قاتل معاشرہ

Daughter

Daughter

تحریر : شاہ بانو میر

مریم راولپنڈی کی رہائشی تھی، خوبصورت پڑھی لکھی اور باشعور یہی وجہ تھی کہ اسے دیکھتے ہی لڑکے کی ماں نے ہاں کہہ دی تھی. مریم کی شادی آٹھ نو سال پہلے ہوئی. شادی کے پہلے چھے مہینے میں ہی اس کا پاؤں بھاری ہو گیا، ساس سسر نندیں بھاوجیں سبھی نے مبارک باد دی اور لڑکا ہو گا لڑکا ہو گا کہنا شروع کر دیا. ڈلیوری کا وقت قریب آیا تو شوہر کے ساتھ ساتھ سسرال کے تقریباً سبھی لوگ مریم کو ہسپتال لے کر گئے، ڈلیوری نارمل ہوئی اور ڈاکٹروں نے بیٹی کی پیدائش کی خوشخبری سنائی.
یہ سن کر مریم کی ساس کا منہ بن گیا جبکہ
دیگر افراد اپنے جذبات چھپانے میں کامیاب رہے.
مریم دو دن بعد گھر آئی تو معلوم ہوا
کہ
گھر کے حالات پہلے جیسے نہیں رہے،
وہ ساس جو بلائیں لیتی تھی آج بےرخی سے بات کر رہی ہے.

خیر، اگلے ہی سال مریم دوبارہ پریگننٹ ہو گئی،
اس بار بھی سسرال والے سبھی لوگ لڑکے کی امید لے کر
مریم کی خدمت کرتے رہے،
اللہ کا کرنا کہ
اس بار بھی لڑکی ہوئی،
اس بار ساس کے ساتھ ساتھ نندوں نے بھی مایوسی کا اظہار کیا
اور
مریم بےبسی کی تصویر بنی ان کے روئیے دیکھتی رہی،
دو سال مزید گزرے مریم تیسری بار پھر ماں بننے والی تھی،
لیکن
اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب مریم کے سسرال والوں نے مریم کو یہ کہتے ہوئے میکے بھیج دیا
کہ
اگر بیٹیاں ہی پیدا کرنی ہیں تو ہسپتال کےاخراجات تمہارے ماں باپ اور بھائی اٹھائیں.

مریم کے ہاں تیسری مرتبہ بھی بیٹی ہوئی تھی،
بچی کی پیدائش پر مریم کے سسرال سے کوئی دیکھنے تک نہیں آیا،
ڈیڑھ ماہ کی بچی اٹھائے مریم گھر واپس آئی
تو اس کے لیے زمین بہت گرم ہو چکی تھی.
ساس اٹھتے بیٹھتے پرانی باتیں نکال نکال کر طعنے دیتی،
کبھی مریم کی بارات کے کھانے کو خراب کہا جاتا،
کبھی مریم کے جہیز پر تنقید کی جاتی، گھر کے ہر کام میں کیڑے نکالے جاتے،
اس کے پکائے ہوئے کھانے بھی اب برے لگنے لگے تھے.
. مریم صابر شاکر تھی چپ چاپ سب کچھ سنتی، مزید محنت اور خدمت کر کے ساس سسر کا دل جیتنا چاہتی،
سارے گھر کا کھانا پکانا، کھانا پیش کرنا، برتن اٹھانا، برتن دھونا، کپڑے دھونا، صفائیاں کرنا
غرض یہ کہ
گھر کا کام اکیلی مریم کے سر تھا،
عید آئی تو سارے گھر کا سامان نکال کر مریم نے خود ہی سارا گھر رنگ کیا،
سیڑھی پر چڑھ کر پنکھے صاف کیے اپنا گھر ہے صاف ہو گا گھر والے بھی سب خوش ہوں گے،
یہی سوچ سوچ کر مریم دن رات کام میں جٹی رہی،
روزانہ ساس کے سر میں تیل کی مالش کرنا اور سسر کے پیر دبانا مریم کی زمے داری تھی،
اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود “اولاد نرینہ” اور “خاندان کے وارث” کا مطالبہ بدستور جاری تھا.
مریم کی بڑی پہلی بیٹی پانچ سال، دوسری تین سال
اور
تیسری ڈیڑھ سال کی ہو گئی تھی.
مریم کی بیٹیاں بھی مریم کی طرح خوبصورت اور معصوم تھیں
لیکن
اس گھر میں اب ان کی کوئی وقعت نہیں تھی.
مریم چوتھی بار امید سے ہو ضی
، اس بار ہر نسخہ ہر وظیفہ آزمایا گیا، طرح طرح کے تعویذ لا کر باندھے گئے، مریم خود بھی بہت ڈری ہوئی تھی،
کسی نے کہا صبح فجر کے بعد فلاں سورۃ پڑھو تو اولاد نرینہ ہوگی
کسی نے کہا
فلاں فلاں آیات لکھ کر باندھو
الغرض ہر اسلامی و غیر اسلامی ٹونہ ٹوٹکا استعمال کیا گیا.
جوں جوں وقت قریب آرہا تھا
ڈر مریم کے دل میں بیٹھ گیا،
وہ ہر وقت یہی دعا کرتی کہ
اس کے ہاں لڑکا ہو جائے،
وہ ہر وقت یہی سوچتی کہ لڑکی ہو گئی تو کیا ہو گا.
حسبِ سابق
مریم کو اس کے ماں باپ کے گھر بھیج دیا گیا،
اس کی ماں اسے لے کر ایک پرائیویٹ ہسپتال پہنچی. لیڈی ڈاکٹر نے ایک ننھا سا وجود مریم کے سینے پر رکھتے ہوئے کہا
“مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے”
یہ الفاظ مریم برداشت نہیں کر سکی، اسکا دل رک گیا،
ہارٹ اٹیک اتنا شدید تھا
کہ
وہ چالیس سیکنڈ میں ہی مر چکی تھی.

وہ چالیس سیکنڈ مریم پر یوں گزرے جیسے چالیس سال ہوں،
ان چالیس سیکنڈ میں مریم سوچتی رہی کہ
بیٹی پیدا کرنے میں کیا گناہ ہے،
بیٹی پیدا ہونے میں کیا گناہ ہے،
میری تین بچیوں نے کیا گناہ کیا،
اور یہ جو
ابھی چالیس سیکنڈ پہلے ایک بیٹی پیدا ہوئی
اس کا کیا گناہ ہے.
ان چالیس سیکنڈ میں مریم نے آنے والے چالیس سالوں کے لئے سوچا.
بِن ماں کی چار بچیاں کون سنبھالے گا؟ اور
یہ بچی جس کی عمر ابھی چالیس سیکنڈ ہے
یہ بھی
اگلے چالیس سال اسی ظلم کی چکی میں پِسے گی
. ڈاکٹروں نے مریم کی لاش اور بچی مریم کی بوڑھی ماں کے حوالے کر دی.
میری بیگم آج صبح مریم کے جنازے میں شریک تھی،
سب کہتے تھے مریم کو دل کا دورہ پڑا ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ
وہ ہارٹ اٹیک نہیں مرڈر تھا
ایک کولڈ بلڈ مرڈر

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر