جلوئوں نے تیرے دی ہے دل و جاں کو وہ رونق

Peer Muhammad Aslam Shehzad Qadri

Peer Muhammad Aslam Shehzad Qadri

گزشتہ دنوں مجھے اپنے ایک دیرینہ تحریکی و نظریاتی ساتھی کی خصوصی دعوت پر اُن کے ”آستانہ عالیہ قادریہ ” 9 چمن زار سٹریٹ، لالہ زار فیز 2، ٹھوکر نیاز بیگ لاہور پر محبوبِ سُبحانی، قندیل ِ نورانی، آیاتِ عکسِ قرآنی حضور شیخ عبد القادر جیلانی البغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سلسلہ میں منعقدہ ماہانہ گیارھویں شریف کی روحانی و پاکیزہ محفل ِ پاک میں حاضری کی سعادت نصیب ہوئی یقیناََ میرے جیسے ہیچمداں کے لیے ایک اعزاز سے کم نہیں تھا اور میرے لیے ایسی مصفیٰ ، مزکیٰ اور مسجع محافل ِ پاک گویا آکسیجن کا درجہ رکھتی ہیں ریت اور مروجہ روایت سے ہٹ کر محفلِ پاک کو خوبصورت سلیقے اور طریقے سے سجا یا گیا تھا سب سے پہلے ”آستانہ عالیہ قادریہ ” پر موجود وابستگانِ آستانہ کی طرف سے ہر آنے والے مہمان کا استقبال دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا۔

وابستگان نہایت ہی مودبانہ انداز سے عزت و احترام کے ساتھ مہمانوں کے راستے میں ”دیدہ و دل فرش ِ راہ ” کی عملی تصویر بنے نظر آرہے تھے، امورروابط عمومی،امور کفشداری(جوتوں کی نگہداشت )،امور اتظامی و آگہی،امورامانات ونگہداری اشیائے گمشدہ ،ادارہ جہاں پر ہر چیز سلیقے اور طریقے سے سجائی گئی تھی ، صفائی کا نظام بہت مستعد اور ماہرانہ کیا گیا تھا علامہ صاحب زینت محفل تھے ناچیز کو بھی حکم ہوا کہ سٹیج پر حاضر ہوں، دیواروں پر لگی شیشے کی الماریوں میں نہایت ہی سلیقے سے سجی میڈیسن بھی نظر آرہی تھیں اور نظر دوسری طرف گھمائی تو بہت ہی خوبصورت تحریر نظر آئی ”فری ڈسپنسری ” جہاں پر شام 5بجے تا 10بجے تک مستحق اور غریب مریضوں کا مستند ایم بی بی ایس ڈاکٹرز کی نگرانی میں مفت علاج کیا جاتا ہے، لو جی مزا آگیا۔۔۔۔ ایک ٹکٹ میں دو فائدے ”روحانی اور جسمانی ” بیماریوں کا حل ایک ہی دہلیز پر موجود ۔۔۔۔۔۔ما شا ء اللہ :سٹیج کی بیک سائیڈ پر نہایت ہی مرسع اور مسجع اقوالِ غوث ُ الوریٰ پر مشتمل خوبصورت تحریر بھی کندہ تھی باب العلم، صاحب ِ نہج البلاغہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بڑی خوبصورت بات کہی ہے ”تم سے کوئی نیکی کرے تو سب کو بتا ئو اگر تم کسی سے نیکی کرو تو کسی سے اس کا ذکر مت کرو ” باب العلم کے اس فصیح و بلیغ قول میں جو حکمت ، دانش ، گہرائی اور گیرائی ہے وہ اپنی جگہ ، لیکن یہ ضرور ہے کہ اس قول ِ فصیح کے اندر نیکی کی تشہیر کا پیغام ہمیں بہر حال ملتا ہے ہم اخبار نویس لوگ زیادہ تر ایسی چیز کی تلاش میں رہتے ہیں جہاں سے ہمیں ”لفافہ ” ملنے کی اُمید ہوتی ہے اور ہمیشہ بدی کی تلاش میں سر گرداں رہتے ہیں۔

