حکمرانوں خدارا عوام کو بخش دو

Inflation

Inflation

اَب کوئی میری اِس بات سے متفق ہویا نہ ہومگر یہ حقیقت ہے کہ بجٹ میں مہنگائی اور ٹیکسوں کا بوجھ ہویا گرم و سرد موسم کی شدت یا سیاست دانوں کا اپنا کوئی کھیل تماشہ ہو اِن سارے کاموں میں مرتے تو بیچارے غریب ہی ہیں ناں…!!اَب تک موجود حکومت کا کوئی ایک بھی ایساقابلِ تعریف کارنامہ نہیں ہے جس میں عوام کو ریلیف ملاہو، اپنی ایک سال اور چند ماہ اور کچھ دن کی مدت پوری کرنے والی نواز حکومت نے ابھی تک عوام کے لئے کچھ ایسا نہیں کیا ہے کہ جس سے عوام میں یہ اُمید اور اُمنگ پیدا ہوکہ نوازحکومت عوام دُوست ہے یا آئندہ سالوں میں یہ عوام کی ہمدرد حکومت کہلانے کے قابل ہو جائے گی۔

اَب آپ نواز حکومت کا یہ دوسرا بجٹ ہی دیکھ لیں جس میں عوام کو آنے والے دِنوں،ہفتوں اور مہینوں میں مہنگائی کے بوجھ تلے دبا کر زندہ درگور کرنے کے پورے پورے انتظامات کرلئے گئے ہیں مگر دوسری جانب بیچاری معصوم عوام ہے کہ اَب بھی اِسی اُمیداور حسرت میں پھولے جارہی ہے کہ نوازشریف کی موجودہ حکومت اِن کے حق میں کچھ نہ کچھ بہتر ضرور کر جائے گی…؟اگرچہ اِسی مظلوم عوام سے کچھ عقل مندوں کا خام خیال یہ ہے کہ نوازحکومت عوام کے لئے کبھی بھی اچھی نہیں رہی ہے اور موجودبجٹ کے بعد اِس سے کسی قسم کی اچھائی کی اُمیدرکھنا کسی خونخواریا آدمخوردرندے کے منہ میں جانے کے بعد یہ سوچنااور اُمیدرکھناکہ وہ نہیں کھائے گا…!!سب سے بڑی بے وقوفی کے سوااور کچھ نہیں ہے۔

اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نوازحکومت نے موجودہ بجٹ میں کم آمدنی والے سرکاری اور نجی ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن میں جس حساب سے اضافے کا اعلان کیا ہے وہ آنے والے دِنوں میں ہونے والی مہنگائی کے تناسب سے بہت کم ہے،اَب ایسے میں سرکاری اور نجی اداروں کے غریب اور کم آمدنی والے ملازمین احتجاج نہ کریں تو پھر یہ اپنے حق کے لئے اور کیا کریں اور اِن پرحکومت کا ظلم یہ کہ وہ طاقت کے نشے میں اپنی حکومتی مشنیری کا اِن غریب اور بیکس لوگوں پر بیدریغ استعمال کرے یہ کہاں کا انصاف ہے یہ ٹھیک ہے کہ وفاقی وزیرخزانہ مسٹراسحاق ڈار یعنی کے جناب ِ محترم بجٹی صاحب مُلکی بجٹ بنانے کے ماہر ہیں اِس سے انکار نہیں مگر کیا اِن میں اتنی صلاحیت کے ہے کہ وہ کسی غریب کے گھر کا 12ہزارکاایک ماہ کا بہترین بجٹ بناکردے سکتے ہیں…؟ نہیں ہرگزنہیں …وہ ایسانہیںکرسکتے کیوں کہ کسی غریب کے گھر کا 12ہزارکا بجٹ اِن کی صلاحیتوں کے پول کھول کررکھ دے گااور وہ یقیناہاتھ جوڑ کر گھٹنے ٹیک دیں گے..اِس لئے کہ یہ اِن کے لئے ایک بڑاچیلنج ہوگااور وہ اِس چیلنج میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوںگے اور کیوں کہ اِنہیں بارہ ہزارکا بجٹ بناناہی نہیں آتاہے اِن کا دماغ اور ہاتھ تو کھربوں اور اربوں کے بجٹ پرصاف ہوتاہے بھلایہ کسی غریب کے گھر کا ایک ماہ کا بارہ ہزارکا بجٹ بناناکیاجانیں…؟مجھے یقین ہے کہ اگرجس روز بھی اِنہیں کسی غریب کے گھر کا 12ہزارکا بجٹ بناناآگیاتو ممکن ہے کہ اِنہیں غریبوںکی حالتِ زندگی اور اِن کی کسمپرسی کا بھی احساس ہوجائے اور وہ اگلے بجٹ میںغریبوںکی تنخواہ اور مراعات میں ایساہی اضافہ کریں جیساکہ اِنہوں نے موجودہ صدر ممنون حسین کے لئے ایوانِ صدر کے بجٹ میں7کروڑکا آنکھ بندکرکے اضافہ یہ سمجھ کرکردیاہے کہ یہ بہت معمولی سااضافہ ہے جبکہ ماہرین اقتصادیات کے مطابق یہ اضافہ سابق صدرآصف علی زاردی کے مقابلے میںبہت زیادہے ایوانِ صدرکے بجٹ میں سات کروڑ کا ہونے والے اضافے سے متعلق ماہرین اقتصادیات کا یہ خیال ہے کہ پچھلے سال جب ایوانِ صدرمیں آصف علی زرادی مقیم تھے تو اُس وقت ایوانِ صدر کا کُل بجٹ 68کروڑ کاتھامگر موجودہ بجٹ 2014-15میں ایوانِ صدر کے بجٹ میں آنکھیں بندکرکے یکدم سے 7کروڑکا ہونے والااضافہ عوام میں تشویش کا باعث بن رہا ہے۔

