطلوب عالمی دہشت گرد قرار دیتے ہوئے ان کے زندہ یا مردہ گرفتاری پر یا معلومات فراہم کرنے پر ایک کروڑ ڈالر کا انعام کا بھی اعلان کیا تھا۔

عراقی انٹیلی جینس ایجنسی کے ذریعے سے خبرد لوائی گئی کہ 9 ،نومبر2014 کو ایک ا مریکہ کی جانب سے داعش کے ایک ٹھکانے پر حملہ کیاگیا ہے۔یہ ڈرامےائی خبر ساری دنیا میں پھیلائی گئی۔جس میں کہا گیا کہ داعش کے اجلاس میں اتحادی طیاروں نے بمباری کی ابو بکر البغدادی کے مارے جانے کی اطلاع بھی ہے۔ مگر یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ مارا گیا ہے یا نہیں۔مگرمتعدد کمانڈر مارے گئے ہیں۔اطلاعات کے مطابق عراق کے علاقے القاسم میں اُس مکان کو نشانہ بنایا گیا جہاں داعش کے سینئر رہنما اجلاس کے لئے اکٹھا تھے۔مگر امریکہ کی جانب سے اس حملے کی شدت کے ساتھ تردید کی گئی ہے۔امریکہ کی جانب سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکہ نے القاسم میں کوئی حملہ نہیں کیا البتہ ایک چھوٹے سے قافلے پر بمباری ضرور کی گئی ہے۔

امریکہ اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کے لئے کئی مصنوعی ڈرامے بھی کھیلتا رہا ہے اور مزید بھی کھیلے گا۔جس میں اگر اسے ضرورت پڑی تو بغدادی کو بھی مار دے گا۔تاکے اس پر کوئی حروف نا آئے۔اور دنیا اس کے اور اسرائیل کے کھیل سے بے خبر رہے۔

Washington


Washington

دوسری جانب امریکہ ایران کو جال میں پھنسانے کے لئے ایک نیا جال بُن رہا ہے جس کی واشنگٹن پوسٹ نے امریکی صدر بارک اوبامہ کے حوالے سے خبر دی ہے جس میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ انہوں نے ایرانی صدر آیت اللہ خامینائی کو خفیہ طور پر خط لکھا ہے جس میں اوبامہ نے شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف جنگ میں تعاون پر زور دیتے ہوے کہا ہے کہ داعش امریکہ اور ایران کے لئے مشترکہ خطرہ ہے۔جس کے خلاف مل کر لڑنے کی ضرورت ہے۔دنیا دکھاوے کے لئے داعش کو نشانہ بنانے کا ڈرامہ بھی امریکہ کی طرف سے رچایا جا رہا ہے۔مگر اس کے ان ڈرامائی حملوں کا داعش پر کوئی خاطر خواہ اثر دکھائی نہیں دیتا ہے۔ دوسری جانب مسلمانوں میں شیعہ سُنی اختلافات کو عروج پر پہنچا کر اپنے مذموم مقصد حاصل کر نا چاہتے ہیں۔

شام میں برسرِ پیکار داعش نامی شدت پسند تنظیم کے ابوبکر ا لبغدادی خود ساختہ خلیفہ نے اپنے نئے وڈیو پیغام میں ان افوہوں کی تردید کی ہے جن میں کہا جارہا تھا کہ امریکی فضائی کار وائی میں وہ مارے گئے ہیں۔اپنے آڈیو پیغام میں ابو بکر ا لبغدادی نے اپنے لوگوں کو یہ ہدایت جاری کی ہے کہ وہ عرب ممالک پر حملے کریں۔وہاں موجود مرتدوں کو جہنم رسید کریں ۔دوسری جانب داعش کی قیادت پر امریکہ کے فضائی حملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیاان کا پہلی مرتبہ یہ بھی کہنا تھا کہ داعش اب عراق و شام سے نکل کر پوری دنیا میں اپنے قدم جما رہی ہے۔ان کے اس آڈیو پیغام کا انگریزی زبان میںمتن بھی جاری کیا گیا ہے۔

ابوبکر ا لبغددی کے اس آڈیو پیغام سے بھی اس بات کی کھل کر وضاحت ہوتی ہے کہ یہ امریکی اور یہوی پٹھو ہیں جو اسلامی دنیا کو کبھی بھی سکون سے نا رہنے دیں گے۔جہاد کے نام پر ایک جانب مسلم ممالک میں انتشار پیدا کرنا ہے تو دوسری جانب شیعہ سُنی فساد برپا کرانا ہیں۔ تیسری جانب اسرائیل کو مضبوط کرنے کی غرض سے عرب ریاستوں کی تخریب ان کے ایجنڈے کاحصہ ہے۔اس میں ایک جانب انہیں شیعہ انتہا پسندوں کی حمایت حاصل ہو گی تو دوسری جانب سُنی انتہا پسندوں کو بھی اپنے جال میں پھنسائے رکھیں گے۔