کہیں حُسنِ اتفاق اگر نیکی کا چشمہ نظر بھی آجائے تو اپنا دامن بچا کر نکل جاتے ہیں لیکن بعض قلم کار ایسے بھی ہیں جن کا مشن ہی یہی ہوتا ہے کہ نیکی کی قوتوں کا ساتھ دیا جائے اور نیکی کے یہ جزیرے ، فیض کے یہ اُبلتے چشمے خیر کی خیرات تقسیم کرتی یہ بستیاں اور فلاح کی میراث بانٹتی یہ جھُگیاں جہاں کہیں بھی قائم ہیں اِن کی خوب تشہیر کی جائے اور اِن لوگوں کی داستانِ زندگی سناتے رہیں جن کی بدولت یہ دُنیا قائم ہے اور جو حرص و ہوس کی منہ زور آندھیوں میں نیکی کا چراغ جلائے ہوئے اور شہ زور طو فانوں میں محبت و خدمت خلق کا بو ٹا اُگائے ہوئے ہیں وطن کے لُٹیروں اور راہبروں کے بھیس میںراہزنوں کا ذکر ہو چکا ، اب ہمیں اپنے قلم کی نوک کا رُخ ایسے روشن چہرہ انسا نوں کی طرف پھیرنا چا ہیے جن کے نام سے انسا نیت زندہ ہے اور محروم و محکوم و مظلوم انسا نیت کو جینے کا سلیقہ آیا ہے کہتے ہیں کہ یہ کلجگ ہے ، یہ عصر ۔۔۔عصر پذیر ہے ۔۔۔۔۔یہ عہد بے چہرہ ہے ، یہ قحط الرجال کا دور ہے ، شمع بکف پگ پگ پروانہ وار گھومیں تو بے چہرہ دو پایوں کے اس تاریک جنگل میں کہیں ایک آدھ روشن چہرہ انسان سے ملاقات ہوتی ہے تا حدِ نگاہ ویرانوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور اُفق اُفق تا ریکیاں خیمہ زن ہیں ”ماہتاب نوش” راتوں اور” آفتاب خور” دنوں کی حکمرانی ہے بے چہرہ دو پایوں کے اس تاریک ہجوم میں ایک آدھ روشن چہرہ انسان ظلمتوں کے نرغے میں گھری صبح خنداں کی طرح منفرد اور کو فیوں کے محاصرے میں کھڑے مسلم بن عقیل کی طرح لائق رشک دکھا ئی دیتا ہے ایسے میں اگر کسی خوش بخت اور خوش طا لع شخص کی ملاقات کسی روشن چہرہ اور عالی دماغ انسان سے ہو جا تی ہے تو بلا مبالغہ وہ زندگی کی معراج کو پا لیتا ہے یہ ملا قات بلا اشتباہ حاصلِ زندگی قرار پاتی ہے ، عرصہ 10سال سے دو پا یوں کے اس تاریک جنگل میں ایک ایسا روشن چہرہ ، اعلی ٰ دماغ اور غنی مزاج شخصیت اخوت ، محبت ، روا داری، خدمت خلق ، آپس میں دکھ سکھ بانٹنے کا جذبہ اور اُجالے تقسیم کرتی ہو ئی نظر آرہی ہے اس روشن اور پاکیزہ صفات کی حامل شخصیات کو دنیا انسان دوست ، دوست شناس ، شناسائے کوئے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علامہ پیر صاحبزادہ محمد اسلم شہزاد قادری زید مجدہ کے نام سے جانتی ہے جو ”السُنہ فائونڈیشن ” کی سر براہی کا تاجِ خدمت خلق بھی اپنے سر پر سجا ئے ہوئے ہیں فائونڈیشن نے اپنی ”پیدائش ” کے بہت ہی قلیل عرصہ میں ہزاروںگھرانوں کے غربت زدہ آنگن میں خوشیوں کے دیپ جلا کر تاریخ ساز کارنامہ سر انجام دیا ہے غربت کی لکیر سے بھی نیچے کی زندگی بسر کرنے وا لوں کے گھر وں میںجہاں بھوک، ننگ اور مفلسی نے مستقل ڈیرے ڈال رکھے ہوں اور غربت ننگا ناچ رہی ہو وہاں پر اتنے کم عرصہ میں فائونڈیشن نے بے شمار گھرانوں میں مخیر حضرات کے خصوصی تعاون سے مسرت و خوشی کے ایسے پھول کھلائے کہ جن کی سُہانی خوشبوسے ان کے دل و دماغ معطر و ترو تازہ ہو گئے ہیں اور اب وہاں غربت کی بجائے خوشحالی رقص کرتی نظر آ رہی ہے یہ سا را کریڈٹ فائونڈیشن کے سر براہ کو جاتا ہے جن کی زندگی بے پناہ ولولوں ، جاں گداز مرحلوں ، ایمان افروز جذبوں اور خدمت خلق کے کار نا موں سے ہمیشہ معمور رہی ہے خدمت خلق کی یہ گُڑھتی انہیںحضور غو ث ُ الوریٰ کے فیضان سے بچپن ہی سے ملی ہوئی ہے قبلہ پیر صاحب نے یورپ و متحدہ امارات سمیت متعدد ممالک کا سفر کیا یورپ کی رنگینیاں بھی ملاحظہ کیں ، یورپ کی چکا چوند کو بھی قریب سے دیکھا مگر کہنا پڑتا ہے کہ۔۔۔

