کراچی گینگ وار کا معنی خیز چھپا کردار شاہی سید

Shahi Syed

Shahi Syed

تحریر : قادر خان یوسف زئی

37 سالہ عزیر جان بلوچ کو لیاری میں پاکستان پیپلز پارٹی کا مبینہ سیاسی نمائندہ سمجھا جاتا رہا ہے، پی پی پی و ایم کیو ایم سے اختلافات کے بعد سنگین الزامات عائد کرنے والے سابق صوبائی وزیر داخلہ نے اپنے ہم خیالوں کے ساتھ کئی مواقع پر اپنے سخت موقف کو دوہرایا۔ لسانی دہشت گردوں کے خلاف، انہی کی زبان میں جواب دیئے جانے لگا اورشہر قائدمیں بھتہ خوری، قتل و غارت کے متبادل کے طور پر ایک گنجلک نظام قائم کیا گیا،جب کرپٹ پولیس افسران اور اہلکار سمیت عوامی نمائندے جرائم پیشہ عناصر کے کارندے بن جاتے ہوں اور ریٹنگ بڑھانے والے الیکٹرونک میڈیا کے بیشتر چینلز میں جرائم پیشہ افراد کو ہیرو بنا کر پیش کئے جاتا ہو تو کسی کا بھی دماغ ساتویں آسمان تک پہنچ سکتا ہے۔

ذرائع کے مطابق ایرانی اینٹلی جنس افسر ناصر کی کراچی کے علاقے گلشن اقبال، ڈالمیا، کلفٹن اور بیرون ملک دبئی میں رہائش رہی، وہ گینگ وار کے سابق سربراہ عبد الرحمان بلوچ عرف رحمان ڈکیت کا انتہائی قریبی دوست رہ چکا ہے اور رحمن کے توسط سے ہی عزیر بلوچ سے اس کی دوستی ہوئی اور کچھ دنوں میں ان کے بہت اچھے مراسم بن گئے تھے۔عزیر جان سے تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد سندھ حکومت کی رٹ پر سوالیہ نشان آچکا ہے کہ ان کے سابق وزیر داخلہ ذالفقار مرزا، سابق وزراء اویس مظفر عرف ٹپی، قادر پٹیل اور شرجیل میمن کے کہنے پر کیوں 198 افرادمبینہ قتل کئے گئے۔گوپی پی پی نے کئی تابڑ توڑ پریس کانفرنسوں میں اپنی قیادت کا دفاع بھی کیا، یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن کراچی میں وہ تیسرا ہاتھ کونسا تھا جو ایم کیو ایم اور اے این پی کے درمیان امن معاہدہ ہوجانے کے باوجود امن کے سوئچ کو آف کرکے بے امنی کے بٹن پر انگلی رکھ دیا کرتا تھا۔

کراچی بے امنی میں کچھ سیاسی عناصر کا کردار انتہائی متنازعہ رہا ہے بظاہر تو ایم کیو ایم اور اے این پی کے کارکنان دست وگریبان رہتے،لیکن ایک سابق سینیٹر کا گھرچندسندھی قوم پرستوں کی خفیہ میٹنگز اور سندھ(بالخصوص کراچی) کی سطح پر نئی تنظیم بنانے کی کوشش کی آجامگاہ بن چکا تھا۔ ایم کیو ایم مبینہ مخالفت میں ان کی خوب خاطر تواضع کی جاتی، پریس کانفرنسوں میں صحافیوں کے لئے پرتعیش ریفریشمنٹ دینے سے شہرت پانے والا وہ سب کچھ حاصل کرنا چاہتا تھا، جو کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکن سے لیکر عہدے دار کا خواب ہوتا ہے۔عزیر جان، حبیب بلوچ اور ظفر جھنڈیر سے متعدد ملاقاتیں اور خفیہ میٹنگ کرنے ولاا اہم فریق کا کردار آج تک سر بستہ راز ہے۔
خیبر پختونخوا کی قوم پرست جماعت کے سربراہ نیسندھ قوم پرست جماعتوں کے ساتھ کراچی سطح پر کسی نئی تنظیم سازی کو سختی سے روک دیا، نئی تنظیم کے تمام نکات کو رد کرتے ہوئے صوبائی قیادت کو پابند کیا کہ وہ سیاسی معاملات پر توجہ دیں، اور دیگریلی تنظیموں کی سرپرستی بند کردیں۔ اس نئی تنظیم سازی میں قوم پرست جماعت کی صوبائی قیادت نے پارٹی کابینہ کے عہدے داران کو بھی اعتماد میں نہیں لیا تھا، سخت سرزنش کے بعد سابق سینیٹر قوم پرستوں کی تنظیم سے بظاہر الگ ہوگیا، لیکن خفیہ میٹنگز کا سلسلہ کراچی آپریشن تک پھر بھی جاری رہا۔

کراچی جیسی سونے کی چڑیا پر گینگ وار نے لیاری سے باہر قدم رکھا تو کراچی مقتل گاہ بنتا چلا گیا اور تاریخ کے ہولناک قتل عام کے مناظر سامنے آنے لگے۔ الیکڑونک میڈیا نے ریٹنگ کی ہوس پوری کرنے کیلئے تیسرے فریق کو بھی خوب کوریج دی۔ جونیئر اینکر سے لیکر سینئر اینکر پرسن تک تین جماعتوں کے معروف رہنماؤں کے اشتعال انگیز انٹرویوز لینے پر خود کو کشمیر کی فاتح سمجھتے تھے۔ میڈیا کا کون سا ایسا چینل نہ تھاجس نے کراچی کے لئے اپنی پالیسی لسانی،عصبیت اور منافرت پر نہ رکھی۔ قوم پرست جماعت و تنظیمیں مخصوص علاقوں تک محدود رہنے کے سبب ایم کیو ایم کا توڑ ثابت نہیں ہو رہی تھی اس لئے گینگ وار کو تھپکی دی گئی۔کمپنی کے ملازمین کی سینکڑوں موٹر سائیکلوں کو کاپارگنگ میں آگ لگانے کا واقعہ ہو یا کسی بس کو اغوا کرکے شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد لسانی بنیادوں پر بے قصور نوجوانوں کے اغوا اور پھر ان کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کی ویڈیوز سوشل میڈیامیں پھیلا نا”طاقت“ کا استعارہ سمجھے جانے لگا تھا۔

غربت کے ہاتھوں مجبور اور دہشت گردوں سے خائف لیاری کے بچے غیر دانستہ سنگین جرائم میں ملوث ہوتے چلے گئے۔ لیاری پر قبضے کیلئے سیاسی جماعتوں نے کبھی کسی لسانی برادری کا استعمال کیا تو کبھی قبیلوں کی نسل، ٖغفار ذکری کو قتل کرنے سے انکار پر ہی عزیر جان آنکھ کے تارے سے آنکھ میں چھبنے ولاکانٹا بنا۔ بینظیر بھٹو کیس کے ایک اہم گواہ خالد شہنشاہ کے قتل کی مبینہ سازش میں ان کے اپنے بھی بھی ملوث تھے۔ لیکن جس طرح مرتضی بھٹو کو قانون انصاف نہ دے سکا اسی طرح بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کے چہروں پر کئی دہائیوں تک نقاب پڑے رہے گا۔
پی ٹی آئی کو بھی بہت سے سوالوں کے جواب دینا ہیں، لیکن سوال کرنے والے اُن سے جو جواب مانگ رہے ہیں، انہیں بھی انہی سوالوں کی وضاحت کرنی ہے، تاہم سوال یہ بھی ہے کہ تیسرے اہم فریق کو نظر انداز کرکے کراچی بے امنی کا اہم کردار زیر زمین کیوں ہے، کراچی میں کھیلے جانے والی خونی کی ہولی کا اہم ترین کردار قانون نافذ کرنے والے ادارے اوراحتساب کی رڈار میں کیوں نہیں۔

کراچی میں رہنے والا بابو زئی مردان کا رہائشی جس کا کاروبار صرف رکشے فروخت کرکے کمیشن کمانا تھا، کروڑوں اربوں کی جائیداد کا مالک کیسے بنا۔ منی لانڈرنگ کے لئے ذاتی ملازمین کے اکاونٹس چلانے والے کے جلسے میں ہتھیاروں کی نمائش و گھنٹوں گھنٹوں فائرنگ کرنے والے کون لوگ ہوتے تھے۔ محنت کشوں کو حقوق دلانے کے نام پر عدم تشدد کی سیاست کو تشدد کے فلسفے پر ترجیح کیوں دی گئی۔ آج تیسرے کردارکے پرانے کلپ ٹاک شوز میں کیوں نہیں چلائے جاتے جس میں قصداََتشدد و عدم برداشت کو فروغ دیا جاتا تھا۔

یہ بڑی تلخ حقیقت ہے کہ آج بھی عوام کے سامنے پورا سچ سامنے نہیں کہ سابق صدر کی جانب سے تین بلٹ پروف گاڑی کی آفر کے جواب میں انہیں ہی بم پروف گاڑی دینے کی آفر دینے والا، سابق صدر سے 500کلاشکوف کے پرمٹ لینے و پولیس ادارے میں 5ہزار سیاسی کارکنان کو بھرتی کرانے پر راضی کیوں ہوا و اپنے پڑوسی سابق صوبائی وزیر داخلہ منظور وسان کے گھر کے چکر کیوں کاٹتا تھا۔ مختصراََ یہ کہ قانون کو اپنے لمبے ہاتھوں سے آنکھوں پر پڑی بند پٹی کھول دینی چاہیے تاکہ سب کچھ صاف صاف نظر آئے۔ کیونکہ یہی سب کے حق میں بہتر ہے۔

Qadir Khan Yousafzai

Qadir Khan Yousafzai

تحریر : قادر خان یوسف زئی