ایسی ہو تی ہے زندہ قوم!

Pakistan

Pakistan

تحریر:ایم اے تبسم

دفتروں میں محصور لوگوں کا اپنے خاندان کے ساتھ رابطہ نہیں تھا اور گھر کے لوگ باہر دفتروں اور بازاروں میں موجود اپنے عزیزوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔ مضافات سے آنے والے یہ 50 لاکھ لوگ چار روز تک ٹوکیو میں پڑے رہے۔ ان کی جیب میں زیادہ رقم بھی نہیں تھی اور ان کے سردی سے بچاؤ کا بھی کو ئی بندوبست نہیں تھا۔ ایسے نازک حالات میں بالعموم نفسا نفسی کا عالم ہو تا ہے لیکن جاپانی عجیب قوم ہیں انہوں نے وہ کر دکھایا جو نہ صرف ہندوستان، پاکستان بلکہ امریکہ اور یورپ میں بھی نہیں ہو تا۔

ٹوکیو کے چھوٹے چھوٹے دکانداروں تک نے نہ صرف اپنی اشیاء کے نرخ کم کر دئیے بلکہ سارا اسٹاک نکال کے اپنی دکانوں کے سامنے رکھ دیا او رایک چھوٹے سے باکس پر یہ لکھ کر وہاں نمایاں جگہ پر رکھ دیا کہ ”آپ کو جو چیز چاہئے ‘ بغیر پوچھے اٹھا لیجئے اور اس کے لئے جتنی رقم دے سکتے ہیں آپ اس باکس میں ڈال دیجئے۔” لوگ آتے اپنی ضرورت کی چیزیں اٹھاتے اور جتنے پیسے آسانی سے دے سکتے تھے وہ باکس میں ڈال دیتے اور چلے جاتے۔ اخباروں نے لکھا ہے کہ ٹوکیو کے 90 فیصد چھوٹے بڑے دکانداروں نے یہی کیا۔

تمام جاپانی تاجروں اور دکانداروں نے اس قیامت صغریٰ کے امتحانی موقع پر کھانے پینے کی اشیاء کی قیمت بھی کم کر دی اور ذخیرہ اندوز ی او ربلیک مارکیٹنگ کے بجائے اپنا پورااسٹاک باہر نکال لائے۔ بڑے شاپنگ مالزنے بھی یہی کیا۔ انہوں نے بھی کولڈ اسٹوریج اور گوداموں سے مال نکال دیا یہاں تک کہ ٹوکیو کے عام شہریوں تک نے اپنی ضرورت سے زائد گرم کمبل، گدے ، سیوٹراور جیکٹ اپنے اپنے گھروں کے باہر رکھ دئیے۔ یہ سامان ان پچاس لاکھ لوگوں کے کام آیا جو ناگہانی آفت اور راستے بند ہو جانے کے سبب سڑکوں پر اور کھلے آسمان کے نیچے زندگی گذار نے پر مجبور تھے۔

اس فراخ دلی، ایثار،اور قربانی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان پچاس لاکھ لوگوں کی وجہ سے ٹوکیو شہر میں نہ کوئی لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہوا نہ کسی کو سڑکوں پر کسی قسم کی چیخ و پکار اورشوروغل سنائی دیا۔ نہ لوگوں نے حکومت کے خلاف زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگائے۔ نہ کسی سرکاری عمارت کا کو ئی شیشہ ٹوٹا ، نہ کو ئی احتجاجی جلوس نکلا نہ کسی نے حکومت کو برا بھلا کہا۔ یہ تمام لوگ چپ چاپ رابطوں اور مواصلات کے نظام کی بحالی کا انتظار کر تے رہے۔ ان لوگوں میںموجود ڈاکٹروں نے خود بخود دوسرے متاثرین کا علاج شروع کر دیا انجینئروں نے میٹرو ریلوے کے ٹریکس کی بحالی ، سڑکوں کو دوبارہ قابل استعمال بنانے اور پلوں کی مرمت کا تخمینہ لگانے او رٹیلی فونک رابطوں کو بحال کرنے کا کام سنبھال لیا۔

Inflation

Inflation

ٹوکیو کے مزدوروں اور مستریوں نے حکومت کو اپنی خدمات پیش کر دیںاور خواتین نے چھوٹے بچوں کو سنبھالنا شروع کردیا۔ اس طرح بغیر کسی شور شرابے اور چیخ وپکار کے، نہایت اطمینان اور بردباری کے ساتھ ٹوکیو کی بحالی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس طرح برسوں کا کام دنوں میں مکمل ہو گیا اور اس دوران نہ ٹوکیو میں کسی نے کو ئی ریڈ سگنل توڑا، نہ سڑکوں اور میدانوں میں کچرا جمع ہوا، نہ مہنگائی ہوئی بلکہ آج ٹوکیو میں 11 مارچ کے مقابلے میں نسبتاً کم قیمت پرتمام ضروری اشیاء دستیاب ہیں۔تو ایسی ہو تی ہے۔

زندہ قوم! غیر ت دار، ایماندار او راپنے وطن او راہل وطن سے محبت کر نے والی قوم اور ایک ہم ہیں! اللہ محفوظ رکھے۔ سالانہ سیلابوں کے موقع پراور قحط و حشک سالی کے موقع پر متاثرہ علاقوں میں ارضی و سماوی آفت سے زیادہ بے حس، خود غرض او ر لالچی لوگوں کی لائی ہو ئی آفت’ قہر بر پا کرتی ہے۔ جاپانیوں نے 1945 کی طرح 2011 میں بھی مصیبتوں پر ماتم نہیں کیا، صبرو شکر کے ساتھ یہ ثابت کر دیاکہ ہیروشیما کی طرح وہ سنڈائی کو بھی اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیں گے۔ اللہ بھی ایسے ہی انسانوں کو دوست رکھتا ہے۔

M.A.TABASSUM

M.A.TABASSUM

تحریر:ایم اے تبسم
EMAIL:matabassum81@gmail.com,
0300-4709102