اسرائیل کی موجودہ فلسطین پالیسی ناقابل قبول ہے، صدر ایردوآن

Tayyip Erdogan

Tayyip Erdogan

استنبول (اصل میڈیا ڈیسک) ترک صدر نے کہا ہے کہ ان کا ملک اسرائیل کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتا ہے اور اس حوالے سے انٹیلیجنس لیول پر مذاکرات جاری ہیں۔ تاہم انہوں نے اسرائیل کی فلسطین پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ’ناقابل قبول‘ قرار دیا۔

دو طرفہ مضبوط تجارتی تعلقات کے باوجود حالیہ کچھ برسوں کے دوران ترکی اور اسرائیل کے مابین تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن متعدد مرتبہ مقبوضہ مغربی کنارے پر اسرائیلی قبضے اور فلسطینیوں کے ساتھ سلوک کو شدید تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں، یہاں تک کہ سن دو ہزار اٹھارہ میں ان دونوں ملکوں نے اپنے ہاں ایک دوسرے کے سفیروں کو بھی ملک بدر کر دیا تھا۔

استنبول میں جمعے کی نماز کے بعد ترک صدر کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ترکی کے اسرائیل کی ‘ٹاپ لیول قیادت‘ کے ساتھ مسائل ہیں اور اگر یہ مسائل نہ ہوتے تو اس وقت ‘تعلقات بہت ہی مختلف‘ ہوتے۔

ایردوآن کا مزید کہنا تھا، ”فلسطین پالیسی ہماری ریڈ لائن ہے۔ ہمارے لیے اسرائیل کی موجودہ فلسطین پالیسی کو قبول کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان کے بے رحمانہ اعمال ناقابل قبول ہیں۔‘‘ تاہم ان کا مزید کہنا تھا، ”ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہمارے تعلقات میں بہتری پیدا ہو۔‘‘ ترک صدر نے یہ بھی کہا کہ اس حوالے سے دونوں ممالک کے مابین انٹیلیجنس لیول کے مذاکرات جاری ہیں۔

تمام تر کشیدگی کے باوجود ان دونوں ملکوں کے مابین تجارتی تعلقات بھی مسلسل قائم ہیں۔ رواں برس اگست میں ترک حکومت نے حماس کے ایک درجن اراکان کو پاسپورٹ جاری کیے تھے، جس کے بعد اسرائیل نے اسے ‘انتہائی غیر دوستانہ اقدام‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس معاملے پر ترکی سے بات کرے گا۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیل میں نئے عام انتخابات آئندہ برس مارچ میں ہونے جا رہے ہیں اور اگر نتین یاہو کے بجائے کوئی دوسرا رہنما اقتدار میں آیا، تو ان دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں موجودہ کشیدگی میں کمی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ اسرائیل نے حال ہی میں چار مسلمان ملکوں سے سفارتی تعلقات قائم کیے ہیں، جن کی ترک صدر کی جانب سے شدید مخالفت کی گئی تھی۔ یہاں تک کہ ترکی نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کی بھی دھمکی دے دی تھی۔ ترکی نے بحرین اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کو فلسطینیوں کے جدوجہد کے لیے ایک دھچکا بھی قرار دیا تھا۔