جشن میلاد اور شوبِز

Eid Milad Un Nabi

Eid Milad Un Nabi

تحریر : شاہ بانو میر

وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کُل کہ جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی سِینا

عہد حاضر میں زندگی بہت تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے
انسان کو ایک جہاں سے دوسرے جہاں تک لے جا رہی ہے
علم کا سمندر ہے جس میں انسان ڈوبتا ابھرتا رب العالمین کے عالم دیکھتا جا رہا ہے
مگر
یہ عمل وہ لوگ کر رہے ہیں جن کے علم کی بنیاد تو قرآن مجید ہے
مگر
ان کی زباں کلمہ گو نہیں
دوسری جانب ہم ہیں جو اہل کتاب ہیں
جن کے گھروں میں عالموں کا علم محفوظ پڑا ہے
مگر ٌ
ہم نے کبھی اتنے قیمتی خزانے کی قدر ہی نہیں کی
خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس دنیا کو زبانی کلامی سرائے نہیں کہتے
بلکہ حقیقی معنوں میں یہاں مسافر کی طرح قیام پزیر ہیں
دن رات صرف اور صرف اپنے رب کی رضا حاصل کرنے کیلئے صرف کر رہے ہیں
خیر ہی خیر
سکون ہی سکون
اطمینان ہی اطمینان
یعنی
ہمارے محترم استاذہ کرام علمائے کرام
قلب و ذہن کے ہر کونے میں اطمینان بھلائی خیر موجزن
زندگی اللہ کے بندوں کیلئے وقف کر کے دنیا میں بھی کامیاب اور انشاءاللہ آخرت میں بھی کامیاب
یہ سچ ہے کہ علم کا دین کا پھیلاؤ فرض عین نہیں ہے جو ہر انسان کو کرنا ہے
مگر
بطور مسلمان ہم پر اس وقت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے
اسلامی روایات کی حفاظت حکومتی سطح پر نہیں عوامی سطح پر ضروری ہے
موجودہ دور میں پاکستان جس قسم کے مشکل حالات میں گھِرا ہوا ہے
اس دور میں ہر پاکستانی کو اپنے دین کا اتنا کم سے کم شعور ضرور ہونا چاہیے
کہ
آئے روز ملک جس بد امنی کا شکار ہوتا ہے
وہ نہ ہو سکے
دین سے دوری اور ہماری کم علمی نے پاکستان کو پوری دنیا میں سوالیہ نشان بنا دیا ہے

عذاب یہ بھی ہے کہ کسی حساس ایشو پر بات کی جائے تو راستے میں ہی قیاس آرائیاں شروع کر دی جاتی ہیں
تحریر کا مقصد درمیان میں ہی ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے
آپ لکھتے اپنے نظریے سے ہیں
مگر
قاری اسے اپنی سوچ اور دانش کے حساب سے سمجھتا ہے
مفہوم سمجھنے کی بجائے شخصیات سے منسوب کر کے تحریر کو متنازعہ بنانے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے
جو قابل مذمت ہے
لکھاری نے لکھنا ہے
لکھتے وقت اس کے سامنے کسی بھی معاملہ کی اجتماعی شکل ہوتی ہے الگ خدو خال نہیں
نہ ہی کوئی انفرادی شخصیت نگاہ میں ہوتی ہے
تحریر کی سوچ کو پڑہنے کی کوشش کرنی چاہیے
نا کہ
رائے زنی سے محاذ آرائی کی کیفیت پیدا کی جائے

اسلام اس وقت بڑے عجیب دور سے گزر رہا ہے
ریاست مدینہ کا اعلان سنا تھا مگر عملی طور پے جو کچھ پاکستان میں دیکھا ہے
وہ تو کسی مغربی ریاست کا ملغوبہ لگا
حکومت وقت نے ادارے آزاد کرنے کا کہا تھا
مگر یہاں تو دین کو ہی آزاد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے
دین کے ضابطے ہیں قوانین ہیں حدیں ہیں
دین اللہ کی محمدﷺ کی نافذ کردہ حدود کے اندر رہ کر ہی دین کہلا سکتا ہے
شنید ہے کہ
مختلف ٹی وی چینلز کی معروف اینکرز اور اداکاراؤں سے رابطہ قائم کیا گیا ہے
معروف شو بز کی ہستیوں کی خدمات لئے جانے کی خبر ہے
التجاء ہے حکمرانوں سے کہ
دین کیلئے اتنی بے خوفی والا رویہ نہ اپنایا جائے
دین سیاسی جلسہ نہیں جہاں آپ کی سوچ ظاہر ہو
یہ بہت ڈرنے والا اور سمجھ کر کرنے والا معاملہ ہے
تاریخ گواہ ہے عذاب شدہ قومیں اپنی اسی بے خوفی اور دین سے دوری
کی وجہ سے اللہ کے قہر کا شکار ہوئیں
جب جب ان کے پاس کوئی ہدایت کا پیغام لے کر آیا
تو
اس کا جینا محال کیا گیا
یہ ایک دور کا ایک زمانے کا مسئلہ نہیں تھا
ہر ھادی کے ساتھ اہل زمانہ نے یہی انتہاء آمیز رویہ اپنایا
پاکستان میں وقت کے جید علمائے کرام موجود ہیں
کسی کے اچھے برے مسلمان ہونے کا اعتراض نہیں
اعتراض صرف یہ ہے کہ
ہم بحیثیت قوم پہلے ہی دین سے بہت دور ہیں
مزید ایسے حکومتی اقدامات دین سے اور دوری کا باعث بنیں گے
دینی محفلیں بزنس نہیں ہیں
روحانیت کا واحد ذریعہ ہے
اس میں کاروباری شخصیت نہ تو احساس جگا سکتی ہے اور نہ ہی درد پیدا کر سکتی ہے
بے جان انداز تبلیغ راغب نہیں کرتا
ضرورت ایسے علمائے کرام خواتین عالماؤں کی ہے
جو
اس مبارک موقعے پر امت میں پھر سے احساس جگا سکیں
شعور بحال کروا سکیں
اپنی ذات کی پہچان دے سکیں
اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت کو از سر نو تازہ کر سکیں
کیا یہ سب ایک چیک لے کر کام کرنے والی خاتون کر سکے گی؟
یا کوئی مرد اینکر کر پائے گا؟
پاکستان میں پہلے اللہ کے نام قرآنی آیات لکھی دکھائئ دیتی تھیں
اس بار تو یوں لگا کسی ریاست مدینہ میں نہیں مغربی ریاست میں آگئے
ملک میں کہیں بھی کوئی بھی اللہ کا نام آیت مبارکہ کوئی حدیث کوئی اقوال زریں نظر نہیں آیا
لمحہ فکریہ ہے
اب یہ خبر سنی تو دل لرز کر رہ گیا
اس سیاست نے ابھی اور کتنے گھر نگلنے ہیں؟
دینی واعظین کی بجائے شو بز کے لوگ اس موقعے پر کیوں؟
پیارے نبیﷺ کا ذکر آنسوؤں سے کرنے والے ابھی زندہ ہیں ریٹنگ کا بخار اتاریں
کچھ دین کا بھی سوچیں
اتنے حساس موقعے پر کوئی بھی کہیں سے آکر بیان کرے گی؟ یا کرے گا؟
دنیا کے ہر ادارے کیلئے خوب چھان پٹخ کی جاتی ہے تب کہیں جا کر کسی اسامی پر کوئی براجمان ہوتا ہے
نبی پاکﷺ سے محبت سب کا حق ہے
لِلہ
اس میں خوفِ خُدا کا عنصر شامل رکھیں
پیارے نبیﷺ کی ذات اقدس کا نور کسی اہل ایمان کے ذمے لگانا چاہیے
یہ بے خوفی یہ حد درجہ بڑہا ہوا لادینیت کا طوفان نجانے اس ملک کو کس سمت لے جائے گا
اللہ اور اس کے نبیﷺ کے ساتھ یہ انداز شائد بہت مہنگا پڑ جائے ٌ
التجاء ہے ٹی وی مالکان سے کہ
دولت آپ نے کتنی سمیٹنی ہے؟
ملک میں ہر جگہ عورت کو ٹانگ رکھا ہے
کم سے کم دین میں تو رحم کریں
اور
جید علمائے اکرام سے یا عالمہ خواتین سے جو استاذہ ہوں
ان سے نبی پاک ﷺ کی شان کیلئے وقت لیں
دعا یہی ہے کہ
وطن عزیز میں چھایا ہوا دینی غبار چھٹ جائے
اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم سب کو اپنی رحمت سے نوازے
درست انداز میں دین اور دنیا کو تقسیم کر کے فرقان واضح کرے
پاکستان اس وقت مختلف معاملات میں آتش فشاں بنا ہوا ہے
سب سے گھمبھیر معاملہ دین کا ہے
جسے با شعور مسلمان قرآن و حدیث کو پڑھ کر ہی حل کر سکتے ہیں
لکھے کو پڑھنے کیلئے ہمارے ذہنوں سے تعصب کا خاتمہ ضروری ہے
حق لکھنا آسان نہیں ہے موجودہ دنیا اتنی مادہ پرست ہو گئی ہے
کہ
فائدہ نفع اور نام اولین خواہش بن گئی
ملک میں تقسیم اتنی ہو گئی کہ اداروں کے ساتھ رہنا فائدہ مند کاروبار بن گیا
دولت بھی کماؤ اور نام بھی
مگر
علم منہا کر دو
پاکستان مصنوعی ترقی کی راہ پر گامزن ہے
اسے دین میں واپس اصل راستے پر انشاءاللہ لانا ہے
کسی سے تعصب نہیں نا بغض رکھنا ہے
اپنے اللہ کیلئے اپنے نبیﷺ کیلئے استاذہ کی کوشش کو آگے ضرور پہنچانا ہے
حفاظت اللہ کی ہو گی انشاءاللہ
ہمارے ہر ٹی وی پر تحقیقی تعمیری دینی سوچ کم اور اداروں کی اپنی چھاپ زیادہ دکھائی دیتی ہے
اللہ پاک ہماری رہنمائی فرمائے اور اس ملک کو واپس اسلامی ریاست بنا دے
جہاں اسلام قرآن اپنی حقیقی شکل میں نافذ ہوں
دین کاروباری ہستیوں کے ہاتھوں سے نکل کر علمائے کرام کے پاس آئے
رحمت برکت عافیت اور سکینت کا اہتمام جبھی ہو سکتا ہے
آئیے حکومت وقت سے مطالبہ کریں کہ
موقعہ جشن میلاد کا ہو یا کوئی اور دینی پروگرامز دینی مستند ہستیاں ہی کریں
نور کی چمک رسول ﷺ کے ذکر کی ہونی چاہیے نہ کہ شو بز کے مہنگے نام اپنے نام چمکائیں
اللہ تعالیٰ ہم سب سے اپنے دین کی سنجیدہ مبارک اپنی پسند کی خدمت لے لے آمین
لوح بھی تو قلم بھی تو
تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ
تیرے محیط میں حباب

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر