محسن علی قریشی کہاں ہے؟

 Holy Quran

Holy Quran

قران پاک کے سپارہ نمبر 7 سورہ الانعام کی ایت نمبر 17 اور سورہ القمر کی ایت نمبر 10 پارہ نمبر 27 کا مفہوم بیماریوں اور شفا کے گرد گھومتا ہے۔ احادیث کرام میں ان ایات کی تفسیر یوں بیان کی گئی ہے کہ کائنات میں قادر مطلق ہی ایسی ہستی ہے جو ہر موزی مرض کی شفا کا ملکہ رکھتا ہے۔ قران پاک میں تمام بیماریوں کی خاطر روحانی علاج کی ہر تدبیر موجود ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ ہم ایک طرف مسلمان ہونے کے باوجود روایات اسلام فرامین خدا سے غافل ہو چکے ہیں تو وہاں دوسری طرف ہم روحانی علاج کی شد بد اور حدود سے اشنائی تک نہیں رکھتے۔

روحانی علاج اور مندرجہ بالہ ایات نے ہمارے عقل و خرد میں اس وقت خطرے کی لال گھنٹی بج اٹھی جب کوٹ ادو سے تعلق رکھنے والی ایک نابغہ روز گار ہستی کی پانچ سالہ علالت کی المناک خبر موصول ہوئی۔ قریشی خاندان کے باکمال متحرک باکردار و باگفتار نوجوان سیاسی مہاراج ،غریب و سفید پوش طبقات کی نمائندگی کرکے جاگیرداریت کے خونخوار سیاسی گوریلوں کو تخت و تاراج کرنے کا ریکارڈ قائم کرنے والے محسن علی قریشی نے کوٹ ادو سے دو مرتبہ 2002 اور 2008 میں مصطفی کھر اور ہنجرا گروپ کو na 176 سے ہرا کر سیاسی پنڈتوں کے ہوش اڑا دئیے۔ مخلوق خدا کی دعاوں اور حمایت کے کارن ہی محسن قریشی نے وڈیروں کو شکست دیکر انہیں دانتوں تلے انگلی دبانے پر مجبور کر دیا۔ محسن قریشی پی پی پی ضلع مظفرگڑھ کا اج تک صدر ہے۔

یہی وہ دیدہ ور سرتاپا وفا رہنما ہے جسکی قیادت میں جیالوں نے 2008 میں ضلع مظفر گڑھ سے قومی پارلیمان کی کل پانچ میں سے پانچوں نشستوں پر کلین سوئیپ کر کے قومی ریکارڈ قائم کیا اور یہ ریکارڈ پی پی پی ہسٹری کے لاثانی قربانیاں دینے والے جیالوں اور جانثار رہنماوں کے ابواب میں ہمیشہ مسکراتا رہے گا۔شکسپیر نے درست کہا تھا کہ عظیم لوگ تاریخ بناتے ہیں اور تاریخ دیوقامت رہنما بناتی ہے۔

Election

Election

بڑے لوگ نہ ہوتے تو اج تاریخ نہ ہوتی۔ پی پی پی اور جمہوریت کی خاطر اپنا تن من دھن وار دینے والا تاریخ ساز رہنما محسن قریشی پچھلے پانچ سالوں سے کوٹ ادو سے غائب ہے۔ کوٹ ادو کے لاکھوں لوگ اسکی عدم موجودگی میں سوگوار ہیں۔ دو مرتبہ ممبر قومی اسمبلی منتخب ہونے والے محسن علی قریشی کی غیر حاظری میں 2013 کے جنرل الیکشن میں پی پی پی کی دم ایسے اکھڑی کہ وہ ساری نشستوں پر کلین سوئیپ ہوگئی۔ جنوبی پنجاب میں مظفرگڑھ کو لاڑکانہ کہا جاتا ہے اور یہ لقب پی پی پی کی شہید ملکہ عالم بنظیر بھٹو نے خود دیا تھا۔ لوئر پنجاب کے لاڑکانے میں ماضی قریب کے قومی الیکشن میں پی پی پی کے طرم خان لیڈرز اور سارے پی پی پی رہنما ایک نشست تک نہ جیت سکے۔

ضمنی الیکشن میں نورربانی کھر نے پی پی کے ٹکٹ پر ایم این اے شپ جیتی یوں مظفر گڑھ کے زیرو اکاوئنٹ میں صفر کی جگہ ایک جمع ہو گیا۔ عوام اور جیالے اکثر راقم الحروف سے محسن قریشی کی بابت معلوم کرتے رہتے ہیں۔ ہم انہیں جوٹھی طفل تسلیاں دیکر رخصت کرتے رہے ہیں کہ دعا کرو اللہ تعالی سب کچھ ٹھیک کردیگا مگر اج میرا ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔ سچائی مصلحت اور ٹرکاو پالیسی پر چھا گئی میری قلم اور زبان نے حقیقت منکشف کردی۔ میں گویا ہوا کہ لاکھوں دلوں پر حکمرانی کرنے والے سابق ممبر قومی اسمبلی محسن علی قریشی کو ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے کی خاطر پمز ہسپتال کے ایک کمرہ میں قید کردیا گیا ہے جہاں وہ اپنی زندگی کے دن پورے کر رہا ہے۔

