مودی مخالف کشمیری سیاسی جماعتوں کا اتحاد الیکشن میں کامیاب

Narendra Modi

Narendra Modi

کشمیر (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سیاسی پارٹیوں کے اُس تحاد نے مقامی انتخابات میں کامیابی حاصل کر لی ہے، جو بھارت نواز تو ہے لیکن مودی حکومت کی کشمیر پالیسیوں کا مخالف ہے۔

مودی حکومت کی جانب سے بھارتی زیر انتظام جموں و کشمیر کی سن 2019 میں خصوصی دستوری حیثیت ختم کرنے کے بعد پہلی مرتبہ ‘ضلعی ترقیاتی انتخابات‘ کروائے گئے ہیں۔ یہ انتخابات آٹھ مرحلوں میں مکمل کیے گئے۔ اس انتخابی عمل کا آغاز رواں برس اٹھائیس نومبر کو ہوا اور اختتام انیس دسمبر کو۔ نئی انتظامی صورت حال میں مقامی الیکشن دو سو اسی حلقوں میں کروائے گئے۔کشمیر: انتخابی نتائج سے قبل متعدد رہنماؤں کی گرفتاریاں

بھارت نواز سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے ایک سو بارہ نشستیں جیتی ہیں۔ بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس کو صرف چھبیس سیٹیں ملی ہیں۔ دوسری پوزیشن نریندر مودی کی ہندو نواز سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو ملی۔

انتخابات کے بعد ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے پر کمیشن نے بتایا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی قوم پرست ہندو سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو چوہتر حلقوں میں کامیابی ملی ہے۔ آزاد امیدواروں کی تعداد انچاس بتائی گئی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ مسلم اکثریتی وادئ کشمیر میں بھارتیہ جنتا پارٹی ایک غیر مقبول جماعت ہے۔

ہندو نواز سیاسی جماعت کو زیادہ تر نشستیں ہندو اکثریتی آبادی کے علاقے جموں سے ملی ہیں۔ ہندو قوم پرست جماعت کے ایک مسلمان رہنما شاہنواز حسین نے اس انتخابی عمل کو ایک نئی شروعات سے تعبیر کیا ہے۔ دوسری جانب بھارت کی حامی سیاسی جماعتوں کے اتحاد کو ایک سو بارہ سیٹیں حاصل ہوئی ہیں یہ اتحاد مودی حکومت کی گزشتہ برس متعارف کرائی جانے والی دستوری اصلاحات کا مخالف ہے اور کشمیر کی سابقہ حیثیت کا حامی ہے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق جموں و کشمیر میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد چھ ملین ہے اور حقِ رائے دہی استعمال کرنے والوں کا ٹرن آؤٹ اکاون فیصد رہا۔ الیکشن کمیشن نے اتنی بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کو ‘جمہوریت کا جشن‘ قرار دیا۔ کمیشن کے مطابق چند حلقوں کے ووٹوں کی گنتی ابھی مکمل نہیں ہوئی اور ان کے نتائج بھی گنتی پوری ہونے پر عام کر دیے جائیں گے۔

اس انتخابی عمل میں ہر حلقے یا علاقے کے لوگوں کو اپنا نمائندہ چننے کے لیے براہِ راست ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا تھا۔ ‘ڈسٹرکٹ ڈیویلپمنٹ‘ کونسلیں صرف اقتصادی فلاحی منصوبوں کی ذمہ دار ہوں گی اور ان کے اراکین کے پاس قانون سازی کے اختیارات نہیں ہیں۔