بحری تجارتی گزرگاہوں میں آبی جارحیت

American Ships

American Ships

تحریر : قادر خان یوسف زئی

امریکا کی جانب سے ایران پر اقتصادی پابندیوں کے بعد آبی گذر گاہ پر فوجی بیڑے کی موجودگی نے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کسی بڑے تنازع کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ امریکا اپنے اقدامات سے ایران پر دبائو بڑھانے کے لئے اپنے جنگی بیڑوں کے ساتھ بحیرہ عرب میں موجود ہے۔امریکا اپنی افواج کی موجودگی کے لئے یہ جواز فراہم کرتا ہے کہ ایران کی جانب سے خطے میں امریکی مفادات کو خطرات لاحق ہیں ۔ بیڑے کے تعیناتی اور جنگی سازوسامان میں اضافے کے ساتھ تیل کی آبی گزر گاہ سے گذرنے والے تیل بردار جہازوں پر حملے اور قبضے لئے جانے کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ جس سے خطے کی کشیدگی میں تواتر سے اضافہ ہورہا ہے۔ تیل بردار جہازوں پر حملوں کا آغاز جولائی 2018 میں اس وقت ہوا جب حوثی باغیوں نے سعودی عرب کے ایک تیل بردار جہاز پر حملہ کرکے آئل ٹینکر کو نقصان پہنچایا تھا۔ اس وقت عرب اتحاد نے خبردار کیا تھا کہ اگر یہی عمل اسی طرح جاری رہا تو عالمی تجارت اور ماحولیاتی آفت کے اسباب میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

سعودی عرب کے وزیر برائے توانائی، صنعت اور قدرتی وسائل خالد بن عبدالعزیز الفالح کا کہنا تھا کہ” یمن کے حوثی باغیوںنے باب المندب کے قریب سعودی عرب کے دو تیل بردار بحری جہازوں پر حملے کی کوشش مگر عرب اتحادی فوج نے بروقت کارروائی کرکے کوشش ناکام بنا دی۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کا نشانہ بننے والے دونوں بحری جہازوں پر بیس لاکھ بیرل تیل لادا گیا تھا۔ ان دونوں بحری جہازوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ باب المندب بندرگاہ کے قریب سے گذر رہے تھے۔حوثیوں نے بیلسٹک میزائل، ڈرون طیاروں اور سمندری بارودی سرنگوں کے ذخیروں سے بھرپور فائدہ اٹھایا تا کہ علاقائی استحکام کے علاوہ بحیرہ احمر اور آبنائے باب المندب میں جہاز رانی کو خطرے سے دوچار کیا جا سکے”۔ خبر رساں ادارے’رائیٹرز’ کے مطابق گذشتہ برس نومبر میں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر سابقہ پابندیاں بحال کرنے کا اعلان کیا تو اس وقت ایران اور جنوبی کوریا کے درمیان 10 نئے تیل بردار بحری جہازوں کے کے بارے میں مذاکر ات جاری تھے مگر امریکی پابندیوں کے بعد سیول اور تہران کے درمیان نئے بحری جہازوں کی بات چیت روک دی گئی تھی۔ اسی طرح ایران اور پاناما کے درمیان 21 نئے بحری جہازوں کی ایرانی بحری بیڑے میں شمولیت کی بات چیت جاری تھی۔ پاناما کے ساتھ بھی مذاکرات ختم ہوگئے ہیں۔ ایران اب ویتنام جیسے ممالک کی طرف متوجہ ہے تاکہ ان سے استعمال شدہ بحری جہاز خرید کیے جاسکیں۔واضح رہے کہ ایران میں تیل کی یومیہ پیداوار 28 لاکھ بیرل ہے گر عالمی سطح پر ایرانی تیل کی خریداری کم ہونے کے باعث تیل کی پیدوار بھی کم ہوئی ہے۔ ایرانی بجٹ کا ایک بڑا حصہ تیل سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اس لیے امریکی پابندیوں کے بعد ایران پر سخت معاشی دبائو آیا ہے۔

