شندور پولو فیسٹیول اور حکومتی رویہ

Shandur Polo Festival

Shandur Polo Festival

اس سال کا شندور پولو فیسٹیول بھی اختتام پذیر ہو گیا۔لیکن اس بار اس پولو فیسٹیول کا بمشکل ہی کسی کو پتہ چل سکا کیوں کہ گزشتہ کئی سال سے فیسٹیول کے ساتھ حکومتی سطح پر زبر دست بے اعتنائی برتی جا رہی ہے۔ایک وقت تھا جب ملک کے سربراہان یہاں آتے تھے۔میڈیا میں دھوم دیکھنے کو ملتی تھی۔نامی گرامی کاروبار ی ادارے بھی اس میں حصہ لیتے توفیسٹیول میں دنیا بھر سے لوگ بھی کھنچے چلے آتے تھے لیکن اب جیسے جیسے پاکستان کو تیزی سے دنیا میں تنہا کیا جا رہا ہے ،لگتا ہے کہ حکومت کو بھی اس تنہائی کی کچھ زیادہ فکر نہیں ورنہ شندورپولو فیسٹیول جیسی اس مثبت سرگرمی کی جانب ایک بار پھر دنیا کی توجہ مبذول کرائی جا سکتی ہے۔اس بار کے شندور پولو فیسٹیول میں وزیر اعظم یا مرکزی حکومت تو کجا صوبائی حکومت خیبر سے بھی کوئی اہم شخصیت شریک نہ ہوئی جسے قابل افسوس ہی قرار دیا جا سکتا ہے ۔شندور پولو فیسٹیول دنیا کا ایک ایسا عجوبہ ہے کہ اس کی مثال سارے عالم میں کہیں نہیں ملتی۔

شندور کی دنیا… آسمان کو چھوتی بلند و بالا اور سفید پوش چوٹیاں… چمکتے دمکتے، شور مچاتے صاف شفاف پانی کے جھرنے اور آبشاریں، خشک و پتھریلے پہاڑوں کے بیچوں بیچ سر سبز و شاداب ا ور آبادوادیاں، کچے پتھریلے راستوں پر جاں گسل سفر اور پھر…12ہزار2سو فٹ کی بلندی پر واقع” دنیا کی چھت” کہلانے والا وسیع و عریض میدان…اورہاں… یہاں صرف ایک میدان ہی نہیںبلکہ آس پاس کی زمین کے”سینے اورسر” سے قطرہ قطرہ کر کے نکلنے والے نیلگوں پانی کی وسیع و عریض اور دنیا کی منفرد ترین دو جھیلیںاور پھر اس کے ایک طرف دنیا کا منفرد ترین لاتعدادخیموں کا عارضی شہر…… اس شہر کے اندر اور چار اطراف ہر طرف قسما قسم کی بے شمار گاڑیاں۔

اس عارضی شہر کے اندرہی نہیںبلکہ چار اطراف اور سینکڑوں کلو میٹر دور تک تمام راستوں میں سکیورٹی فورسزکا سخت پہرہ ہوتا ہے۔یہاں دن چڑھتے سورج کی حرارت سے رات کی روح تک کو کپکپا دینے والی خنکی کو مات دینے کے بعد میدان سجتا ہے ،جہاں خوبصورت، تازہ، جوان، خوب پلے اور گٹھے جسم رکھنے والے گھوڑے اور ان پر سوار چاک وچوبند جوان ہاتھوں میں مخصوص لمبے ہاکی نما” ہتھیار” اٹھائے سامنے آتے ہیں۔ خوشیاںکھل اٹھتی ہیں، چہرے مچل اٹھتے ہیں، رنگ و نور کی جیسے بارش شروع ہو جاتی ہے، سرسبز و شاداب میدان میں گھوڑے سرپٹ دوڑتے ہیں تو دھول اڑنے لگتی ہے، گیند کو ضرب ملتی ہے توفضا رنگا رنگ صدائوں سے چہک اٹھتی ہے۔

یہاں ”بادشاہوں کاکھیل” اور”کھیلوں کا بادشاہ” کہلانے والے کھیل پولو کے دنیا بھر میں اپنی طرز کے منفرد ترین مقابلے ہوتے ہیں۔ شندور پولو فیسٹیول کے آغاز سے پہلے ہی جیپوں،فور وہیل طاقتور گاڑیوں اور مضبوط اعصاب رکھنے والی کاروں، موٹرسا ئیکلوں اور پیدل چلنے کی ہمت مرداں رکھنے والوں کے قافلے شندور پہنچنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہاں 3 روز تک مسلسل چترال اور گلگت بلتستان کی ٹیمو ں کے درمیا ن پولو کے میچ ہوتے ہیں جنہیں دونوں خطوں میں سب سے بڑے تہوار کی حیثیت بھی حاصل ہے۔

دنیا کے اس منفرد ترین مقام جہاں پولو کا آغاز 1936ء میں انگریزوں نے کیا تھا،تک پہنچنے کے لئے دو ہی راستے ہیں۔ ایک چترال سے اور دوسرا گلگت سے… چترال شہر سے شندور کا فاصلہ 147 کلو میٹرجبکہ گلگت سے 211 کلو میٹرہے ۔زیادہ تر سیاح عموماً چترال کا روٹ استعمال کرتے ہیں۔ چترال کے لئے اسلام آباداور پشاور سے پی آئی اے کی سروس بھی چلتی ہے لیکن موسم کی خرابی عموماً آڑے آئی ہی رہتی ہے جس کے باعث لوگ ایسی سڑک پر سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جوایک طرف اعصاب شکن ہوتاہے، خصوصاً دیر بالا سے چترال کی تحصیل دروش تک کا سفر تو جسم و جاں کا جوڑ جوڑ ہلاکر رکھ دیتا ہے۔

اسی ماراماری میںجب 10,230 فٹ بلند لواری ٹاپ پر پہنچیں تو یخ بستہ اور تیز ہوائیں آپ کا استقبال کرتی ہیںتویوں لگتا ہے کہ یہ آپ کے کپڑے بھی اتار لے جائیں گی۔یہاں کی تیز ہوائیں ہی ہوائی جہازوں کو آگے چترال کی جانب بڑھنے سے روک دیتی ہیںاسی لئے ہوائی جہاز اڑانے کا فیصلہ یہاںموسم اور ہوا کی صورتحال کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔دوسری طرف بذریعہ سڑک سفر کرنے والا تقریباً ہر مسافریہاں رکنا ،گرما گرم چائے پینا اورانڈے کھانااس منفرد سفر کا حصہ سمجھتا ہے۔

Chitral

Chitral

چترال سے شندور روانہ ہوں تو تحصیل بونی تک 74 کلو میٹرسڑک بہترین ہے ۔بونی سے آگے کا سفر ہر قدم پر نئے سے نیا تجربہ اور امتحان لئے ہوتا ہے کیونکہ 73 کلو میٹر کا یہ سفر عموماً 6 سے 7 گھنٹوں میں طے ہوتا ہے اور کئی لوگ تو یہ کہہ اٹھتے ہیں کہ ”یار کس مصیبت ،کس جھنجھٹ کو گلے لگا لیا ہے،اچھے خاصے آرام سے بیٹھے ہوئے تھے، سیر و تفریح ہی کرنا تھی توپاکستان کے اور بھی ایک سے بڑھ کر ایک اور بے شمار حصے بھی تو پڑے ہوئے تھے۔ اب کے معاف کیجیو… آئندہ نہ آئیں گے۔ لیکن جیسے ہی شندور کی خوابوں اور خیالوں میں بسی آخری منزل سامنے آتی ہے۔

ساری تھکن اور درد و الم کافور ہو جاتے ہیں۔ یہاں چمکتا دمکتا دور تک پھیلا پانی ،سر سبز و شاداب میدان ، برف کا کفن لپیٹی چا ر اطراف بلند و بالا چوٹیاںاورپھر ان سے اتر کر آنے والی ٹھنڈی یخ بستہ ہوائیں،جب جسم و جاں سے ٹکراتی، استقبال کرتی ہیں تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے برسوں کی حسرت ہی نہیںبلکہ ”من کی مراد”بھی پوری ہو گئی ہو۔

یہاں کھیلی جانے والی پولو کی ایک اوراہم خصوصیت یہ ہے کہ یہاںپر اس کھیل کا کوئی قانون لاگو نہیںہوتا ۔اسے یہاں فری سٹائل پولو کہا جاتا ہے۔دوران کھیل”لاقانونیت”کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اگرگیندتماشائیوں کے ہا تھ آ جائے تووہ بھی اپنی مرضی سے جس طرف چاہیں،پھینکنے کے مجاز ہوتے ہیں۔

یہاں آنے والے سیاح اپنے ساتھ تقریباً تمام اشیائے ضروریہ جن میں خیمے، گرم ملبوسات، کمبل اور سامان خورد ونوش وغیرہ لے کر پہنچتے ہیں۔یہاں دن بھر کبھی پولو تو کبھی کھانے اور چائے کی تیاریاں اور گپ شپ اور کبھی جھیل کنارے چہل قدمی ہوتی ہے… رات کو ٹھنڈی جسم چیر دینے والی ہوائوں کے ساتھ علاقائی ثقافتی محفلیں بھی بپا ہو جاتی ہیںتوگرم علاقوں سے آئے لوگوں کو بھی سرد ہوائیں باہر نکلنے سے روک نہیں پاتیں۔

پولو فیسٹیول کے دوران اور خصوصاً آخری روز وہ منظر سب سے دلنشین اور دلپذیر ہوتا ہے جب آس پاس کی چھوٹی بڑی ٹیکریوں سے ماہر پیراگلائیڈرز جمپ لگاتے، اڑانیں بھرتے اور پھرہزاروں لوگوں کے اوپر دیوہیکل ”پرندوں ”کی طرح پروازیں کرتے ہیں، لیکن یہ ”پرندے ”جہاں بہت بڑے سائز کے ہوتے ہیں وہیں رنگے برنگے بھی ہوتے ہیں جو دل کو موہ لیتے ہیں۔

فیسٹیول ختم ہوتے ہی ہزاروں خیموں کا عارضی شہر” اجڑنے لگتا ہے۔ لوگ گاڑیوں میں سوار ہو کر ایک طرف چترال کی جانب نیچے اترنا شروع ہوتے ہیں تو دوسری طرف کے قافلے گلگت کی طرف روانہ ہونے لگتے ہیں۔ مٹی اور گرد و غبار کا ایک طوفان ہوتا ہے جو اٹھ رہا ہو تا ہے۔ لوگ رومالوں، چادروں سے منہ اور چہرے لپیٹے ،گاڑیوںکے اندراور ان کی چھتوں پر سوار اور جیپوں کے آگے پیچھے لٹے واپس روانہ ہوتے ہیں۔

بہت سے مقامی لوگ اپنا سامان اٹھائے پیدل ہی گھروں کو چل پڑتے ہیں۔ ان میں جہاں نوجوان ہوتے ہیں وہیں ادھیڑ عمر اور معصوم بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ چترال کی ایک کمال خوبی یہ بھی ہے کہ پسماندگی و غربت کے باوجودیہاں فقیر اور بھکاری دیکھنے کو نہیں ملتے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ لوگ انتہائی غیور اورخودی کی پہچان رکھنے والے ہیں۔ ایسے لوگوں کے مسائل حل کرنا اور ان کی ترقی و ترویج کی طرف توجہ کرنا بھی حکومت وقت کی اولین ذمہ داری ہے۔ چترال جانے والے شہر کی سیر اور عالمی شہرت یافتہ وادی کیلاش کا سفر بھی نہ بھولیں کیونکہ یہاں آنے کا موقع کم ہی ملتا ہے۔

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر:علی عمران شاہین