کیا ہم آزاد ہیں؟

Quaid-e-Azam

Quaid-e-Azam

قائد اعظم کے وہم و گمان میں نہ ہوگا کہ جس ملک کے حصول کیلئے وہ اپنی نیندیں حرام کیے ہوئے ہیں اور جس قوم کو آزادی دلانے کی خاطر وہ اپنی جان کی بازی لگا رہے ہیں کہ وہ قوم اتنی بیمار، بے حس، بے کس اورنالائق ہوگی کہ ملک مسائل کی گھمن گھیریوں میں پھنس جائے گا اور وہ قوم محض افراد کا جمگھٹا ثابت ہو گی۔

قائد کی امانت پر تیر گروں کس قدر اشکار ہوگااور انہیں کیا معلوم تھاکہ یہ اُلوآزادی کی اس رنگین فضا کو گھٹن و بے سکونی اور عدم تحفظ کی فضا بنادیں گے اور مفت کی کھیر کھانے والے اِن بندروں کو اس کی دقر و قیمت اور اہمیت کا کیا احساس ہوگا۔بلاشبہ حصول آزادی کے وقت ہندوستان کی زیادہ تر آبادی جاہلیت اور غربت کا شکار تھی جبکہ جمہوریت کے پودے کو پروان چڑھانے کیلئے عوام کا تعلیم یافتہ اور باشعور ہونا لازمی ہے۔

ہندئوں اور مسلمانوںمیں شرح خواندگی اور عام معاشی حالات میں فرق ضرور تھا لیکن اس قدر نہیں تھا کہ دوراس نتائج کا حامل ہوسکتا ۔حصول آزادی کے بعد بھارت اس کا ہم سے زیادہ اہل ثابت ہوا ،آج بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن ہماری بد قسمتی کہ کس بھی حکومت نے قومی مسائل کو اپنی پوری گرفت میں لیکر حل کرنے کی نا کوشش کی اور نہ دوسروں کو موقع دیا کوئی بھی وزیر اعظم ،صدر یا آمر نااِن کا احاطہ کرسکااور نہ اِن کو سلجھا سکا۔ہماری موجودہ ناگفتہ بہ حالت تما حکومتوں کی نااہلی عاقبت نہ اندیشی اور بے حسی کا عکس ہے،اِن حکومتوں کے نمائندگان نے قومی مفاد کی بجائے ذاتی مفاد کو عزیز رکھا اور نظریہ ایڈہاک کے اصول پر کاربند رہے اِس نظرئیے کا کا مطلب یہ ہے کہ اپنا وقت گزار و اپنا اُلو سیدھا کرو،یہ حکمران نئی نئی چالیں نئے نئے حربے اور حیلے بہانے ایجاد کرکے اپنا مطلب نکالتے رہے اورعوام کو بے وقوف بناتے رہے۔بھارت نے ابھی تک ہمارے وجود کو تسلیم نہیں کیا ہے ہمیں تو بہت محنت کی ضرورت تھی تاکہ ہر میدان میں اس سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے لیکن افسوس ہے کہ ہم ابھی تک اپنی منزل کا تعین ہی نہیں کرسکے ہمارے ملک میں جمہوریت کے بعد آمریت اور آمریت کے بعد جمہوریت کی رسم نے جنم لیااور ایسا محسوس ہونے لگا کہ یہ دونوں اہم ترین ادارے ایک دوسرے کے پچھے ایک دائرے میں گھوم رہے ہیں۔

جیسے بچے ریت پر بیٹھ کر گھر بناتے اور گراتے ہیں یہ سیاسی بچے بھی حکومت بناتے اور گراتے رہتے ہیں،تاریخ سے انہیں سبق سیکھنا چاہئے لیکن نالائق نہیں سیکھتے جب جمہوریت کا پودہ ملکم میں اُگتا ہے تو ہر سیاستدان حیلہ روبائی سے اِس کے اُوپر والی شاخوں پر بیٹھ کر پھل نوچنے کی کوشش کرتا ہے اور جس کا بس نہیں چلتا وہ اِس پودے کو جڑ سے کاٹنے میں مصروف ہوجاتا ہے یعنی نہ رہے بانس نہ بجے بانسری میں اپنے قلم کو اپنے موضوع کے دائرے میں رکھتے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ہم ایک آزادقوم ہیں؟ کیا ہم آزاد حیثیت سے اپنے فیصلے کرسکتے ہیں؟کیا ہمارا آئین اور قانون سب کیلئے برابر ہے ؟میرے سوال پرکوئی بھی پاکستانی یہ نہیں کہے گا کہ ہم اپنی مرضی کے فیصلے کر سکتے ہیں۔اور اس ملک کا آئین اور قانون سب کیلئے برابر ہے جب کسی ملک کے آئین اور قانون میں تفریق کا عنصر ظاہر ہونے لگے اور اُس ملک کے سیاستدان کٹھ پتلی کے کھیل کی طرح کسی دوسرے کی ڈوری کی تنک پر تماشہ کرنے لگیں تو سمجھوآزادی نہیں قید ہے ۔ہمارے ملک میں تمام حکومتیں دوسروں کی مرضی سے آتی ہیں اور صدر ،وزیراعظم،وزیراعلیٰ ، اعلیٰ عہدوں کی قسمت کی پرچیاں بھی باہر ہی پڑتی اور نکلتی ہیں ۔وہ طاقتیں اپنا کام دولت کے ان پجاریوں سے لے لیتے ہیں تو بلیک بورڈ سے اِن کے ناموں کو صاف کرکے نئے نام لکھ دیتی ہیں اور ایک آزاد ملک کی حکومتیں دوسروں کی مرضی کے طابع ہوکیاپنا وقت پورا کرتی رہتی ہیں۔

Pakistan

Pakistan

عوام کاحکومت بنانے اور حق ارادیت دینے کا کوئی فائدہ نہیں عوام تو حماقت کے مجسمے ہیں جن پر ہنسی آتی ہے۔آج جب 14اگست یوم آزادی کا شور مچا ہوا ہے گلی کوچوں اوع تمام سرکاری اور نیم سرکاری عمارات پر آزادی کی جھنڈیاں ،پرچم اور بینر آویزااں نظر آتے ہیں۔یوم آزدی کی خوشی میںتقاریب منقد کرنے کے اہتمام ہورہے ہیں۔عقل کے اندھے ہمیںپہلے آزاد ی کے معنی اور مفہوم تو بتائیں،کل میں فیصل آباد کے بازاروں سے گزررہا تھا وہاں جگہ جگہ قومی دولت کے زیاں سے بڑے بڑے بینرجن پر وزیراعظم اور خادم اعلیٰ کی تصاویر کے درمیان لکھا تھا نیاپاکستان مبارک ہو۔خدا کی قسم میری آنکھیں نم ہوگیئں کہ یہ کس نئے پاکستان کی بات کررہے ہیں؟اس نئے پاکستان کی جس میں ہرکوئی احساس کی صلیب پر لٹکا ہواہے ؟جس میں کسی کی عزت و آبرو اور جان و مال محفوظ نہیں؟ایسا نیا پاکستان جس میں کسی کا آزادی سے پھرنا تودرکنارکوئی اپنی مرضی سے سانس نہیں لے سکتا،جس میں ہرانسان افلاس کی قید کاٹ رہا ہے ،ہر شہری معاشی گھمن گھیریوں میں پھنسا ہوا ہے۔ذہن حالات کی چکی میں پس رہے ہیں ،ہر شکل مرجھائی ہوئی نظر آرہی ہے،باپردہ خواتین بھیک مانگ رہی ہیں،سفید پوش طبقہ خود کشیاں کر رہا ہے،ایسا نیا پاکستان جس میں عصمت فروشی کی جگہ جگہ منڈیاں لگی ہوئی ہیں۔

لمحہ لمحہ طوفان اُٹھ رہے ہیں اور گھر جل رہے ہیں،مجھے سمجھ نہیں آتی کہ تمامپاکستانی tvچینل پر نشر ہورہا ہے نیا پاکستان آزادی مبارک ہو یہ کیسا ڈرامہ ہے ،عوام کو کس قدر بے وقوف بنایا جارہا ہے،نئے پاکستان اور آزدای کا شوشہ چھوڑنے والے اپنے گریبان میں جھانک کر تو دیکھیں کیا واقع ہی انہوں نے نیا پاکستان بنا دیاہے؟اور آزدی جیسی نعمت سے لطف اندوز ہورہے ہیں؟اگر ایسا ہے تو اپنے محلوں میں کیوں نظر بند ہیں۔

باہر کی ہوا لینے کے لئے کیوں بلٹ پروف گاڑیوں میں آتے ہیں؟کیوں ہر دل میں ایک کھٹکا سالگا ہوا ہے؟اور یہ وہم ہلقان کئے ہوئے پھر رہا ہے کہ آئندہ گھڑی کیا ہوجائے گا؟میں اب آپ سے پوچھتا ہوں ایمانداری سے بتائیں کہ جس نئے پاکستان کی تشہیر اور آزادی مبارک کی تقریبات پر کرڑوں ،اربوں روپے قومی خزانے سے خرچ کئے جارہے ہیں آیا کہ وہ جائز ہے؟کیا ہم واقعہ ہی ایک نئے پاکستان کے باسی ہیں؟اور حقیقی معنوں میں آزاد ہیں۔

Ehsan Ahmed Ghuman

Ehsan Ahmed Ghuman

تحریر:احسان احمد گھمن