جون 2019کو بحر عمان میں دو تیل بردار بحری جہازوں کو بارودی سرنگوں سے نقصان پہنچا۔ امریکا نے اس کا الزام ایران پر عاید کیا اور اپنے دعویٰ کے ثبوت کے طور کچھ تصاویر و ویڈیو بھی جاری کی گئی لیکن ایران نے امریکی دعوی کو مسترد کرتے ہوئے بحر عمان میں تیل بردار بحری جہازوں کو پہنچنے والے نقصان سے لاتعلقی کا اظہار کیا ۔ خلیج عُمان میں ایک جاپانی تیل بردار جہاز کو اماراتی پانیوں کی طرف جاتے ہوئے تخریب کاری کی کارروائی کا نشانہ بناتھاجس کے نتیجے میں تیل بردار جہاز پر آگ بھڑک اٹھی تھی۔ اس کارروائی میں ایک نارویجن بحری جہاز کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ جہاز ران کمپنیوں کا کہنا تھا کہ کوکوکا کریجیئس ٹینکر جو کہ جاپان کی ملکیت ہے پر موجود 21 افراد جبکہ فرنٹ الٹیئر، جو کہ ناروے کی ملکیت ہے۔بحری گذرگاہ پر تیل بردار جہازوں پر حملے کے بعد خطے میں مزید کشیدگی اس وقت بڑھ گئی جب برطانیہ نے ایرانی بحری جہاز کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ جبرالٹر کی سپریم کورٹ نے حکام کو ایران کے تیل بردار جہاز قبضے میں رکھنے کی اجازت دی تھی۔برطانیہ کی شاہی بحریہ نے شام کے خلاف پابندیوں کی خلاف ورزی کے شبے میں بحیرہ روم کی برطانوی حدود سے اس جہاز کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔

ایران نے برطانیہ کے الزام کو مسترد کیا تھا کہ جہازوں کی منزل شام نہیں تھی ۔ جواباََ ایران کی جانب سے برطانوی تیل بردار جہاز کو قبضے میں لینے کے بعد برطانیہ اور ایران میں کشیدگی عروج پر پہنچ گئی، برطانیہ نے ایران کو جہاز نہ چھوڑنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی دی ہے جبکہ ایران نے بھی قبضے میں لئے گئے ٹینکر کی فوٹیج جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وارننگ دینے کے باؤجود نہ سننے پر جہاز کو قبضے میں لیا گیا۔اس عمل سے امریکا کے بعد ایران کے برطانیہ کے ساتھ بھی تعلقات انتہائی کشیدہ ہوگئے ہیں۔ ایران نے اپنے تیل بردار جہاز کو برطانوی سکیورٹی فورسز کی جانب سے جبل الطارق میں قبضے میں لینے کے بعد برطانوی ٹینکر کو بھی آبنائے ہرمز میں تحویل میں لیا تھا۔ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ برطانوی آئل ٹینکر کا ماہی گیروں کی ایک کشتی کے ساتھ تصادم ہوا تھا، جس کے بعد اسے رکنے کے لیے کہا گیا لیکن اس نے وارننگ نظر انداز کردی۔ جس کے بعد بعد ایرانی گارڈز نے کارروائی کرتے ہوئے اسے پکڑ کر بندر عباس پہنچا دیا۔برطانوی دھمکی کے بعد ایران نے ایک برطانوی جہاز چھوڑ دیا۔امریکی صدر ٹرمپ نے بھی ایران کی جانب سے برطانیہ کے جہاز کو پکڑنے کے بعد کی صورتحال پر فرانسیسی صدر میکغوں کو فون کیا۔

امریکی وزیر خارجہ پومپیو نے کہا ہے کہ ایران سے مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔ ایران نے بھی امریکا سے مشروط مذاکرات کی حامی بھری لیکن امریکا کی جانب سے ایران سے غیر مشروط مذاکرات کے لئے دبائو ڈالا جارہا ہے۔ ہنگامی صورتحال کے باعث ،جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے خلیج کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ فریقین کو سفارتی محاذ سے فائدہ اٹھا کر تنازعات کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنی چاہئیں۔چونکہ ایران کی معیشت کا دارومدار تیل کی فروخت پر منحصر ہے اس لئے ایران کو دبائو میں لانے کے لئے پابندیوں کے سبب آئل ٹینکرز کو روکنے اور جواباََ ایران کی جانب سے آئل ٹینکرز کو تحویل میں لئے تنازعات میں اضافہ بڑھتا جارہا ہے۔ سعودی اور امارات کے آئل ٹینکرز کی گذرگاہ کے غیر محفوظ ہونے پر امریکا کی جانب سے ایک بیان بھی سامنے آیا تھا کہ تیل فروخت و خریدنے والے ممالک اس گزرگاہ کی حفاظت خود کریں ۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آبنائے ہرمز کی حفاظت سے دستبردار ہونے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ تمام ممالک کو آبنائے ہرمز پر بحری جہازوں کی حفاظت کا انتظام خود کرنا چاہیئے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے ٹرمپ کا کہنا تھا کہ چین 91 فیصد، جاپان 62 فیصد اور دیگر کئی ممالک اپنے تیل کے لیے آبنائے ہرمز استعمال کرتے ہیں، تو امریکہ بغیر کسی معاوضے کے دوسرے ممالک کے تجارتی راستوں کی حفاظت کس لیے کر رہا ہے؟ان کا کہنا تھا کہ ان تمام ممالک کو اس پرخطر سفر پر جانے والے اپنے بحری جہازوں کی حفاظت کا انتظام خود کرنا چاہیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس جگہ نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ امریکہ پوری دنیا میں توانائی پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ امریکی صدر نے کہا کہ ایران کے لیے امریکی درخواست بالکل سادہ سی ہے اور وہ یہ کہ ایران ایٹمی ہتھیار اور دہشت گردی سے باز رہے۔ صدر ٹرمپ نے مزید کہا ہے کہ وہ ایران پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے ایگزیکٹیوآرڈر پر دستخط کر رہے ہیں، یہ ڈرون طیارہ گرانے کا جواب ہیں، ان پابندیوں کا ہدف ایرانی سپریم لیڈرہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنے دیں گے، ہم اس سلسلے میں معاہدے کے لیے تیار ہیں۔

