زندگی یا موت

World Health Organization

World Health Organization

عالمی ادارہ صحت نے ایک عالمی رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں ہر چالیس سیکنڈ بعد ایک شخص خودکشی کر لیتا ہے اعداد وشمار کے مطابق دنیا میں سالانہ اسی لاکھ افراد اپنے ہاتھوں سے زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں، ادارے نے ایسی اموات کی مختلف وجوہات میں شمار و تقسیم کی ہے، مغربی ممالک میں عام طور پر میڈیا میں خود کشی کے واقعات کی زیادہ معلومات نشر نہیں کی جاتیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی فرد سنجیدگی سے خود کشی کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے تو میڈیا ایک واحد ذریعہ ہے جس کی پیروی کرتے ہوئے وہ اپنی جان لے سکتا ہے، کئی برس پہلے عالمی ادارہ صحت نے میڈیا سے اپیل کی تھی کہ ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے جرائم پر مبنی واقعات کو نہایت محتاط طریقے سے پیش کیا جائے، مغربی ممالک میں خودکشی یا جرائم کے واقعات کو مختصر دورانیے میں محتاط الفاظ میں نشر کیا جاتا ہے تاکہ کوئی فرد اس سے منفی اثر نہ لے۔عالمی ادارہ صحت نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ دنیا بھر میں سالانہ اسی لاکھ افراد خود کشی کرتے ہیں جبکہ ایک میلین سے زائد افراد خود کشی کرنے کی کوشش کرتے ہیں، عالمی ادارے کے ڈائیرکٹر جنرل کا کہنا ہے خود کشی ایک عالمی رحجان بن چکا ہے تاہم خود کشی کرنے یا اس کی کوشش کرنے والوں کی بین الاقوامی سطح پر مختلف وجوہات ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ دنیا میں خود کشی کے زیادہ تر واقعات غریب ممالک میں رجسٹرڈ کئے جاتے ہیںجہاں ہر چوتھا فرد خود کشی کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن ڈرامیٹک انداز میں خود کشیوں کی شرح دوہزار بارہ میں رجسٹرڈ ہوئیں، ادارے نے دنیا کے تمام ممالک میں خود کشی کے واقعات کی چھان بین کے بعد بڑی تعدا د میں نشان دہی کی ہے کہ ایک لاکھ باشندوں پر مشتمل آبادی والے حلقوں یا علاقوں میں بیس سے زائد افراد نے خود کشی کی،مندرجہ ذیل ممالک میں برنڈی ،گیانا،لتھوانا ، قازقستان، موزمبیق، نیپال اور شمالی کوریا سر فہرست ہیںدوسرے نمبر پر جنوبی کوریا ،سری لنکا ، سورینام اور تنزانیہ کے نام ہیں،رپورٹ کے مطابق عام طور پر خود کشی کرنے والوں کی عمریں پندرہ سے انتیس سال رجسٹرڈ کی گئیں ہیں، زیادہ تر اموات ان مردوں کی ہیں جو پر تشدد واقعات یا صدموں سے دل برداشتہ ہو کر اپنی جان لیتے ہیں،خواتین میں خود کشی کی تعداد اکہتر فیصد ریکارڈ کی گئی۔

عالمی ادارے نے دنیا کے تمام ممالک سے اپیل کی ہے کہ خود کشی کے رحجان پر فوری قابو پایا جائے کیونکہ یہ سماجی المیہ بن چکا ہے،خود کشی کرنے والے فرد کے خاندان کے افراد ذہنی صدمے سے دوچار ہو جاتے ہیں اور یہ ایک دوسرے بڑے المیے کا آغاز ہوتا ہے ،ادارے کا کہنا ہے کہ خود کشی کرنے والے افراد پہلی ناکامی کے بعد دوبارہ کوشش کرتے ہیںاور ان کے اس اقدام کو روکنا بہت ضرروی ہے۔

محقیقین کا کہنا ہے انسانی خواہشات اور وجوہات ہی خود کشی کا باعث بنتی ہیں،بالخصوص ڈپریشن اور شدید ذہنی دباؤو مسائل سے چھٹکارہ پانے کیلئے لوگ ایسے اقدام اٹھاتے ہیںعلاوہ ازیں الکوحل اور منشیات کا بھی پچاس فیصد خود کشی میں کردار ہوتا ہے،دیگر مسائل مثلاً ملازمت، مالی پریشانی، ناامیدی، دائمی تکلیف اور خطرناک بیماریاں بھی خود کشی کا سبب بنتی ہیں رپورٹ کے مطابق جینیاتی اور حیاتاتی عوامل ، قدرتی آفات،جنگیں ،تنازعات کے علاوہ ذہنی اور جسمانی زیادتی و تشدد بھی انسان کو اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے پر اکساتے ہیں۔

