کشمیر اور انسانی حقوق

Kashmir

Kashmir

کبھی دل یہ سوال کرتاہے کشمیر سے ہمارا کیا تعلق ہے ہم کیوںاس کیلئے مضطرب رہتے ہیں اس کشمیر کی وجہ سے پاکستان دو ٹکرے ہوگیا ۔۔۔رات سویا یوں محسوس ہوا ایک دبلی،پتلی لیکن بارعب شخصیت جس کے چہرے پر استقامت ،متانت اور انتہا درجہ کی سنجیدگی تھی ا ن کے سرپر جناح کیپ پر کشمیر کا نقشہ بناہوا تھا میںنے حیرانگی سے اس کی طرف دیکھا اس پروقار شحص نے میرے کندھے پر اپنا نحیف سا ہاتھ رکھ دیا پھر جناح کیپ پربنے نقشہ کی طرف انگشت کرتے ہوئے کہا پو چھتے ہو اس سے رشتہ کیا ہے؟ ۔۔پھر خود ہی سوال کرڈالا جسم کا جان سے کیا رشتہ ہوتاہے ؟ کیا یہ بھی معلوم نہیں۔۔یہ میری شاہ رگ ہے۔۔۔یہ بھی خبر نہیں؟ اسی اثناء میں آنکھ کھلی تو سردی کے باوجود میں پسینے میں شرابور تھا مجھے یاد آیا غالباً یہ یکم جنوری 1990 ء کی بات ہے جب جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے ایک تقریب کے دوران بھارتی ظلم و ستم کے خلاف کشمیری مسلمانوں کے ساتھ5فروری کو عالمی سطح پر یوم ِ اظہارِ یکجہتی منانے کا تصور پیش کیا کہ پوری قوم متحد ہو کرمسئلہ کشمیر پر آواز بلند کرے۔

بھارتی مظالم کو بے نقاب کیا جائے اور اقوام ِ عالم پر زور دیاجائے کہ یہ مسئلہ اقوام ِ متحدہ کی قراداردوں کے مطابق حل کیا جانا ناگزیر ہے اس سلسلہ میں قاضی حسین احمد نے (اس وقت کے ) پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاںنواز شریف سے ملاقات کرکے انہیں اس مسئلے کی اہمیت ،نزاکت اور ضرورت پر قائل کرلیا میاںنواز شریف کو یہ تجویز اتنی پسند آئی کہ انہوں نے 5 فروری کو پنجاب میں عام تعطیل کااعلان کردیا تمام اپوزیشن جماعتوں نے بھی اس تجویز کی مکمل حمایت کافیصلہ کردیا مرکز میں محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر ِ اعظم تھیں انہوں نے بھی عوام کا جوش و خروش دیکھتے ہوئے اس فیصلے کو زبردست پذیرائی بخشتے ہوئے ملک بھر میں سرکاری چھٹی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا یوں5فروری 1990ء عالمی سطح پر کشمیریوں کے ساتھ یک جہتی کی علامت بن گیا اس ضمن میں پاکستانی و کشمیری الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے اسے دنیا بھر میں اجاگر کردیا 5 فروری 1990ء کے روز دنیا میں پہلی بار سرینگر سے مظفر)آباداور پشاور تا کراچی انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنا ئی گئی بعد ازاں انسانی ہاتھوںکی زنجیر نہ جانے کیوں بنانا بند کردی گئی 5 فروری 1990ء کو ملک کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں،انسانی حقوق کی تنظیموں،سماجی کارکنوں اور عوام نے دنیا بھر میں بھارتی مظالم کو اجاگر کرنے کیلئے جلسے ، جلوس اور ریلیاں نکالیں ،سیمینار،مذاکرے اور تقاریب کاانعقاد کیااور اب تلک یہ سلسلہ جاری ہے جبکہ محترمہ بے نظیر بھٹونے مظفر آباد میں آزادکشمیر کی دستور ساز اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے پر جوش انداز میں کشمیری مسلمانوں کا بھرپور ساتھ دینے کا عزم کیااس کے ساتھ ساتھ میاںنواز شریف جو اس وقت اپوزیشن میں تھے

انہوںنے اس دن کو کامیاب بنانے کیلئے خصوصی ٹیمیں بنائیںاپنے وزراء، ارکان ِ اسمبلی اور پارٹی رہنمائوںکو متحرک کیا اس روز سے 5فروری ایک تاریخی حیثیت اختیار کرگیا ہے یہ دن کشمیری مسلمانوںکی جدوجہد کی علامت بن گیا ہے کیونکہ ایک طویل عرصہ سے کشمیری مسلمان بھارتی مظالم کا شکار ہیں ۔۔۔جنت نظیر وادی میں قتل و غارت کا بازار گرم ہے ۔۔۔کشمیریوں کی جدو جہد کو ریاستی جبر سے کچلنے کیلئے آئے روز مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے کشمیر ایک ایسا سلگتا ہوا سنگین ایشو جو عالمی ضمیر کا امتحان بن کررہ گیا ہے دنیا بھرکے کشمیری مسلمان برس ہا برسوں سے انپے حق ِ خودارادیت کیلئے جدوجہد کررہے ہیں جس کی پاداش میں بھارتی حکومت نے ان پر عرصہ ٔ حیات تنگ کردیا ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تلک ایک لاکھ سے زائد لوگ اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر اس تحریک کو ایک نئی زندگی دے چکے ہیں۔۔۔ہزاروں مرد وزن لاپتہ ہیں۔۔۔ ان گنت بھارتی جیلوں،عقوبت خانوں یا ان کی خفیہ ایجنسیوںکی تحویل میں ہیں اس جدو جہد کاایک پہلو یہ بھی ہے کہ نصف صدی سے زیادہ مدت سے کشمیر کی ہزاروںبیٹیوںکی عزت پامال کردی گئی۔۔۔لاکھوں افراد معاشی اعتبار سے تباہ ہو چکے ہیں لیکن دنیا کے منصفوںکے کان سے جوں تک نہیں رینگتی۔

Human Rights

Human Rights

انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور نام نہادعلمبرداروں کو جانوروں پر ہونے والا ظلم تو دکھائی دیتا ہے لیکن کشمیری مسلمانوں پر گذرتی قیامت دکھائی نہیں دیتی شاید وہ اندھے ،گونگے اور بہرے بن چکے ہیںانہیں مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ بھی نظر نہیں آتا کشمیریوں کے حق استصواب ِ رائے کیلئے اقوام ِ متحدہ کی قرار دادوں کا بھی احترام نہیں اور تو اور بات بے بات پر عالمی طاقتوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا معمول کی بات ہے لیکن آج تک انسانیت کی توہین پر ان کا کوئی ردِ عمل نظر نہیں آتا بلکہ وہ کشمیر کی جدوجہد کو”دراندازی” اور کشمیری مجاہدین کو” اتنت وادی” کا نام دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے حالانکہ پاکستان اورکشمیری حریت پسندباقاعدہ فریق ہیں جن کی مرضی کے بغیر مسئلہ کشمیر کا کوئی بھی حق قابل ِقبول نہیںدنیا بھر کے کشمیریوں اور پاکستانی قوم کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ بھارت کشمیریوں کی رائے حق دہی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی فوجیں مقبوضہ وادی سے واپس بلائے اور کشمیریوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ خو دکرنے کاحق دیاجائے یہ بھارت کے اپنے وسیع تر مفاد میں ہے تنازعہ ٔ کشمیر با عزت حل کرنے سے جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے جتنی بڑی رقم بھارت اپنے جنگی جنوں پر صرف کررہا ہے اس سے بھارت میں بہت سے عوامی بھلائی کے کام کئے جا سکتے ہیں اس طرح پاکستان بھی اپنے دفاع کیلئے جو خطیر رقم خرچ کرنے پر مجبور ہے

اس سے دونوںممالک میں غربت ختم کرنے کے لئے بہترین پلاننگ کی جا سکتی ہے ۔۔۔ایک اور بات دنیا میں ریاستی جبر، دھونس ، دھاندلی اور ظلم سے کسی کو زیادہ دیر تک محکوم نہیں رکھا جا سکتا یہ فطری بات ہے جس چیز کو جتنا دبایا جائے وہ اتنی ہی تیزی سے ابھر تی ہے بھارتی حکمرانوں نے کشمیریوں کو رائے حق دہی سے محروم کرکے بر ِصغیرپاک و ہندکے ایک ارب انسانوں کا مستقبل دائو پر لگا دیا ہے حالانکہ بر ِصغیر کے لوگ امن چاہتے ہیں کیونکہ امن میں ہی ہم سب کی بقائ۔ عافیت اور سلامتی ہے کاش!بھارتی حکمران دل کی آنکھیں کھول کر غور کریں تو محسوس ہوگا امن سب سے بڑی نعمت ہے۔

Sarwar Siddiqui

Sarwar Siddiqui

تحریر: ایم سرور صدیقی