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سُرمہ ہے میری آنکھ میں خاکِ مدینہ و نجف

وہ لوگ یقیناانسانی معاشرے کے ماتھے کا جھو مر اور انسانیت کا وقار ہو تے ہیں جو خدمت خلق کے ساتھ ساتھ خالق کی بندگی کا فریضہ بھی احسن انداز سے سر انجام دے رہے ہوتے ہیں آج کے اس ما دیت زدہ دور میں روحانی اقدار کے احیاء کے لیے جدو جہد کرنے والے خراج تحسین کے مستحق ہو تے ہیں یہ وہ دور ہے کہ جس دور میں رب کی بندگی اور خدمت انسانیت کی بات کرنا گو یا خطرات کو دعوت دینے کے مترادف سمجھاجا تاہے ۔دُکھیاروں کی بھلائی ہو یابے سہاروں کی راہنمائی اس بے ریا اور بے لوث جذبوں کے حامل مرد در ویش نے شب و روز دیوانہ وار کام کیا اور اتنا کام کیا کہ ,,خدمت،، کو بھی ان پر رشک آنے لگا ،میں نے تو ان کو اپنی شعوری زندگی میں ہمیشہ فروغ دین اور خدمت انسانیت ہی میں کمر بستہ دیکھا ذاتی نفع و نقصان سے بالا تر ہو کر ہر وقت انسانیت کے مفاد کے لیے سو چنا یہ کسی کسی کا خاصہ ہو تا ہے ”آستانہ عالیہ قادریہ ”میں صُبح سے لے کر رات گئے تک دور دراز سے آئے ہوئے دُکھوں کے مارے اور ڈھونڈتے سہارے بے کس و بے چَس لوگوں کو سہارا مہیا کرنا اور ان کے اندر فروغ دین کا جذبہ پیدا کرنا یہ محض رب تعالیٰ کے فضل کے بغیر نا ممکن ہے اور جن پر رب کریم کا خاص فضل ہو جائے وہ پھر زندگی کے کسی میدان میں بھی شکست نہیں کھاتے اور کام یابی و کامرانی ان کی دہلیز پر ہا تھ با ندھے کنیزوں کی طرح کھڑی ہو تی ہے ،رب کریم کا فضل اور ہے اور ,,فضلِ کریم ،، اور ہے۔

 Muhammad Aslam Shehzad Qadri

Muhammad Aslam Shehzad Qadri

داتا کی د ھرتی کا سپوت جس نے آندھی و طوفان ،گرمی و سردی ،دھوپ و چھا ئوں ،شام و سحر اور شب روز کی پر واہ کیے بغیر اپنے سر پر ایک ہی دھن سوار کیے رکھی کہ دکھی انسانیت کی خدمت کیسے کی جا سکتی ہے اور بے سہارا انسانیت کا سہا را کیسے بنا جا سکتا ہے ؟پانچ دریا ئو ں کی سر زمیں پنجاب ہو یا رحمن با با کی دھرتی خیبر پختونخواہ ،شاہ عبد الطیف بھٹائی کا مسکن سندھ ہو یا محبتوں کی آما جگاہ بلوچستان ،مقبوضہ وادی ہو یا آزادخطہ،اندرون و بیرون ممالک جنابِ پیر صاحب نے ہر جگہ خدمت انسانیت کے جھنڈے گا ڑھے اوراپنا آپ منوایا ،یقینایہ بہت بڑا کام ہے اوریقیناََ قبلہ پیرصاحب نے اپنے اسلاف کی ”خدمت انسانیت ” کی عظیم ریت و روایت کو زندہ رکھا ہوا ہے ،اس با برکت اور با سعادت کارِ خیر کی خیرات یقینا صاحبزادہ پیر محمد اسلم شہزاد قادری صا حب کی جھو لی میں آنی تھی اور انہو ں نے اس سو غات اور خیرات کو سمیٹنا تھا سو انہوں نے خوب سمیٹا اور دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی عقبیٰ کو بھی سنوار ڈالا ,,یہ بلند رتبہ جسے ملنا تھا اسے مل گیا ،، عزم و ہمت کا یہ کا ررواں نہ تو ابھی رکا ہے اور نہ ہی تھما ہے ،اپنے دل میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لگن اور اہلبیت کرام کی محبت کی جوت جگائے اور اولیاء اللہ کی عقیدت کی چمک اپنی پیشانیوں پر سجائے خدمت انسانیت کا یہ عظیم کاررواں اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے ۔سیاستدانوںکی بے راہ رو جواں نسلیں او ر پیروں کی بگڑی اولادیں خدمت انسانیت تو کجا انسانیت کا وجود بھی اپنی دہلیز پر بر داشت نہیں کر پاتیں اور اپنے آپ کو ماورائی مخلوق تصور کرتے ہو ئے خوامخواہ کے زعم ِبد میں مبتلا ہو تی ہیں حالانکہ یہی ما فوق الفطرت مصنوعی مخلوق اسی انسانیت کے ٹکڑوں پر شب وروز زندگی بسر کرتی ہے اگر مریداپنے پیروں کو نوٹ کے نذرانے دینے اور عوام سیاستدانوں کو ووٹ کے نذرانے دینے بند کر دیں تو انہیں دن کو تا رے نظر آنا شروع ہو جا ئیں گے ،مگر جب ہم اسلم شہزادصاحب کے شب وروز خدمت انسانیت اور فروغ دین میں صرف ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں تو دل سے دعا نکلتی ہے کہ ,,اے رب قدیر ،تو اس شخصیت کو اپنی حفظ و اماں میں رکھ ،،عاجزی و انکساری کا مرقع اور خلوص کا پیکر یہ سپوت اگر شام کو”مشاہدہ حق ” میں مصروف نظر آتا ہے تو دن کو تسبیح و تہلیل اور خدمت انسانیت میں مگن دکھا ئی دیتا ہے لگتا ہے کہ اُن کے روحانی مرشد نے اپنے روحانی لخت ِ جگر کی تر بیت ہی اس انداز سے کی ہے کہ انہوں نے ان میں غرور ، تکبر ،نخوت اور کبر نام کی کوئی چیز پیدا نہیں ہو نے دی اور ہو نا بھی ایسا ہی چا ہیے کہ سجا دہ نشینوں کی رو حانی اور نسبی او لادوں کو عجز و انکساری کا مر قع ہو نا چا ہیے بہت کم ایسے لوگ ہیں جن کی اولاد میں عجز و انکساری پا ئی جا تی ہے ،کیو نکہ اُن کے روحانی پیشواخود عجز و انکساری کے سا نچے میں ڈھلے ہو ئے تھے اور آگے ان کے مُرید میں بھی یہ خاصیت نظر آرہی ہے۔

اگر اِن کے روحانی مرشد کی گر دن میں 8انچ کا موٹا سریا ہو تا تو جنا ب پیر اسلم شہزادقادری صاحب بھی گر دن پھلا کر اور اکڑا کر چلتے مگر میں نے تو ان کو جب بھی دیکھا ہے وہ تواضع اور انکساری کی حالت میں ہی ملے ہیں اور ہمیشہ ان کو مسکراتے ہی دیکھا گیا ہے ،ایسے ہی لوگ سسکتے اور دم توڑتے معاشرے کے لیے غنیمت ہو تے ہیں ،اگر ہما رے مو جو دہ حکمرانوں اور سیا ستدانوں کی گر دنوں سے موٹے موٹے سریے نکل جائیں اور اپنے آپ کو عا جزی کا پیکر بنا لیں تو سارے مسئلے حل ہو سکتے ہیں مگر یہاں تو ہر سیاستدان اپنی اپنی جگہ فر عون اور قارون بنا بیٹھا ہے اور ان کی دیکھا دیکھی اب عوام کے اندر بھی کبریت کے جراثیم پیدا ہو نا شروع ہو گئے ہیں اور اب عام آدمی سے بھی بات کر لو تو وہ سانپ کی طرح پھن پھیلائے اکڑ کے بات کرے گا اور ذرا ذرا سی بات پر اپنا چہرہ بلا وجہ سرخ کر لے گا ۔

حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مو جودہ معاشرے میں روا داری ،اخوت ،بھا ئی چارے ،حسن سلوک اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ کی خیرات تقسیم کی جائے اورپیر جنابِ اسلم شہزاد قادری صاحب اسی فکر کو لے کر گلی گلی ، کوچہ کوچہ ،بستی بستی ، نگر نگر ، ڈگر ڈگر ، گام گام ، بام بام پہنچا رہے ہیں کہ شا ید امت مسلمہ کی کھوئی ہو ئی قسمت دو بارہ بحال ہو سکے اور یہ سسکتا ہوا معاشرہ پھر سے زندگی کی نئی شاہراہ پر گامزن ہو سکے اور اپنے حصے کا کردار وہ خوبصورتی سے ادا کر رہے ہیں اور روایتی پیروں اور فقیروں سے ہٹ کر اپنے ایک مخصوص انداز میں کام کر رہے ہیں آج جو ملک میں امن کی بہا ریں نظر آرہی ہیں یقینا اس میں قبلہ پیر صاحب کا حصہ وافر موجود ہے اور ہرمہینے کی پہلی اتوار کو آپ کے آستانے پر آپ کے عقیدت مندوں کی ایک معقول تعداد جمع ہوتی ہے جن کی روحانی تربیت کا خاطر خواہ اہتمام کیا جاتا ہے اور رو حانیت کے پیاسے علم و حکمت کے اس اُبلتے ہوئے چشمہ سے ”آبِ زُ لال ” کے کٹو رے بھر بھر پیتے ہیں بس علامہ اسلم شہزاد قادری کے لیے اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ

جلوئوںنے تیرے دی ہے دل و جاں کو وہ رونق
دیدار کی حسرت کا مز ا یا د کریں گے

علامہ صاحب تسبیح و سجادہ و دلق کے ساتھ ساتھ خدمت خلق کو سب سے بڑی عبادت تصور کرتے ہیں خدمت خلق ہی ان کی عبادت و ریاضت ہے ان کا سر مایہ محبت ہے ان کا اپنا حلقہ انتخاب ہو یا داتا کی نگری لاہور ، بلھے شاہ کی وادی ہو یا اسلام آباد کی خوشگوار فضا سمیت ہر جگہ پیر صاحب کا حلقہ موجود ہے اِن کا یہ لا فانی اور آفاقی پیغام آج وطن عزیز کے درجنوں شہروں میں رحمت کے با دلوں کی طرح چھا چکا اور خوشبو کے کومل جھونکوں کی طرح پھیل چکا ہے واضع رہے کہ ہنی بال ، اسکندر و دارا ، ہلاکو ، چنگیز اور طغرل و سنجریٰ ”فاتح ِ عالم ” نہیں ہوئے فقر و درویشی کے سانچے میں دھلی محبت ہی درحقیقت فاتح ِزمانہ اور فاتح ِعالم ہو تی ہے محبت اور خدمت انسانیت ہی فائونڈیشن کا طغرائے امتیاز ہے علامہ صاحب کی مثبت سوچ اور فائونڈیشن کی ٹھوس کار کردگی نے ثابت کیا ہے کہ اچھے بیج اگر سمندر میں بھی پھینک دیئے جائیں تو ٹاپو اُگ آتے ہیں خون ِ جگر سے آ بیاری کی جائے تو صحرائوں میں بھی لالہ زار لہلہانے لگتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عزم راسخ ہو تو خنجر کی دھار سے بھی مرہم ٹپکایا جا سکتا ہے ،،،آئیے ہم سب فائونڈیشن کی کامیابی کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس شجر سایہ دار کو دشمنوں کے گرم تھپیڑوں کی لو سے محفوظ رکھے (آمین )۔

Nouman Qadir

Nouman Qadir

تحریر : صاحبزادہ نعمان قادر مصطفائی
فون نمبر: 03314403420