سبھی چار دن کی ہیں صدارتیں امارتیں

Man

Man

تحریر : شاہ بانو میر
کسی سیانے کا قول ہے کہ کسی کو کوئی عہدہ دے یا ترقی تو لینے والا اعلیٰ ظرف ہوگا تو عزت دینے والے کو دوگنی عزت دے گا ٬ اور کم ظرف ہوگا تو رعونت کا برتاؤ کرے گا٬ فی زمانہ ہم لوگ وہی پنجابی کی مثال کے مِصداق پکھے جٹ کٹورہ لبھا پانی پی پی ۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی خُدائے زوالجلال ہمیں کوئی عزت دیتا ہے ہم میں سے کچھ لوگ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں٬ ان کے انداز اور تیور ہی بدل جاتے ہیں ٬ یہ رویہ نمائیندہ ہے کہ آپ عام ذہنی سطح سے بھی پستی پر ہیں٬ اسلام کی تعلیمات سے دور یہ ذہنی فرعونی رویہ ہی انسان کو اصل میں ڈبونے کا باعث بنتا ہے٬ اللہ ربّ العزت قرآن پاک میں متعدد مقامات پر فرما چکے کہ میں مال و منال اولاد انعامات نوازشات دے کر آزماتا ہوں٬ اور اس کے بعد میری پکڑ بڑی سخت ہوتی ہے

مگر افسوس یہ پیغام ہم اس کتابِ ہدایت کو کھولیں تو جانی ٬ کہیں ہم کوئی اچھا پیغام کوئی اچھا انداز نہ اپنا لیں لہٰذا آسان عذر پیش کر کے اس کتاب سے خود کو کوسوں دور کر دیتے ہیں یہ کہہ کر کہ اگر پڑھ کر عمل نہ کیا تو سخت وعید ہے٬ لہٰذا اس کو نہیں جاننا چاہتے ٬ نادان یہ نہیں جانتے کہ کل کو جب اس رب کے سامنے حاضر ہونا ہے تو سوال ہونا ہے یہی انٹر نیٹ تھا ناں جسے دن رات استعمال کرتے تھے ٬ اگر دنیاوی کامیابیوں کیلیۓ تمام ویب سائٹس کی معلومات حاصل تھیں تو کیا اسلام کو قرآن کو اللہ کو رسول کو جاننے کا شوق کبھی نہیں جاگا تھا؟ نجات نہیں ہوگی٬ یہ سب جان لیں ٬ نہ جاننے کی چھوٹ ان کو ہے جو دنیا کی ترقی سے کوسوں دور جانوروں جیسی زندگی بسر کر رہے ہیں٬ شعور سے بہت فاصلے پر رہنے والے لوگ٬ مگر ہم جیسے جو دنیا جہاں کی نئی انیجادات سے متعارف ہوتے ہیں وہ یہ کمزور عذر ہرگز پیش نہیں کر سکتے٬ ہم کیسے حرماں نصیب ہیں کہ ایسی احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں کہ دنیا میں مہنگی سے مہنگی یونیورسٹیاں تلاش کرتے ہیں٬ اچھے سے اچھا کالج چاہیے بچوں کیلیۓ

بہترین نام کارکردگی رکھنے والا سکول ابتدائی تعلیم کیلیۓ تلاش کرتے ہیں ٬ تا کہ اعلیٰ اخلاقیات کے ساتھ بہترین ماحول میں کتابوں کا علم دو آتشہ ہو کر بچے کی شخصیت کا حصّہ بنے٬ افسوس صد افسوس پوری دنیا کا یونیوسٹیوں سے بھی اربوں کھربوں گنا زیادہ علم ٬ ادب کا اعلیٰ ترین معیار جب موسیٰ پہلی بار اپنے خالق سے مشرف باکلام ہوئے تو اس انداز میں ادب کا آفاقی پیغام دیا گیا کہ کیسے کسی بڑے کے پاس جاتے ہیں فرمایا اللہ ربّ العزت نے کہ اپنے جوتے اتار دیجیۓ آپ اپنے ربّ کے حضور ہیں سبحان اللہ زندگی کا وہ کونسا شعبہ ہے کونسا پہلو ہے کونسا رخ ہے جس پر اس کتاب ِ حکمت کے اندر سبق موجود نہیں ٬ افسوس کہ ہم ہی اتنے نالائق اور تن آسان بن گئے کہ دنیا کفار کیلیۓ سجائی گئی تھی٬لیکن ہم نے زندگی کی تعیشات کے حصول میں انہیں مات دے دی٬ بھول گئے اپنی آخرت کو جس کیلیۓ دنیا میں سامان(اعمال) اکٹھا کرنا تھا

