مارخور

ISI

ISI

تحریر: سفیر حسین کاظمی

قارئن! کہتے ہیں جہاں قلب و ذہن ،مسلمہ نظریات کا رشتہ موجود ہو ۔وہاں رشتے کی نسبت کو بہت اہمیت دی جاتی ہے ۔اس ضمن میں بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔بہرحال یہاں میرا مقصود ”مارخور ”کیساتھ آزاد حکومت کے کسی ادارے کی جانب سے روا رکھے گئے سلوک کا تذکرہ ہے ۔اس لئے محدود و مختصر تمہید کیساتھ آگے بڑھتے ہیں۔چونکہ ”مارخور”کو انٹرسروسز انٹلی جنس کے پیشہ وارانہ کردار سے نسبت دی گئی ہے ۔اور یہی آئی ایس آئی کا نشان بھی ہے۔اس اعتبار سے مارخور کی نسبت کوئی مذاق نہیں ہوسکتی ۔بلکہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے ۔لیکن گذشتہ سال جب ریاستی دارالحکومت میں اچانک مارخور کا مجسمہ سال چھتردومیل کے چوک میں نصب کردیا گیا ۔باوجود اسکے کہ مذکورہ چوک بمطابق حکومتی نوٹیفکشن ”ختم نبوت چوک”قرارپاچکا تھا۔اس لئے مارخور کو وہاں نصب کرنے کی کسی قسم کی جوازیت نہیں بنتی تھی۔اور یہ ایک طرح سے ہر دو نسبت سے مذاق تھا۔”ختم نبوت چوک”میں مجسمہ نصب کرنے کی انتہائی حماقت پر ردعمل بھی آیا ۔جوکہ متوقع بھی تھا۔۔۔۔دو تین ہفتے سوشل میڈیا میں لے دے ہوئی ۔اور پھر چیف سیکرٹری کے احکامات پر مجسمہ وہاں سے ہٹادیا گیا ۔اور بات ختم ۔۔۔۔البتہ اس سارے قضیئے میں” مارخور ”کی خوب خوب تذلیل ہوئی ۔ مارخور کی اپنی دُنیا ہے اور وہ عملی کام پر یقین رکھتا ہے نہ کہ چکنی چپڑی باتوں ،دعوئوں اور اداکاری پر۔

۔۔۔جونہی مجسمہ ہٹا ۔کسی نے مڑ کر یہ تکلف گورا نہ کیا کہ معلوم کرے ۔آخر اس مجسمہ کو بنوانے میں کیسی ذہنیت کا عمل دخل ہے؟اگر ذہنیت اچھی تھی تو پھر ”ختم نبوت چوک ”میں کس نے نصب کروایا ؟؟اور جب حماقت آشکار ہوئی تو محض مجمسہ ہٹانے پر اکتفا کیوں کرلیا گیا ۔حالانکہ مناسب یہی تھا کہ ”وہ ذمہ داران پکڑے جاتے ۔جنہوں نے اپنے عمل کی حماقت سے ایک قومی ادارے سے منسوب ”مارخور”کیساتھ یہ حشرکیا۔چونکہ دفاع وطن میں انٹرسروسز انٹلی جنس کا کردار وطن دشمنوں کو شکار کرنے کیلئے”اُنھیں بلوں ”سینکالنے اور شکار کرنے میں ”مارخور” جیسا ہے ۔اورپھرنشان بھی یہی مارخور ہے ۔اب”فرسٹ ڈیفنس لائن ”پر ہمہ جہتی جنگ لڑنے والے مارخوروں کیساتھ ایسا سلوک سوال تو پیدا کرتا ہے ۔۔۔ اس امر میں کوئی شک بھی نہیں کہ وطن عزیز پاکستان کی ”فرسٹ ڈیفنس لائن” کی مضبوطی ہی ”دفاع وطن” کی ضمانت ہے ۔اور دفاع وطن کے سلسلے میںبنیادی و کلیدی کردارانٹلی جنس کا ہوتا ہے۔ دُنیا میں کسی بھی نوعیت کی جنگوں میں جس ملک کی انٹلی جنس جتنی موثر و وسعت کی حامل ہوگی۔

جنگوں کی جہت کا تعین اور اہداف کی تکمیل اتنی ہی ممکن بنے گی۔چونکہ پاکستان کی انٹلی جنس کا پروفیشنل رول دُنیا کا مانا ہوا ہے۔اس لئے کہیں حمایت و کہیں مخالفت میں لے دے کا سلسلہ بھی چلتا ہی رہتا ہے۔۔چونکہ یہاں تو آزادکشمیرکے دارالحکومت مظفرآبادمیں ” مارخور”کیساتھ مذاق کا ایک سالہ سلسلہ ہی موضوع ہے۔اس لئے تحریرکو سمیٹتے ہیں۔

پہلی بات:وہ ”کاریگر”پردے سے باہر کیوں نہ لایا گیا۔جس کی کاریگری سے ختم نبوت چوک میں ” مارخور کا مجسمہ” نصب ہوا۔۔۔۔کہیں یہ اُنکی کاریگری تو نہیں تھی جنہیں ختم نبوت سے چڑ ہے۔؟؟؟جس طرح کی صورتحال ہے ۔مظفرآباد میں ہی نہیں وطن عزیز اور ریاست میں ہر اہم مقام پر ”مارخور”کا مجسمہ نصب ہونا چاہیے ۔تاکہ وطن دشمنوں کو یاد دلاتا رہے کہ اُنھیں ریڈ لائن کراس نہیں کرنی ۔کہ مارخور کو انڈر اسٹیمیٹ نہیں کرنا ۔۔۔۔

دوسری بات: یہ مجسمہ کسی دوسرے مقام پرکیوںنصب نہ ہوا؟؟ شہرمیں کسی دوسرے چوک چوراہے کا انتخاب کرنے میں کیا رکاوٹ آگئی دوسری بات:؟؟یہاں سوال صرف اور صرف ”قومی جذبوں”غیرت و حمیت کا ہے ۔جو کہ چوک چوراہے میں نیلام کردی گئی ۔مگر احساس تک نہیں کیا گیا۔ اور اب ”مارخورکا مجسمہ”اسمبلی سیکرٹریٹ ایریا میں یہ لوکل گورنمنٹ کی بلڈنگ کے باہری حصے میں کارپارکنگ میںاپنے ساتھ ہونیوالے توہین و تذلیل پرمبنی سلوک کی داستان لئے موجودہے ۔یقینی طور پر جنہوں نے دیکھنا چاہیے وہ بھی دیکھ چکے ہونگے ۔اور جنہیں ” مارخور ”کے نام سے ہی تنگی ہوتی ہے وہ بھی دیکھ کر خوش ہورہے ہونگے ۔۔۔۔اورمجسمہ اس بلڈنگ میں آنے جانیوالوں کی نظروں میں ہی نہیں ہے۔ باہرسڑک سے گزرنے والے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ جہاں سے گزرنے والیسوچتے ہونگے کہ جہاں”فرسٹ ڈیفنس لائن والے” مارخور” کا یہ حال ہے ۔وہاں،کیا انسانیت ،کیا نظریات ،کیا حُب الوطنی ۔۔۔

تیسری بات:یہ کون سے ”کاریگر ” ہیں جو ریاست کے وسائل و تقدیرپر حاوی رہتے ہوئے ”مارخور”کے مجسمہ کو حرام خوری کاذریعہ بنانے سے بھی نہیں چُوکے ۔ مجسمہ بنوانے ،لانے اور نصب کرنے کے نام پر اچھی خاصی رقم کن جیبوں میں گئی ؟؟ اسوقت مارخور کا مجسمہ جہاں پارکنگ ایریا پڑاہے ۔دراصل یہ ہمارے دعوئوں کے برعکس قومی سوچ و جذبوں کے فقدان کا اعلان بھی ہے ۔جو ہمارے روزانہ کی بنیاد پر جاری بیانات کی مکمل نفی نہ سہی مگر بیانات کی صحت کو مشکوک ضرور بناتا ہے ۔اوریہ فرسٹ ڈیفنس لائن کیساتھ بدترین مذاق سے کم بھی نہیں۔مظفرآباد میں ”ماخور”کے مجسمہ، کی حالت زار ایک چونکا دینے والا پیغام بھی ہے ۔جسے مارخور صفات والے ہی سمجھ سکتے ہیں نہ کہ ”حرام خور”۔۔ ۔ ۔ ۔اب یہ مجسمہ ریاستی انتظامیہ کی اہلیت پر سوال تو نہیں ؟یامحض شرارت کیوجہ سے ایک اہم ادارے کی توہین کا سبب بناہے؟؟؟ ۔۔۔ ۔۔ سنجیدہ اور غیرجانبدار قومی حلقے کہتے ہیں کہ ”بااختیار ریاستی اتھارٹی” ّمارخورکی عزت و وقار کا احساس کرتے ہوئے اب بھی یہ مجسمہ شہرمیں ہی کسی بھی بڑے چوک چوراہے پر نصب کروادے ؟؟اور یہ تحقیقات بھی کی جانی چاہیے کہ مارخور کامجسمہ تختہ مشق کیوں بنا۔ اور آج جب وہ توٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا۔یعنی ایک سینگ نصب ٹوٹ چکا۔جوکہ مارخور کی شان بھی ہوتا ہے ۔جگ ہنسائی کیلئے سامنے رکھدیا گیا ہے ۔اس سے بہتر تھاکہ جہاں کباڑ خانے میں رکھا گیا تھا وہیں رہتا ۔تب کم ازکم شہریوں کی نظروں سے دور تھا۔اب اسے عمارت کے داخلی دروازے سے اندر پارکنگ ایریا میں رکھ کر نمائش کروائی جارہی ہے؟؟؟کیااسکی قومی ادارے سے منسوبیت کا مذاق اُڑانا مقصود ہے۔۔اب یہ مجسمہ”ہماری قومی سوچ و فکر”اور ذمہ داران کی بے نیازیوں اورترجیحات کا بھانڈا بھی پھوڑ رہا ہے۔ مظفرآبادمیں ”مارخور” کی بار بار تذلیل کا ازالہ کریگا۔اصلی و نسلی لوگ جہاں بھی ہوں وہ کسی بھی نادانستہ غلطی اور دانستہ کوتاہی کے احساس سے محروم نہیں ہوتے ۔اور اصلاح بھی کرلیتے ہیں۔۔۔ اور اگر ازالہ نہیں کرسکتے توکم ازکم مذکورہ مقام سے” مجسمہ” غائب کروادیا جائے ۔

قارئن ! ہمارا طرز طرز سیاست و حکومت کچھ ایسی روایات کا مجموعہ بنا ہوا ہے ۔کہ کوئی چاہے جتنی بھی کوشش کرے ۔ان سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا ۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں بہت کچھ گنوانا پڑا ہے ۔ہمارا اندازسوچ ،فکر عمل گروہی ،لسانی علاقائی ،مسلکی اور بھی کئی حوالوں سے تو ہے ۔مگر اُس سوچ و نظریہ سے ہمارا تعلق محض ”زبانی کلامی ”جمع خرچ کی حد تک ہے ۔جس سوچ و نظریہ کی مسلمہ حیثیت نے ہمیں ایک قوم کی شکل دی تھی ۔اس ساری کیفیت میں اگر کہیں مثبت سوچ و فکر اورعمل کی عملی نظیرملتی ہے تو وہ ہے ”دفاع وطن”پر مامور مسلح افواج کی اُٹھان اور پیشہ وارانہ کردار ،جوکہ خالصتاََ مسلمہ نظریات کیساتھ منسلک ہے۔ایمان تقویٰ جہاد فی سبیل اللہ کے نصب العین اور افواج کے ہر ہر محاذ کیلئے تیاریوں، قربانیوں کے مرحلے کو قرآن اور سنت کے سانچے میں ڈھالتے ہوئے ”دفاع وطن ”کیا جاتا ہے ۔اور کہیں نسلی ،علاقائی ،مسلکی سوچ کی گنجائش نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ مسلح افواج کا پیشہ وارانہ کردار ہمیشہ مثالی رہتا ہے۔ ہمارا قومی مزاج کچھ گنوانے کا نہیں ۔بلکہ ہتھیانے کا ہے کہ کہیں سے کچھ بھی ہتھیانے کا موقع میسر آیا نہیں کہ ہم تیار بیٹھے ہوتے ہیں ۔مروجہ طرز سیاست میں گنوانے سے زیادہ ہتھیانے کو ترجیح حاصل ہے ۔یہی انتخابی سیاست کہلاتی ہے ۔

