جان بولٹن کے صدر ٹرمپ اور چین کے بارے میں الزامات بے بنیاد ہیں: مشیر وائٹ ہاوس

Peter Navarro

Peter Navarro

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) وائٹ ہاؤس کے تجارتی مشیر پیٹر ناوارو نے کہا ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے چینی ہم منصب ژی جن پنگ کے درمیان ملاقات کے وقت ہال میں موجود تھے لیکن انہوں نے ٹرمپ کو چین سے دوسری مدت میں کامیابی کے لیے مدد طلب کرنے کی بات نہیں سنی۔

ناوارو نے سی این این ٹیلیویژن نیوز کو بتایا کہ قومی سلامتی کے سابق مشیر جان بولٹن کی ایک کتاب میں جو گرجدار دعوے کیے گئے ہیں وہ “بے بنیاد” ہیں۔ خاص طور پر چین کے بارے میں ٹرمپ کے سخت رویہ اور اس کے غیر منصفانہ کاروباری طریقوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط ہے کہ ٹرمپ نے دوسری مدت صدارت کے لیے چین سے مدد مانگی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ “میں نے اس کے بارے میں کبھی نہیں سنا۔ میں ہال میں تھا۔ یہی بیان امریکی تجارتی نمائندے رابرٹ لائٹائزر نے گذشتہ ہفتے جاری کیا گیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ بولٹن کو کتاب میں “انتہائی حساس اور خفیہ معلومات” استعمال کرنے پر قید سمیت دیگر نتائج کا سامنا کرنا چاہیے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کے روز کہا ہے کہ ان کے سابق قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن اپنی یادداشتیں شائع کرکے “قانون توڑنے” کی “بھاری قیمت” ادا کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ بولٹن نے قانون توڑا۔ اسے طلب کیا گیا اور اس کی سرزنش کی گئی ، اور وہ اس کی بھاری قیمت ادا کریں گے۔ اپنی ایک ٹویٹ میں صدرنے مزید لکھا کہ بولٹن کو لوگوں پر بم پھینکنا اور مارنا پسند ہے۔ اب بم اس پر بم پھینکیں گے۔

خیال رہے کہ امریکی وفاقی جج نے ہفتہ کے روز امریکی انتظامیہ کی طرف سے بولٹن کی کتاب کی اشاعت کو روکنے کے لیے دائر درخواست مسترد کردی تھی۔

تاہم جج رائس لیمبرٹ نے کتاب کی اشاعت کے بارے میں جان بولٹن کے نقطہ نظر کو مسترد کردیا۔ انہوں نے کہا کہ بولٹن نے قومی انٹلی جنس حکام سے حتمی منظوری حاصل کیے بغیر اپنی کتاب شائع کرنے بوجھ اپنے کندھوں پر لے لیا۔ اس سے قومی سلامتی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔

جج نے مزید کہا کہ کہا پہلے ہی ملک بھر بولٹن کی کتاب کی دو لاکھ کاپیاں فروخت کردی گئی ہیں۔ اب اس کی اشاعت روکنا بے سود ثابت ہوں گی۔

یہ کتاب اگلے ہفتے بازا میں فروخت ہوگی۔ منگل کے روز اشاعت کی تیاری کے لیے کتاب “دی روم ویئر ایٹ ہپنڈ” کی بڑی کاپیاں لائبریریوں میں بھیج دی گئیں۔ متعدد ذرائع ابلاغ کے مطابق کتاب کا ایک بڑا حصہ صدر ٹرمپ پر تنقید کے لیے وقف کیا گیا ہے۔