امریکہ کے محکمہ دفاع کی جانب سے پاکستان پر یہ الزام لگایا ہے کہ پاکستان ہندوستان اور افغانستان میںشدت پسندوں کو ان ممالک کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔جس کا کوئی کوئی ثبوت بھی فراہم نہیں کیا گیا ہے۔پاکستان نے پینٹاگون کی رپورٹ پر امریکی سفیر کو محکمہ خارجہ میں طلب کر کے شدید احتجاج کیاہے۔در حقیقت امریکہ ایک جانب پاکستان کے خلاف ہندوستان کو منظم کر رہا ہے تو دوسری جانب اپنے اُن ایجنٹوں کے ذریعے جنکو گذشہ حکومت کے دور میں ریمنڈ ڈیوس کے ساتھ بغیر ویزوں کے داخلہ دیدیا گیا تھا ۔ انکی تعداد سات سوپتائی گئی تھی جو تمام کے تمام بلیک واٹر کے کارندے تھے۔پاکستان میں جس قدر بھی سبوتاج کے کھیل کھیلے گئے تھے

ان میں ا ن ایجنٹوں کی بھر پور شرکت تھی ا ور آج یہی لوگ راتوں کے اندھیروں میں نکل نکل کر داعش کے لئے شہر بہ شہر میں وال چاکنگ میں مصروف ہیں۔کیونکہ ایرا ن اور پاکستان ان کے بڑے ٹارگیٹ ہیں۔ گذشتہ ہفتے اعلیٰ حکومتی ادارے کے عہدیداروں کو داعش کے حوالے سے بھیجا گیا ایک خفیہ میمو منظر عام پر بھی لایا گیا ۔ جس میں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو انتباہ جاری کیا گیا اورجس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ داعش پاکستان پر حملوں کے لئے ماسٹر پلان بنا رہی ہے۔جس نے دس رکنی اسٹرٹیجک ونگ بھی تشکیل دیدیا ہے۔جو پاک فوج اور حساس تنصیبات کو نشانہ بنائے گا۔

امریکہ کی سی آئی اے ایجنٹس مسلمان خوتین کے روپ میں داعش کاحصہ بن رہی ہیں جن کے متلق کہا جارہا ہے کہ انٹر نیٹ کے ذریعے مغرب سے تعلق رکھنے والی سینکڑوں مسلمان نوجوان خواتیں دولتِ اسلامیہ عراق و شام کے جنگجووں سے شادی کےلئے شام جا چکی ہیں۔کیونکہ داعش نے جنگجو بھرتی کرنے کے لئے (سماجی ابلاغ)سوشل میڈیاکا استعمال شروع کیا ہوا ہے۔ یہ خبر بھی زبان زدِ عام ہے جس کو ایک امریکی سیکورٹی ایجنٹ ایڈورڈ اسٹون نے ظاہر کیا ہے جو ا مریکی نیشنل سیکورٹی ایجنسی کی دستاویزات پر مبنی ہیں۔کہ ا بو بکر ا لبغدادی اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کا ایجنٹ ہے۔ ایڈورڈ اسٹون کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان پوشیدہ دستاویزات نے ا ن قیاسوں پر بھر پور روشنی ڈالی ہے۔

یہ بات حیرت انگیز ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ایک خاصی تعداد بمعہ اقوام متحدہ نے اس تنظیم کو دہشت گرد تنظیم Declare ، کر دیا ہے۔یہ بات ہمیں ذہن میں رکھنی چاہئے کہ مغرب کی ایجنسیوں کا یہ وطیرہ ر ہا ہے کہ جو کچھ یہ کرتی ہیں اُس کے معنی ا لُٹ ہوتے ہیں۔ مگریہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اچانک یہ تنظیم ابھر کر سامنے آتی ہے اور عراق کے بڑے بڑے علاقوںاور تیل کی تنصیبات پر آسانی کے ساتھ قبضہ بھی کر لیتی ہے اور عراق کی شیعہ کمیونیٹی پر مظالم کی انتہائی بھیانک تصویر بھی مرتب کر دیتی ہے۔

جس سے شیعہ سنی نفاق کے بیج بوے جا رہے ہیں ۔تاکہ اس دشمنی کی آڑ میں امریکہ و اسرائیل کا ایجنڈا پروان چڑھانے میں کوئی دقت بھی سامنے نا آئے اور مسلمانوں کے نفاق سے ان کے مقاصد کے حصول کو انتہائی آسان بنا لیا جائے۔ایک سوال یہ بھی ہے کہ داعش کے پاس اس قدر جدید ترین اسلحہ کن ذرئع سے پہنچا؟ان کے جنگجووں کی تربیت کہاں کی گئی ؟اس جدید ترین اسلحے کی خریداری کے لئے اس قدر کثیر رقم کس نے مہیا کی ؟ اس کا جواب اکثر ما ہرین یہ دیتے ہیں کہ یہ کام سی آئی اے اور موساد مل کر رہی ہیں۔جس میں دونوں کے ممالک کے اپنے اپنے مفادات شامل ہیں۔مگر مغربی میڈیا سے اس کے بر عکس پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ ابوبکر ا لبغدادی اور آئی ایس آئی ایس کو سعودی عرب اور قطر کے شہریوں سے امداد مل رہی ہے۔جس کی ہر دو جانب سے تردید کی گئی ہے۔تمام پاکستانیوں کو داعش کے ڈرامے سے اپنے آپ کو دور رکھنے کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔

Shabbir Khurshid

Shabbir Khurshid

تحریر:پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbir4khurshid@gmail.com