جسٹس قاضی فائز کو حکومت نہیں ہٹا سکتی، یہ جوڈیشل کونسل کا معاملہ ہے: چیف جسٹس

Justice Asif Saeed Khosa

Justice Asif Saeed Khosa

اسلام آباد (جیوڈیسک) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو حکومت نہیں ہٹا سکتی، یہ سپریم جوڈیشل کونسل کا معاملہ ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کیمبرج یونیورسٹی میں کیمبرج یونین کے پروگرام میں شرکت کی۔

تقریب کے دوران چیف جسٹس پاکستان سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی لندن میں پراپرٹیز کے متعلق سوال کیا گیا کہ کیا آپ جسٹس فائز سے منی ٹریل مانگیں گے؟

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ پاکستانی عدالتوں کا مسئلہ ہے وہ اس پر یہاں کچھ نہیں کہہ سکتے، اپنےججز پر اعتماد کریں، وہ انصاف کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو نہیں ہٹا سکتی، یہ جوڈیشل کونسل کا معاملہ ہے۔

یاد رہے کہ حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائیکورٹ جسٹس کے کے آغا کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا جس کی سماعت سپریم جوڈیشل کونسل میں 14 جون کو ہو گی۔

وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ہائی کورٹ کے 2 ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر رکھے ہیں۔

حکومتی ذرائع کے مطابق ان ججز میں لاہور ہائیکورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کے ایک، ایک جج بھی شامل تھے۔

لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج فرخ عرفان چونکہ سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی کے دوران استعفیٰ دے چکے ہیں اس لیے ان کا نام ریفرنس سے نکال دیا گیا ہے۔

صدارتی ریفرنسز پر سماعت کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس 14 جون کو طلب کر لیا گیا ہے اور اس حوالے سے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور دیگر فریقین کو نوٹسز بھی جاری کیے جا چکے ہیں۔

وفاقی حکومت کی جانب ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کے معاملے پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل زاہد فخرالدین جی ابراہیم احتجاجاً مستعفی ہو چکے ہیں۔

اس معاملے پر سینیٹ میں ججز کے خلاف حکومت کی جانب سے ریفرنس بھیجنے پر ججز کے ساتھ اظہار یکجہتی کی قرارداد بھی منظور کی جا چکی ہے۔

دوسری جانب ملک بھر کی بار ایسوسی ایشن میں صدارتی ریفرنس کے خلاف غصہ پایا جاتا ہے، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی نے ارکان پارلیمنٹ سے ججز کے خلاف ریفرنس بھیجنے پر صدر مملکت عارف علوی کے مواخذے کا مطالبہ کیا ہے۔

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اس ضمن میں صدر مملکت کو دو خط لکھ چکے ہیں جس میں انھوں نے ریفرنس کی نقل فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