ALLAH

ALLAH

ہم نے یہیں سب حاصل کرنے کی سعی ایسی کی کہ ایک دوسرے کو گرا کر ہرا کر نیچا دکھا کر نمرود جیسے تفاخر سے گردن اکڑا لی ٬ لیکن ایسے تفاخر کا انجام بھی نمرودی ہی ہوتا ہے٬ ( بربادی) لہٰذا اپنے حال سے عبرت پکڑتے ہوئے اپنے آخری انجام کو بہتر بنانے کیلیۓ آج سے کوشش شروع کر دیں ٬ رویے میں لچک تہذیب شائستگی نرمی اور سلجھاؤ آپ کے اپنے لئے ازحد ضروری ہے٬چوٹ انسان کو سکھاتی ہے کہ وہ اپنی اس کوتاہی کی تعمیر کرے ٬ اور اپنی ذات کو نکھار کر اللہ پاک کی نعمتوں کا بہترین انداز میں شکریہ ادا کرے٬ ا اللہ پاک ناشکرے اکڑخو بد دماغ سخت لب و لہجہ اور طنزیہ فقروں کو کسنے والے سے ناراضگی کا اظہار اپنی نعمت کو چھین کر کرتا ہے٬ آئیے شعور کے ساتھ ہم سب اپنا جائزہ لیں اپنے غلطیوں کیلیۓ کوتاہیوں کیلیۓ ہم کسی اور کے نہیں صرف اور صرف اپنے ربّ کے آگے جوابدہ ہیں٬ دل کی کج روی کو اس پر جمے سال ہا سال کے گہرے زنگ کو کھرچنا اتنا آسان نہیں ٬ تجربے کی بات بتا رہی ہوں٬ نیت خالص کر لیں تو بہت آسان ہے٬ الھمہ فقہنی فی الدین بس اس چھوٹی سی دعا کا ورد رکھیں زبان پر کہ اے اللہ مجھے دین کا فہم عطا فرما آمین اس کے بعد آپ اللہ پر چھوڑ دیں اور جب آپ قرآن پاک سے جُڑ کر اس کو پڑھنا سمجھنا سننا شروع کریں تو پھر دیکھیں آنکھیں کیسے برسات کی ندیاں بہا دیں گی٬ آپکو احساسِ ندامت عمر بھر کی رائیگاں ریاضت کا دکھ٬ وقت گنوانے کا احساس کس قدر بےکل کر دے گا

اس کے بعد آپ کی اصل زندگی شروع ہوگی ٬ جس میں انعام و اکرام کی سوچ ٬ حاصل وصول کا سوال ٬ ختم ہو کر صرف ذات کا احتساب رہ جائے گا٬ ہر لمحہ ہر گھڑی ہر آن صرف اپنی نگرانی٬ دوسروں کی فکرسے آزاد صرف اپنی ذات کا گھیراؤ ایسا خوبصورت فعل ہے جو آپ کو حسد سے جلن سے نفرت سے بغض سے کدورت سے اور ریاکاری سے یکسر عاری کر کے ٬ اپنی فکر میں گم کر دیتا ہے٬ اس شعور کے حصول کے بعد آپ کہیں بھی جائیں کوئی بھی محفل ہو آپ اپنی شرائط پر وہاں ہوتے ہیں ٬ اپنے مضبوط حصار میں خِود کو مقید رکھّے ہوئے ٬ کیونکہ آپ جان چکے ہوتے ہیں کہ اسلام آپکو کہیں بھی کام کرنے سے منع نہیں کرتا

لیکن انداز اور طریقہ کار ضرور وضع کرتا ہے٬ حدود کا تعین ضرور دیتا ہے٬اور حدود کا انتخاب حضرت انسان نے اپنی خوشی سے بے باق معاشرتی زندگی کو محفوظ کرنے کیلیۓ 1400 سال پہلے ہی کر دیا تھا٬ جس کے بعد انسانیت نے معراج حاصل کی تھی ٬ آئیے اپنی کھوئی ہوئی معراج کو صدارتوں میں تلاش نہ کریں ٬ ربّ پاک کے بشر بن کر اس کی خوشنودی حاصل کریں ٬ اس کی خوشنودی حاصل ہوگئی تو شرطیہ کہتی ہوں کہ ہر کھوئی ہوئی گمشدہ چیز بونس بن کر واپس ملے گا ٬ بے شک اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے آئیے اپنی کم ظرف سوچ سے باہر نکل کر اعلیٰ ظرفی کی جانب بڑہتے ہوئے بزریعہ قرآن پاک شعور کے ساتھ روشنی کا سفر کا آغاز کریں ٬
سبھی چار دن کی ہیں چاندنی یہ امارتیں یہ صدارتیں
مجھے اس کمال کا عروج دے کہ زمانہ جس کی مثال دے
آمین

Shahbano Mir

Shahbano Mir

تحریر : شاہ بانو میر