اسرائیل جلد ایک بڑے مسلم ملک سے تعلقات قائم کرنے والا ہے، اسرائیلی وزیر

Israel

Israel

اسرائیل (اصل میڈیا ڈیسک) اسرائیل ڈونلد ٹرمپ کے دور اقتدار میں پانچویں مسلمان ملک سے سفارتی تعلقات قائم کرنے جا رہا ہے۔ اسرائیلی وزیر برائے علاقائی تعاون کے مطابق اس کا اعلان جنوری میں کیا جا سکتا ہے لیکن یہ ملک پاکستان نہیں ہے۔

وائٹ ہاؤس کی ثالثی میں رواں برس اسرائیل نے چار مسلمان ملکوں سے سفارتی تعلقات قائم کیے ہیں۔ یہ چار ممالک متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش (المغرب) ہیں۔ مراکش میں ابھی منگل کے روز ہی اسرائیلی امریکی وفد پہنچا تھا، جس کا مقصد دو طرفہ تعلقات میں نئی جہتوں کا جائزہ لینا ہے۔

تاہم اب اسرائیلی علاقائی تعاون کے وزیر اوفیر اکونیس نے کہا ہے کہ بیس جنوری کو ٹرمپ کے اقتدار چھوڑنے سے پہلے پہلے ایک پانچویں مسلمان ملک سے سفارتی تعلقات قائم ہونے کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا، ”ہم اس سمت میں کام کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا، ”اس حوالے سے امریکا ہی اعلان کرے گا کہ ایک اور ملک اسرائیل کے ساتھ عوامی سطح پر تعلقات قائم کرنے جا رہا ہے، بنیادی طور پر ایک امن معاہدہ کے بنیادی ڈھانچے کے ساتھ۔‘‘

تاہم انہوں نے اس حوالے سے ملک کا نام بتانے سے گریز کیا ہے۔ ایسا کوئی بھی اعلان سعودی عرب یا عمان کے ساتھ ہو سکتا ہے لیکن انہوں نے کہا کہ جس ملک کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں، وہ بڑا مسلمان ملک ہے اور مشرق میں واقع ہے۔ تاہم انہوں نے یہ وضاحت کی کہ یہ ملک پاکستان نہیں ہے۔ حال ہی میں ایسی غیرمصدقہ خبریں اور افواہیں سامنے آئی تھیں کہ پاکستان کے ایک وفد نے تل ابیب کا دورہ کیا ہے۔ دوسر ی جانب اس وقت پاکستان پر بھی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا دباؤ ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے مذاکرات کا آغاز کرے۔

انڈونیشیا مسلم آبادی کے لحاظ سے ایک بہت بڑا ملک ہے لیکن اس نے گزشتہ ہفتے ہی واضح کر دیا تھا کہ جب تک فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں نہیں لایا جاتا، اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔

فلسطینیوں کو خوف ہے کہ عرب ملکوں کے ساتھ اسرائیل کے روابط قائم ہونے سے ان ممالک کا وہ موقف کمزور پر جائے گا، جس کے تحت کہا جاتا ہے کہ اسرائیل کو مقبوضہ علاقوں پر قبضہ ختم کرتے ہوئے ایک فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لانا چاہیے۔