Suicide

Suicide

ادارے کا کہنا ہے کہ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ دو ہزار بیس تک خود کشی کی عالمی شرح پر دس فیصد قابو پالیں گے،ادارے نے اپنی رپورٹ میں
اس بات پر زور دیا ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو ہتھیاروں، تیزاب اورجان لیوا خطر ناک ادویات پر پابندی لگائی جائے یا ان تک رسائی محدود کی جائے الکوحل اور منشیات کے غلط استعمال کو روکا جائے اور خود کشی کے واقعات کو روکنے کیلئے انسانوں سے قریبی رابطہ اہم جز قرار دیا ہے،
کیونکہ مسائل میں گھرے افراد کو اخلاقی ہمدردی کی ضرورت ہوتی ہے انہیں حوصلہ دیا جائے اور انکے مسائل حل کرنے کی پیشکش کی جائے تاکہ ان میں مسائل سے جنگ کرنے اور زندہ رہنے کی امید پیدا ہو، دل برداشتہ افراد کے ذہن کو تبدیل کرنے میں ان کی مد د کی جائے ان تمام عوامل سے کم از کم اتنا فائدہ ضرور ہو گا کہ وہ خود کشی جیسے اقدام سے عارضی طور پر کنارہ کش ہوں گے اور انہیں سوچنے کا موقع ملے گا کہ جو قدم وہ اٹھانے جارہے ہیں اس میں کسی کا فائدہ نہیںبلکہ اس کی زندگی سے جڑے بہت سے افراد کو نقصان ہے۔

آخر میں اتنا کہنا ضروی ہے کہ پاکستانی الیکٹرونک میڈیا بالخصوص سیٹلائیٹ چینلزکے مالکان اور پروڈیوسر صرف پیسا کمانے کی دوڑ میںہیں، وہ جاہل یا غیر تعلیم یافتہ نہیںوہ سب جانتے ہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے اس کے باوجود ملک وقوم کو تباہ کرنے پر تلے ہیں ، ان چینلز پر فحاشی اور تشدد کے علاوہ اگر کچھ دکھایا جاتاہے تو وہ نام نہاد لیڈروں کی بکواس جس کا کسی کو کوئی فائدہ نہیں ،چین ہمارا دوست ہے ترکی ہمارا دوست ہے تو کیا سالوں سے جاری اس بکواس سے کسی غریب کے گھر چولہا جل اٹھے گا کسی ڈگری والے کو ملازمت مل جائے گی کسی پولیس والے یا فوجی شہید کی فیملی کو بروقت پینشن مل جائے گی ،کسی غریب کی بیٹی کی عزت داغدار ہوئی تو کیا چین اور ترکی کے باشندے اس سے بیاہ کریں گے ،سیٹلائیٹ چینلزکے کرتا دھرتا نے جو میراتھن گزشتہ چند سالوں سے شروع کر رکھا ہے اس سے قوم کی ذہنیت اور سوچ میں سوائے منفی اثرات کے اور کچھ نہیں جنم لے رہا منسٹری اوف انفارمیشن میں ہزاروں لوگ کام کرتے ہیں اور سب پاکستانی ہیں کیا وہ نہیں جانتے کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے وہ ان چینلز کے لئے ایک انٹر نیشنل ضابطہ اخلاق کیوں نہیں تشکیل دیتے، صبح وشام انڈیا کا کچرا دکھا دکھا کر قوم کے نونہالوں اور خواتین کا بیڑا غرق کیا جا رہا ہے ، اور سب کے سب ٹانگ پہ ٹانگ دھر کر بیٹھے شیشا پی رہے ہیں۔

اگر ایسا ہی چلتا رہا تو وہ دن دور نہیںجب پاکستان بھی ان ممالک میں شمار کیا جائے گا جہاں خود کشی کرنا بچوں کا کھیل بن جائے گا،حکومت کو چاہئے کہ ریاست کا نظام درست کرے ،کوئی بندہ خدا ایسا نہیں جو سوچے کہ نظام درست ہو گا تو پاکستان کی دوستی چین یا ترکی تک محدود نہیں بلکہ ساری دنیا دوست ہو گی،لاکھوں لوگ جو بیرون ممالک گورے کالوں کی ملازمت کرتے ہیں اپنے ملک میں دل جوئی ،دلچسپی اور محنت سے کام کریں گے تاکہ ملک و قوم کوترقی کی راہ پر گامزن دیکھیں۔ کوئی توسوچے؟؟۔

Shahid Shakeel

Shahid Shakeel

تحریر: شاہد شکیل۔۔ جرمنی