وہ ایک نوکر اور ایک میل نرس کے رحم و کرم پر ہے۔ 2008 صدر زرداری کو پانچ نشستوں کا تحفہ دینے والے محسن قریشی کو اب تو پی پی پی اسکے ہیوی ویٹ لیڈر پچھلی اور موجودہ پارلیمان و سینیٹ ممبران نے نہ صرف فراموش کردیا ہے بلکہ قرائن سے تو یہ سچائی سامنے اجاتی ہے کہ وہ محسن علی قریشی کا نام تک بھول چکے ہیں۔ قحط الرجال کے اس دور میں اللہ کے بندے خال خال ہی پیدا ہوتے ہیں یہ لیڈر مظلوم و یتیم طبقات کی داد رسی کی خاطر اپنی خوشیاں اور مال و متاع تک لٹا دیتے ہیں۔ دوسروں کے زخموں کا اندمال انکی زندگی کا مشن بن جاتا ہے۔

National Assembly

National Assembly

اللہ کے ان بندوں میں ایک نام محسن علی قریشی کا بھی ہے جو عمر بھر سیاست کو منافقت کی بجائے شیوہ پیغمبری سمجھ کر نبھاتا رہا۔سابق ممبر قومی اسمبلی محسن علی قریشی کا تعلق شیخ عمر کے القریش خاندان سے ہے جنکی جاگیروں میں گھوڑوں کی بجائے ایف سولہ کو بھی دوڑایا جائے تو سورج غروب ہو جائیگا جاگیریں ختم نہیں ہونگی۔ میاں غلام عباس قریشی سابق ممبر ضلع کونسل مظفرگڑھ سابق ایم این اے اور بھٹو دور میں سینیٹر رہ چکے ہیں۔ میاں محبوب قریشی اور میاں مقبول قریشی جنکے درختوں پر بھی دولت اگتی ہے یہ تینوں لینڈ لارڈز محسن علی قریشی کے چچا ہیں مگر المیہ تو یہ ہے کہ منہ میں سونے کا چمچہ رکھنے والہ قریش خاندان بھی محسن علی قریشی کو خدا حافظ کہہ چکا ہے۔ اگر قریشی فیملی کے خون میں بے حسی کی بجائے خود حمیتی کا تھوڑا سا قطرہ بھی پایا جاتا تو وہ محسن قریشی کو روز اول یورپ لیجاتے تو القریش فیملی کا واحد درویش منش اور پرہیزگار چشم و چراغ اج ہم میں موجود ہوتا۔ ان بخیلوں نے ایک روپیہ تک خرچ نہ کیا۔

محسن علی قریشی کی اہلیہ موجودہ سینیٹ کی ممبر ہیں جو اجکل اسلام اباد میں سیٹل ہیں۔ محسن علی قریشی کا سیاسی جانشین بیٹا ڈاکٹر شبیر علی اپنی الگ رائے رکھتا ہے۔ وہ پمز کے علاج کو درست سمجھتا ہے مگر ڈاکٹروں کا ایک پینل لندن اسٹریلیا اور امریکہ کے ہسپتالوں کو اولیت دیتا ہے۔ محسن علی قریشی دوسری مرتبہ ایم این اے بنا تو ایک سال بعد 23 فروری 2009 میں عوامی مصروفیات پے درپے اسمبلی اجلاسوں اور دن رات حلقہ کی سوختہ بخت اور غریب کیمیونٹی کی دست گیری کے جنون کے دباو نے برین ہیمرج کو دعوت دی جس سے ماتھے کی ایک رگ لیک ہو گئی اور اس میں سے خون کے قطرے ٹپکنے لگے تاہم محسن قریشی باقائمی ہوش و و ہواس میں تھے جونہی میڈیا نے بریکنگ نیوز چلائی تو کوٹ ادو چوک منڈا سناواں دائرہ میں کہرام برپا ہوگیا۔ محسن قریشی ماتم کنائی کرنے والے ورکرز دوستوں اور عوام کی ڈھارس بندھا رہا تھا۔ وہ ایک ماہ پمز میں زیر علاج رہے وہاں سے اغا خان کے سپرد ہوئے۔

اغا ہسپتال میں لندن کے وکٹوریہ ہسپتال سے بلوائے گئے ڈاکٹر اطہر نے انکا علاج شروع کیا مگر ادویات سے شریان کی لیکنگ بند نہ ہوئی تو اغا خان ایڈمنسٹریشن نے مائنر اپریشن تجویز کیا۔ محسن قریشی ہوش و حواس میں تھے۔ وہ خود راضی تھے مگر فیملی کے دو افراد نے لندن لے جانے کی ضد کی ڈاکٹرز نے ان ناعاقبت اندیشوں کو سمجھایا بجھایا کہ مریض لندن جانے کے قابل نہیں۔ عقل کے ان اندھے اور گانٹھ کے پوروں نے ڈاکٹروں کی تجویز کے برعکس اپنی انا و ہٹ دھرمی قائم رکھی۔ ڈاکٹروں نے ہار مان لی مگر انکی کی گئی پیشین گوئی کے عین مطابق دو چار گھنٹوں کے بعد لیک ہونے والی رگ پھٹ گئی۔ برین ہیمبرج نے لاکھوں مزدوروں کسانوں ریڑھی بانوں کے دلوں کے شہنشاہ محسن علی کو کومے کی نذر کردیا۔ محسن علی قریشی 2009 سے پمز ہسپتال کا قیدی بنا ہوا ہے۔ ابتدا میں پی پی پی حکومت نے کچھ دنوں تک تو خوب عیادت کی مگر المیہ تو یہ ہے کہ جونہی محسن قریشی کا کومہ شروع ہوا پی پی پی سرکار پارٹی قیادت قریشی فیملی دنیاوی بھول بھلیوں میں کھو گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ محسن قریشی کو فوری طور پر یورپ بھجوادیا جاتا مگر اے بسا ارزو کہ خاک شد کے مترادف پی پی پی کا نڈر جرنیل پمز میں پابند سلاسل ہے۔

زرداری صاحب ایوان صدر سے رخصت ہوچکے مگر اللہ نے پارٹی چیرمین کو اتنی ہمت و توفیق نہیں دی کہ وہ اپنے ضلعی صدر کی عیادت کرسکیں۔ محسن قریشی کے ساتھ ناروا سلوک کیا جارہا ہے۔ رب العالمین نے ہی علاج کو ضروری قرار دیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ محسن قریشی کو باہر شفٹ کرنے سے کوئی معجزہ رونما ہوجائے۔ محسن قریشی کے ساتھ برتا جانیوالا اغماض ہی کوٹ ادو میں پی پی پی ٹکٹ ہولڈرز کی ضمانتیں ضبط ہونے کا بنیادی سبب ہے۔ ضلع مظفرگڑھ کے لاکھوں بے اسرا لوگ نواز برادران سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر ایک طرف محسن قریشی کو پمز کی قید سے نجات دلوائیں اور دوسری جانب علیل رہنما کو امریکہ یا یورپ بھجوا کر پارلیمان کے وقار میں اضافہ کریں محسن علی قریشی کی اہلیہ سینیٹر خالدہ محسن علی قریشی سینیٹ میں اپنے مجازی خدا کو باہر بھجوانے کی قرارداد منظور کروائیں ورنہ غفلت برتنے والوں کا انجام بھی وہی ہو گا جو مئی کے الیکشن میں پی پی پی کے ٹکٹ ہولڈرز کا ہوا تھا۔ محسن علی قریشی کے قریبی ساتھی ورکرز اور گروپ وقتی طور پر بکھر چکا ہے۔ انکے سیاسی جانشین فرزند اسلام اباد میں پناہ گزین ہے۔ شبیر علی قریشی عوامی توقعات پر پورا نہیں اتر سکا۔ محسن قریشی کا ایک فرزند احسن علی قریشی والد ایسی جلیل القدر صلاحیات سے مالا مال ہے۔ اسکا سیاسی شعور قابل دید ملنساری قابل داد فراست باعث تعریف و تحسین ہے مگر ابھی وہ کم عمر ہے۔ شبیر قریشی اور سینیٹر خالدہ محسن قریشی سے سیاسی اختلاف رائے کیا جا سکتا ہے تاہم محسن علی قریشی کا دور مثالی تھا۔گو محسن علی قریشی گروپ بکھر چکا ہے مگر محسن علی قریشی کی عقیدت و محبت لاکھوں دلوں میں گیت گاتی رہے گی۔

Aulfqar Ali Bhutto

Aulfqar Ali Bhutto

زیڈ اے بھٹو نے شائد پھانسی سے ایک روز پہلے نصرت بھٹو اور دختر مشرق سے اخری ملاقات میں یہ جملہ محسن علی قریشی کی خاطر سنایا ہوگا۔ بھٹو نے کہا خلق خدا گائے گی گیت میرے۔ محسن قریشی کے گھرانے میں دوبارہ ایم این اے شپ ائے یا نہ ائے اسکا فیصلہ تو رب العالمین نے کرنا ہے تاہم یہ حقیقت طئے ہے کہ ضلع مظفرگڑھ کے لوگ محسن علی قریشی کی الفت و یگانگت عقیدت و فراست کے گیت گاتے رہیں گے۔ بحرف اخر پوری پاکستانی قوم سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ محولہ بالہ ایات کے تناظر میں عظیم و انیق سیاسی شہسوار محسن علی قریشی کے لئے دعا کرے کہ رب العالمین اسے شفائے کاملہ عطا کرے۔

تحریر : روف عامر پپا بریار