سمندری تجارتی گذرگاہوں کے عدم تحفظ اور جہازوں کو تحویل میں لیے جانے کے تیزی سے بڑھتے واقعات خطے میں نئی کشیدگی کو جنم دے رہے ہیں۔ ایران کو مزاکرات کی میز پر لانے کے لئے امریکا کی جانب سے اقتصادی دبائو اور جنگ کی دہمکیوںکے بعد ایران کی جانب سے بھی سخت رویئے کا اظہار کیا جارہا ہے۔ جس کے بعد برطانیہ بھی آئل ٹینکرز کی وجہ سے ایران کو واضح طور پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہا ہے ۔ جس سے خطے میں صورتحال مزید کشیدہ ہو رہی ہے ۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل آنتونیو گوٹیرس نے اپنے بیان میں بحر عُمَان میں دو تیل بردار جہازوں پر حملوں کی شدید مذمت کی۔ انہوںنے تیل بردار جہازوں پر حملوں کے بعد عرب لیگ اور اقوام متحدہ کے مشترکہ اجلاس کے دوران کہا کہ بحر عُمَان میں تیل بردار جہازوں پر حملہ خطے کی کشیدگی میں مزید اضافے کا موجب بن سکتا ہے۔ موجودہ حالات میں بحری تجارتی گزرگاہوں کی نئی جنگ سے خطے میں امن کے قیام کی کوششوں کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔ ایران اور امریکا کے درمیان تنازع سے عالمی امن خطرے میں ہے۔ سلامتی کونسل اور ایٹمی معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک کو حالات کو مزید سنگین ہونے سے بچانے کے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ان حالات میں کہ ایرا ن و امریکا تنازع اپنے عروج پر ہے۔

اب باقاعدہ سعودی عرب میں امریکی افواج کی خدمات حاصل کرنے کی منظوری کے بعد حالات مزید خرابی کی جانب رواں ہونگے ۔ امریکی افواج کا سعودی عرب میں بیس بنانے کے بعد یمن و شام کی جنگ میں ایرانی کردار کو محدود کرنے کی کوششیں مزید تباہی کا سبب بنیں گی ۔ سعودی عرب پر حوثی باغیوں کے مسلسل ڈرون حملوں کے بعد سعودی اتحاد نے یمن میں فضائی کاروائیاں کیں تھی جس پر اقوام متحدہ نے تشویش کا اظہار کیا تھا ۔ نیز امریکا اور جرمنی نے سعودی عرب کو اسلحہ دینے پر پابندی عائد کردی تھی۔ اب سعودی افواج کی موجودگی اور تھاڈ نظام کی تنصیب کے بعد ایرانی بلاک ، امریکی بلاک کے خلاف مزید سخت رویہ اختیار کرسکتا ہے۔ آبی جارحیت کو روکنے کے لئے عالمی برداری کو فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ، لیکن ایسا نظر آتا ہے کہ اسلحہ ساز طاقت ور ممالک جنگ کو وسعت دینا چاہتے ہیں تاکہ جنگ کا ماحول پیدا کرکے بڑے پیمانے پر جنگی ساز و سامان فروخت کیا جاسکے ۔ اگر عظیم مشرق وسطیٰ کی صورتحال میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی تو اس سے اسلحہ ساز ممالک کو فائد تو پہنچے گا لیکن شہریوں اور بے گناہ انسانوں کو جنگ کی آگ مزید جھلسا دی گی۔

 Qadir Khan Yousafzai

Qadir Khan Yousafzai

تحریر : قادر خان یوسف زئی