چلو، چلو! اسلام آباد چلو

Tahir ul Qadri

Tahir ul Qadri

آپریشن ضربِ عضب دھرنوں کی دھول میں گُم ہو گیا،آئی ڈی پیزکی بے بسی وبے کسی پرما یوسیوں کی سیاہ چادر ڈال دی گئی اور ہم نے انقلاب کی خاطر”چلو، چلو! اسلام آباد چلو” کے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے دھرنے کے شرکاء کی تعداد سے مایوس ہو کر پوری قوم کودھرنے میں شرکت کی اپیلیں کرنا شروع کر دیں اور محترم خاں صاحب نے سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز کر کے قائدِ اعظم کااحسان اتارنے کی تگ ودَو۔اگر خدانخواستہ سِول نافرمانی کی تحریک کامیاب ہو گئی تو پھر خاکم بدہن ہمیںایک دفعہ پھر اُسی کرب سے گزرنا پڑے گا جس سے دسمب 1971ء کو گزرنا پڑا تھا۔

ہم توکرب سے آشناہیںکہ بچشمِ نَم پاکستان کودوٹکڑے ہوتے دیکھالیکن نسلِ نَوکوکیاپتہ کہ یہ کرب کیاہوتاہے۔ہماراجینامرناتواسی دھرتی سے جُڑاہواہے۔رہنماؤںکاکیاہے اُن کے توپوری دُنیامیںٹھکانے ہیں۔یہاںنہ سہی تووہاںسہی۔سوچناتونسلِ نَوکوہے کہ کہیںاُن کے جذبات سے کھیلاتونہیںجارہا؟۔کہیںاُن کی معصومیت کولہومیںڈبوکرہوسِ اقتدارکی راہوں کو ہموار تو نہیں کیا جارہا؟۔کہیںکوئی خفیہ ہاتھ افراتفری اورانارکی پیداکرکے قائد کے پاکستان کے مزیدٹکڑے تونہیںکرناچاہتا؟۔اُنہیںایک لحظے کے لیے رُک کریہ سوچناہوگا کہ اوّلیت کسے ہے،ملک کویااقتدارکے پجاریوںکو؟۔اُنہیںیہ بھی سوچناہوگاکہ کیا احتجاجوںاورتحریکوںکے لیے یہ وقت مناسب ہے؟۔کپتان صاحب بھلے اِس سے بھی کوئی بڑی تحریک لے کراٹھتے اورمیاںبرادران کوگھر بھیج دیتے لیکن قوم کے سامنے اپنامقدمہ پیش کرتے وقت کیاانہوںنے سوچاکہ اقتدارکی اِس جنگ میںاُن ماؤںکے دلوںپرکیاگزرتی ہوگی جن کے کڑیل جوان سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنی جانوںکے نذرانے پیش کررہے ہیں،اُن بہنوںکاکیاحال ہوتاہوگاجِن کے وجیہہ وشکیل بھائی اپنے قدموںپہ چل کر گئے اورآئے پاکستان کے جھنڈے میں لپٹے ہوئے تابوتوںمیں،اُن سہاگنوںکاکیاعالم ہوتاہوگاجِن کے سہاگ وطن کی آبروپرقربان ہوگئے۔بوڑھے باپ یہ سوچتے توضرورہونگے کہ اُنہوںنے اپنے جگرگوشوںکی قربانی کیوںدی؟۔کیاایسے لوگوںکے لیے جن کی ہوس کے خونی پنجے ملکی سا لمیت کو اُدھیڑکے رکھ دینے کے درپے ہیں؟۔

مولاناقادری نے کینیڈامیںبیٹھ کریہ دعویٰ کیاتھاکہ اُن کے انقلاب میںایک کروڑلوگ شامل ہونگے اورایک پتاہلے بغیرانقلاب آجائے گالیکن” کھوداپہاڑ،نکلاچوہا”۔وہ بیس،پچیس ہزارعقیدت مندبھی اکٹھے نہ کرسکے،یہ الگ بات ہے کہ وہ اسی کوپانچ،چھ لاکھ ظاہرکررہے ہیں۔چلیںپانچ چھ لاکھ بھی مانے لیتے ہیں مگر ایک کروڑ۔۔۔۔؟۔مولاناکہتے ہیںکہ ایک پتاہلے بغیرانقلاب آجائے گالیکن انقلاب توہوتاہی لہورنگ ہے اورنخلِ انقلاب کی آبیاری ہمیشہ لہوسے ہوتی ہے کیونکہ اسے لہوبہت مرغوب ہے۔فرانس میںانقلاب آیااورایک لاکھ چوبیس ہزارانسانوںکوچاٹ گیا۔روس کے انقلاب میںلگ بھگ پچیس لاکھ،امریکی سول وارمیںچھ لاکھ اورماؤزے تنگ کے طویل ترین ثقافتی انقلاب میںتیس لاکھ لوگوںکواپنی جانوںسے ہاتھ دھونے پڑے۔ہمارے پڑوس میںامام خمینی کے انقلاب میںشاہ ایران نے ساٹھ ہزارماردیئے اورانقلاب کے بعدامام خمینی کے پیروکاروںنے سوا لاکھ۔تاریخ تویہی بتلاتی ہے کہ انقلاب ہمیشہ خونی ہی ہوتے ہیںلیکن مولاناصاحب کا”سبزانقلاب”پتہ نہیںکیسے خوںرنگ نہیںہوگا۔ہوسکتاہے کہ کینیڈاسے امپورٹ کیے گئے انقلاب خوںرنگ نہ ہوتے ہوں۔یایہ بھی ہوسکتاہے کہ مولاناکے نزدیک انقلاب بھی کوئی جنسِ بازار ہے جسے جب جی چاہا،پیسے دے کر خریدلیا۔مایوس کُن دھرنے اور48گھنٹے کے الٹی میٹم جیسے فلاپ شوکے بعداب مولانانے پاکستانی عوام سے اپیلیںکرنی شروع کردی ہیںکہ وہ جلدازجلداسلام آبادپہنچ کراُن کے دھرنے میںشامل ہوں۔اُن کافرمان ہے”اب گھروںمیںبیٹھناحرام ہے”۔لیکن شایدمولاناخودبھی نہیںجانتے کہ کچھ عقیدت مندوںکے سواکوئی اُنہیںعالمِ دیںتک ماننے کوتیارنہیں،مفتی توبہت دورکی بات ہے۔ہم تواتناجانتے ہیںکہ اللہ کے نام پرحاصل کیے گئے اِس ملک میںافراتفری پھیلانااوراسے انارکی کی طرف دھکیل کرلے جاناگناہِ کبیرہ اورحرام ہے۔

عمران خاںصاحب نے بھی دھرنے کے شرکاء کی تعدادسے مایوس ہوکر سِول نافرمانی کی تحریک شروع کردی اورمیاںبرادران کواستعفوں کے لیے 48گھنٹوںکاالٹی میٹم دے دیالیکن چوبیس گھنٹے بھی گزرنے نہ پائے تھے کہ خودسوائے خیبرپختونخواکے ساری اسمبلیوںسے مستعفی ہونے کااعلان کردیا۔خیبرپختونخواسے اِس لیے نہیںکہ وہاں اُن کی اپنی حکومت ہے اوروہاںالیکشن کروانے کے لیے آسمان سے فرشتے اُترے تھے۔ اگروہاںبھی اسی کرپٹ الیکشن کمشن کی زیرِنگرانی انتخابات ہوئے توپھروہاںبھی یقیناََدھاندلی ہوئی ہوگی۔اگرپرویزخٹک کی حکومت بھی دھاندلی ہی کی پیداوارہے توپھروہاںاستعفے کیوںنہیں؟۔جب پورے پاکستان نے سول نافرمانی کویکسر مستردکردیاتوخاںصاحب نے استعفوںکاآپشن استعمال کرتے ہوئے ”ریڈزون”میںداخلے کااعلان بھی کردیااوردھرنے کے شرکاء کی انتہائی مایوس کُن تعدادکودیکھتے ہوئے لاہور اور خیبرپختونخواکے”سونامیوں”کواسلام آبادپہنچنے کی اپیل بھی کردی۔ اُنہوںنے سونامیوںکوپُرامن رہنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایاکہ آج(19اگست)کو ریڈزون کراس کیاجائے گا۔پتہ نہیںخاںصاحب کس کوبیوقوف بنارہے ہیں،جب ریڈزون کراس ہوگا توخون توبہے گا۔قوم کے جذباتی بچے اوربچیاںتوخاںصاحب کی پکارپرلبیک کہہ رہے ہیںلیکن خاںصاحب کے اپنے بیٹے اورتحریکِ انصاف کے اکابرین کے بچے بچیاںاپنے گھروںمیںاستراحت فرمارہے ہیں۔سونامیے ریڈزون ضرورکراس کریںلیکن اِس شرط کے ساتھ کہ صرف عمران خاںصاحب نہیں بلکہ ان کے بیٹے اورتحریکِ انصاف کے تمام رہنماؤںکے خاندان صفِ اول میںہوںاورکارکُن پیچھے۔

Imran Khan

Imran Khan

دراصل سیاسی نَوواردخاںصاحب کوپتہ ہی نہیںتھاکہ دھرنے میںکیامشکلات پیش آسکتی ہیں۔پہلے دن تووہ اپنے بنی گالہ میںبنائے گئے محل میںکھسک لیے لیکن دوسرے دن ”عاجزانہ درخواست”کے باوجودسونامیے ڈَٹ گئے اورخاںصاحب کو وہیں گدابچھاکر لیٹناپڑا۔ اُس وقت اُن کی حالت یہ تھی کہ
بستر کی ہرشکن سے پوچھ اُس کی بے قراری کاٹی ہورات جس نے کروٹ بدل بدل کے خاں صاحب تین گھنٹے تک کر وٹیں بدلتے رہے اورجب دیکھا کہ سونامیے خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہیںتوچپکے سے”پھُر”ہوگئے۔

بنی گالہ میںجب ایک نیوزچینل کی اینکرپرسن نے سوال کیاکہ خاںصاحب نے راہِ فرارکیوںاختیارکی تواُن کاجواب تھاکہ مارچ کے شُرکاء تواِدھراُدھراپنابندوبست کرلیتے ہیں،کچھ مساجداورمارکیٹ کے غسل خانوںمیںچلے جاتے ہیںاورکچھ جھاڑیوںکوہی غسل خانے سمجھ لیتے ہیںاورچونکہ اُنہیںبھی نہانا ہوتاہے اِس لیے وہ بنی گالہ آجاتے ہیں۔ظاہرہے کہ قوم کے غم میںگھلے جانے والے کپتان صاحب عام سے گندے غسل خانوںمیںتونہیںجاسکتے۔اُن کے 300کنال پرمشتمل محل میں توکروڑوںکی لاگت سے تیار کیے گئے”باتھ رومز” ہیں۔پھربھلاوہ عوام کے لیے بنائے گئے غلیظ غسل خانوں میں کیوں جائیں۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر