لاطینی امریکا: جلسے، جلوس اور ہنگاموں کے پیچھے کیا ہے؟

Proteste in Santiago

Proteste in Santiago

لاطینی امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) کیا ایکواڈور اور چلی میں حکومت مخالف پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ لاطینی امریکا کے دیگر ملکوں تک پھیل سکتا ہے؟ چلی کے دارالحکومت سانتیاگو میں جمعے کے مظاہرے کو ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج قرار دیا جا رہا ہے۔ حکومت مخالف مظاہرے میں دس لاکھ سے زائد لوگ سڑکوں پر نکلے۔ مظاہرین صدر سباستیان پِنیرا کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

سانتیاگو کی میئر کارلا روبیلار بھی عوامی غم و غصے کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے ٹوئٹر پرمظاہرے کی ویڈیو شیئر کی اور کہا، ”آج چلی میں ایک تاریخی دن تھا۔ سانتیاگو میٹروپولیٹن علاقے میں قریب ایک ملین افراد نے پرامن مظاہرہ کیا۔ یہ لوگ ایک نئے چلی کے خواب کے ترجمان ہیں۔‘‘

گزشتہ دو ہفتوں کے دوران پہلے ایکواڈوراور پھر چلی میں حکومت مخالف مظاہروں میں شدت دیکھی گئی ہے۔ یہ دونوں ملک جغرافیائی طور پر ایک دوسرے سے ڈھائی ہزار کلومیٹر دور واقع ہیں۔ دونوں ملکوں میں عوامی مظاہرے ان کے صدور کی معاشی پالیسیوں کے خلاف ہیں۔ مظاہروں کے بعد دونوں حکومتوں نے کچھ معاشی اصلاحات کا اعلان کیا، لیکن لوگ مطمئن نہ ہوئے اور احتجاج پھیلتا چلا گیا۔

جرمنی کے تھنک ٹینک فریڈرش ایبرٹ فاؤنڈیشن میں لاطینی امریکا کی ڈائریکٹر والیسکا ہیسے کے مطابق ان مظاہروں کے محرکات باقی لاطینی امریکی ممالک میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

پانچ دہائیوں سے زائد کے عرصے میں آئی ایم ایف ہمیشہ ایک ہی نسخہ اختیار کیے ہوئے ہے، یعنی اقتصادی آزادی (نجکاری) اور عوامی اخراجات میں کمی۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ قرضوں کی ادائیگی کے لیے ارجنٹینا اور ایکواڈور دونوں کو معاشی کفایت شعاری اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔

لیکن ایکواڈور اور ارجنٹائن کے برعکس چلی کو قرضوں کا مسئلہ درپیش نہیں۔ ہیسے کے مطابق اس کے باوجود چلی کے عوام کی اقتصادی حالت دیگر لاطینی امریکی ممالک سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔

چلی کے بارے میں والیسکا ہیسے نے بتایا، ”چلی دنیا کا سب سے زیادہ نیولبرل ملک ہے۔ صحت، تعلیم اور پینشن سمیت عوامی زندگی کے ہر شعبے کی نجکاری کی جا چکی ہے۔ اس کے باوجود عوام اپنے اخراجات پورے نہیں کر پا رہے اور عوامی مظاہروں کی وجہ بھی یہی ہے۔ مڈل کلاس افراد کی ماہانہ اوسط کمائی قریب سات سو یورو بنتی ہے جبکہ اُن کے اخراجاتِ زندگی برلن کے برابر ہیں۔‘‘

اعداد و شمار کے مطابق چلی کی اقتصادی حالت بہتری کی جانب گامزن ہے۔ لاطینی امریکی اکنامک کمیشن کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2016 سے سن 2019 کے درمیان چلی میں غربت کی شرح میں بھی تین فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ لیکن اسی رپورٹ کے مطابق ملک کی ایک چوتھائی دولت محض ایک فیصد طبقے کے پاس ہے۔

ماہرین کے مطابق زیادہ تر جنوبی امریکی ممالک میں امیر اور غریب کے درمیان فرق بہت زیادہ ہے۔ اس بات کا اندازہ عالمی بینک کے ایک جائزے کے مطابق دنیا کے دس بدترین معاشی عدم مساوات کے حامل ممالک میں سے آٹھ لاطینی امریکی ملک ہیں، جن میں چلی بھی شامل ہے۔

جرمن گرین پارٹی کے تھنک ٹینک ادارے ہائنرش بؤل فاؤنڈیشن سے وابستہ مشائل الواریز کئی برس سانتیاگو میں رہے ہیں۔ مشائل کے مطابق موجودہ صدی کے اوائل میں لاطینی امریکی ملکوں میں سماجی ترقی ہوئی لیکن اب ایکواڈور اور ارجنٹائن سمیت خطے کے کئی حکومتیں خسارے میں ہیں۔ انہوں نے کہا، ”حکومتیں ٹیکس نظام اور منظم ٹیکس اصلاحات پر توجہ نہیں دے رہیں۔‘‘

اکثر سماجی ماہرین اس کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔ ہیسے کے خیال میں اگر ایسا ہوتا تو ارجنٹائن کے عوام بھی اب تک سڑکوں پر نکل چکے ہوتے۔

چلی کے قدامت پسند تھنک ٹینک ‘لبرٹاڈ ڈیسارولو‘ سے وابستہ بیٹینا ہورسٹ لاطینی امریکی ممالک میں عدم استحکام کی ذمہ داری بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں پر ڈالتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ”جب وہ ووٹ کی طاقت سے اقتدار حاصل نہیں کر پاتیں تو تشدد کی راہ اختیار کر کے اقتدار میں آنا چاہتی ہیں۔‘‘

تاہم الواریز اس بات سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کا کہنا ہے کہ لاطینی امریکا کے زیادہ تر عوام اب امیر اور غریب کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج سے تنگ آ چکے ہیں۔