چونکہ ہمارے ہاں سیاست کے تمام اسرار و رموز ” ”عوامی رائے”ہتھیانے کے طریقوں تک محدود ہیں ۔اس لئے ”’انتخابی سیاست ”کی نحوست نے ہمارے معاشرے کوابن الوقتی کی سوچ و ترجیح کی طرف دھکیل رکھا ہے ۔جس طرف سے سوچ کو تقویت ملے ۔ سیاسی ترجیحات آسانی سے یقینی بن سکیں ۔بے پیندے کے لوٹے کی مانند ،اُسی جانب لڑھکنا اتنا عام ہوچکا ہے ۔کہ کسی کو حیرت نہیں ہوتی ۔ظاہر ہے جب ”ریاست رہنمائوں کے بجائے سیاسی شعبدہ بازوں”کے ہاتھوں موم کی بتی مانند بن جائیں ۔تو پھرمفاد پرستی کے رحجانات کو ”نظریات”کا لیبل دیکر بتوں کی پوجا کی اور کروائی جاتی ہے ۔ہمارا معاشرہ ”انتخابی سیاست کی نحوست”نے اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ سوپورمیں ایک بزرگ شہری بھارتی فوج کی گولیوں کا نشانہ بن جاتا ہے ۔اور ہمراہ کم سن نواسہ اپنے نانا کی چھاتی پر چڑھا ہوا بیٹھا دیکھا جاتا ہے ۔لیکن کیا مجال کہ شعبدہ بازوں کے اندرخوف خدا پیدا ہوا ہے ۔اُنھیں کشمیری قوم سے طویل مکاری کا احساس ہواہو۔البتہ کورونا وائرس کی وباء سے پیدا صورتحال میں بھی سیاست زوروں پر ہے ۔آئندہ سال انتخابات کے دنگل میں اُترنے اور ووٹ ہتھیانے کیلئے لنگوٹ کسے جارہے ہیں۔گنوانے اور ہتھیانے کی اس کشمکش میں ”قومی سوچ و نظریات”کو شدید دھچکا لگ رہا ہے ۔ریاست پاکستان کی بات کی جائے تو وہاں اور یہاں ایک جیسی صورتحال ہے ۔کہ ”انتخابی سیاست”کا منبع وہیں ہے ۔جہاں کوئی کل بھی زندہ تھا ،آج بھی زندہ ہے ۔بس ضمیر مرگئے ہیں۔انتخابی سیاست کی کھوکھ سے نجم لینے والے طرز حکومت نے ادارہ جاتی سطع پر نحوست پھیلائی ۔سیاسسی مداخلت ،سفارش و ترجیحات نے اُوپر سے لیکر نیچے تک وائرس کی شکل اختیار کرلی ۔ایسا وائرس ،کہ جس نے اجتماعیت ،قوم اور نظریات کو نگلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی ۔جس طرح کمال مہارت سے قومی وسائل کو شیرمادر سمجھ کر ہڑپ کرنے کیلئے کوئی بھی انداز اختیار کرلیا جاتا ہے ۔اس طرح اہم قومی معاملات پر دماغ نہیں چلتے ۔اگر چلتے بھی ہیں تو اتنی بدنیتی اور بغض آشکار ہوجاتا ہے ۔کہ حقیقت سمجھنے میں کوئی مشکل باقی نہیں رہتی ۔

آخری بات: انسان سے غلطیاں سرزدہوسکتی ہیں ۔اُمور کی انجم دہی میں کمی کوتاہی ،غفلت کا عنصر بھی غالب آسکتا ہے ۔خاص کر ایسے عالم میں جبکہ مسلمہ نظریات کی جگہ شخصیت پرستی ،پوجا پاٹ سیاست کا اہم جزو بن جائے۔سنجیدہ حلقوں کے جذبات ،قوم کی اجتماعیت و تشخص کے عکاس ہوتے ہیں ۔اور بعض باتیں سمجھنے سے تعلق رکھتی ہیں ۔اُمید کیجاتی ہے ۔اب مارخور کو مثالی انداز میں کسی اہم مقام پر نصب کیا جائیگا۔کہ قومی حلقے ”مارخور”کیساتھ اس کھیل تماشے سے ناخوش ہیں۔

Safeer Hussain Kazmi

Safeer Hussain Kazmi

تحریر: سفیر حسین کاظمی