ایوری ڈے از مدر ڈے۔۔!

Mother

Mother

چند دن پہلے مائوں کا دن منایا گیا بے شمار مضامین لکھے گئے۔ ماں کی عظمت پر کچھ لکھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ شفقت، پیار، بے لوث محبت اور قربانی کا دوسرانام ماں ہے۔ اس کا سایہ کڑی دھوپ میں ٹھنڈی چھائوں جیسا ہے۔سخت ترین حالات اور اس عظیم ہستی کا دست شفقت سارے غم بھلا دیتا ہے۔کیا خلوص اور ایثار کے اس سمندرکی حدوں کا اندازہ لگانا بھی ممکن ہے۔ ہرگز نہیں۔۔

اس مقدس رشتے کو الفاظ میں شاید بیان کر سکتا۔۔۔۔ماں بلاشبہ دنیا میں انسان کے پاس خداوند تعالی کی نعمتوں میں سے ایک ہے۔ایک صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ”ایک شخص ہے اس کی جان نہیں نکل رہی بستر مرگ پر تڑپ رہا ہے” آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا چلو دیکھتے ہیں جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں پہنچے تو حکم دیا جائو اس کی ماں کو بلا کر لائو ،جب اس شخص کی ماں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بڑھیا اپنے بیٹے کو معاف کردے۔یہ سننا تھا کہ بڑھیا نے زاروقطار رونا شروع کر دیا۔

کہنے لگی ”میں اسے معاف نہیں کروں گی یہ میری بات نہیں مانتا تھا،میری حکم عدولی کرتا تھااپنی بیوی کو مجھ پر ترجیح دیتا تھا”۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جائو جنگل سے لکڑیاں اکٹھی کر کے لائو تاکہ اسے زندہ جلا دیں۔یہ سننا تھا کہ ممتا تڑپ اٹھی اور ضبط کے تمام بندھن ٹوٹ گئے۔ماں کے لبوں پر بے اختیار آگیا میں نے اپنے بیٹے کو معاف کیا۔الفاظ ادا ہونے کی دیر تھی کہ وہ شخص تکلیف سے آزاد ہو گیااور اسکی روح جہان فانی سے پرواز کر گئی۔ماں تو اس کا نام ہے۔

جو بغیر کسی نفع و نقصان کے صرف محبت دینا جانتی ہے۔بچوں کی تکالیف خود برداشت کر لینا لیکن اپنے جگر کے ٹکڑے پر ہلکی سے آنچ بھی نہ آنے دینا۔۔۔۔ہر دم اپنے بچوں پر جان نچھاور کرنے کے لئے تیار رہنا اتنی محبت صرف ماں ہی دے سکتی ہے۔۔۔۔انسانی سوچوں کے سمندر جہاں خشک ہو جاتے ہیں وہاں سے ماںکی محبت کا آغاز ہوتا ہے۔کتنا حیران کن رشتہ ہے ایک ماں ہے لیکن اپنے سب بچوں میں پیار برابر دینا جانتی ہے۔ماں کی محبت کو ناتو گنا جا سکتا،نا ہی تولا جا سکتااور نہ ہی خریدا جا سکتا ہے۔

Children

Children

تاریخ پڑھ کر دیکھ لیجیے ماں سے بڑھ کر سچے اور خلوص بھرے جذبات کسی اور رشتے میں ہو ہی نہیں سکتے۔اولاد کتنی ہی نا فرمان کیوں ناہو لیکن ماں کی لبوں سے دعا ہی نکلتی ہے۔ہر وقت اپنے بچوں کے خیال اور دیکھ بھال میں لگے رہنے والی ماں کبھی بھی اپنے سکون و آرام کے متعلق نہیں سوچتی۔مر غی بھی مصیبت کے وقت میں اپنے چوزوں کو پروں سے ڈھانپ لیتی ہے صرف یہ سوچ کر چاہے اسے کچھ بھی ہو جائے لیکن اس کے بچوں کو آنچ تک نہ آئے۔ماں تو پھر ماں ہے۔۔۔

اس عظیم وبالا ہستی کے قدموں میں اللہ تعالی نے جنت رکھ دی ہے۔حضرت جاہمہ نبی مہربان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ”میرا ارادہ ہے کہ جہاد میں آپ کے ساتھ شرکت کروں” آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا تمہاری والدہ زندہ ہیں۔۔جواب آیا جی ہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا”تو پھر جائو انھی کی خدمت میں لگے رہوکیونکہ جنت انھی کے قدموں میں ہے۔

ماں دنیا میں خدا کی طرف سے دیا گیا ایسا تحفہ ہے جس کا کم از کم اس دنیا میں تو کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ماں کی محبت کی شدت کو استاد محترم عباس تابش نے اپنے لازوال شعر میں ڈھال دیا ہے۔
ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے

ایسا رشتہ ہے جو اپنی اولاد کی ہر تکلیف خود میں محسوس کرتی ہے۔مائیں تو ہوتی ہی ایسی ہیں ساری دنیاکے دکھ اپنے سینے میں سمو لیتی ہیںلیکن بچوں کو گرم ہوا نہیں لگنے دیتیں۔بلاشبہ ماں کا وجود ایک نعمت اور اللہ کا انعام ہے۔دنیا میں ماں ٹھنڈی چھائوں ہے۔۔۔ممتا کا پیار اتو گھنی دھوپ میں سایہ دار درخت ہے اور اسی ماں کی بدولت
ہزار برکتیں ہیں۔
داستان میرے لاڈ پیار کی بس
ایک ہستی کے گرد گھومتی ہے
پیار جنت سے اس لئے ہے مجھے
کیوں کہ یہ میری ماں کے قدم چومتی ہے

سچ پوچھیے تو ماں جیسی عظیم ہستی کا مقام پربتوں سے بھی بلند ہے۔۔۔سوچتا ہوں ماں سے محبت کا بھی کوئی دن ہوتا ہے۔۔۔میرے لئے تو ہر دن میری ماں کا دن ہے۔۔۔۔ یس ۔۔۔

Farrukh Shahbaz Warraich

Farrukh Shahbaz Warraich

تحریر: فرخ شہباز وڑائچ
farrukhshahbaz03@gmail.com
0321-4506816