Poor Peoples

Poor Peoples

آج ساری پاکستانی قوم یہ سوچ رہی ہے کہ غریبوں کے ووٹوں سے اقتدار سنبھالنے والی حکومت کا یہ رنگ بھی سامنے آگیا ہے کہ یہ ہمارے ہی ووٹوں سے اقتدارمیں آئی ہے اور آج ہماری ہی خلاف ایسے امتیازی سلوک کرنے پرتلی بیٹھی ہے کہ جیسے ہم ہی اِس کی آنکھ کے سب سے بڑے شہتیرہیں۔ جبکہ یہاں افسوسناک امریہ بھی ہے کہ جہاں موجودہ بجٹ میں حکومت نے ایوان صدرکے بجٹ میں 7کروڑکا اضافہ کیاہے اور کم آمدنی والے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصدکا اضافے کا اعلان کرکے اپنے تعین مسرتوں کے جھنڈے گاڑے ہیں تو وہیں حکومت نے یہ بھی مناسب نہ سمجھاکہ وہ اراکین پارلیمنٹ کو چھوڑ دے اِس لگے ہاتھوں حکومت نے یہ غنیمت جاناکہ ا رکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کردیاجائے سو کم آمدنی والے سرکاری ملازمین کا منہ بندکرنے اور یہ بتانے کے لئے کہ ہم نے اپنے پارلیمنٹیریز کے تنخواہوں میں بھی اتناہی اضافہ کیا ہے سو حکومت نے بڑی پلاننگ سے موجودہ بجٹ میں آؤ دیکھا نہ تاؤ فوراََہی ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں بھی 10فیصد کا اضافہ کردیا اور نہ صرف یہ بلکہ پارلیمنٹیریزکے سیر سپارٹے کی مدمیں ہونے والے اخراجات کے لئے 4 ارب 14 کروڑ بھی مختص کردیئے ہیں۔

اَب ایسے میںیہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ ایک طرف توموجودہ بجٹ میں کم آمدنی والے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10فیصداضافے کا اعلان کیاگیاہے جنہیں اگلے ماہ کی تنخواہ صرف چندسوروپوں کے اضافے کے ساتھ ملے گی اور مہنگائی کا تناسب کہاں سے کہاں پہنچ چکاہوگامگر جب اگلے ماہ کی تنخواہ ارکان پارلیمنٹ وصول کریں گے تو اِن کی تنخواہ میں لاکھوں کا اضافہ ہوگیاہوگااور دیگر اخراجات کی مدمیں ملنے والی رقوم علیحدہ بڑھی ہوئی ملے گی..حکومت کو کم آمدنی اور ارکان پارلیمنٹ کی نتخواہوں میں اضافہ سوچ سمجھ کرناچاہئے اور ایوانِ صدرکا بجٹ قائد اعظم محمدعلی جناح کے اُس فرمان کی روشنی میں رکھناچاہئے کہ جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ یہ قوم کے نوکر ہیں قوم نے اِنہیں بڑی اہم ذمہ داری سونپی ہے اگر اِنہیں ایوانوں میں آنے سے پہلے چائے بھی اپنے گھر وں سے پی کر آناچاہئے گوکہ قائد کا یہ فرماناتھاکہ ایوان قومی خزانے سے چائے پینے یا پلانے کی جگہہ نہیں ہے یہ تو مثالی ادارے ہیں جہاں سے مثبت تاثر جانا چاہئے۔

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com