مچھر

Mosquito

Mosquito

آج کل پوش علاقوں میں نہیں، صرف عام عوام کی بستیوں میں مچھروں کی یلغار ہے ،جس سے مچھر مار لوشن، اورمیٹ بنانے والوں کا کارو و بار عروج پر ہے چند برس قبل ساختہ جاپانی کنگ میٹ جِسے رات روشن بلب پر رکھ دیا جاتا ،اُس کی خوش بو ہی سے رات سکون سے سولیتے تب تو بجلی کا بھی مسلہ نہیں تھا پنکھا لگا کر بھی مچھر کے حملوں سے محفوظ رہتے۔مگر موجودہ جمہوری عہد میں بجلی کا کوئی اتہ پتہ نہیں کہ گرڈ میں کب سوچ آف کر دیا جائے گا اور پھر کب آن ہوگا۔

کہ پنکھے کے زریعہ مچھروں کے حملوں سے بچا جائے ،اور اب وہ کنگ میٹ تو دستیاب نہیں اور نہ ہی اب بلب جلائے جاتے ہیں اب ” کنگ مو س کوائل مارکیٹ لائے گئے ہیں ، مچھر سے بچنے کے لئے رات کو کنگ کوائیل لگایا جا تا ہے مگر مچھر اِس مصنوعی کنگ کوئل کی خوشبو سے غضبناک ہوکر لشکر کی صورت میں حملہ آور ہوتے ہیں … رات مچھر نے میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا،جناب یہ جاپانی تکنیک سے تیار نہیں جو ہماری موت کا سبب بنتا۔

ہم خوف زدہ ہوکر بھاگ جاتے ، بے شک اس پر تمہیں بے وقف بنانے کے لئے لکھا گیا ہے جاپانی تکنیک کے مطابق،جو سفید جھوٹ ہے یہ ساختہ پاکستاں ہے جہاں جھوٹ ہی جھوٹ ہے اور ملاوٹ ہی ملاوٹ ، دیکھیں اِس کی پیکننگ پر پتہ درج ،کوئی اگر تلاش کرنا چاہے تو یہ مل ہی نہیں سکتا یہ نامکمل پتہ ہے ساختہ بھاٹی گیٹ بھی ہو سکتا ہے،کیونکہ یہ ملاوٹ شدہ ہے ،پاکستان میں کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں جو ملاوٹ سے پاک خالص ہو ،یہاں تو فضا میں بھی ملاوٹ ہے خبریں آتی ہیں۔

گوشت مضر صحت پھر اس میں پانی کی ملاوٹ اگر مرغی کاگوشت خریدیں ،اور کچھ نہ سہی تمام آلائشیں ساتھ تول میںملتی. .. انسان خود خالص نہیں رہا پھر اس کی بنائی ہوئی اشیاء کب ملاوٹ سے مبرا ہوسکتی ہیں حتیٰ کہ زہر بھی ملاوٹ سے پاک نہیں ،کہ پاکستان میں خدا نہیں صرف اُس کے پاک نام کی گردان ضرور ہے اگر خدا ہوتا تو پھر اُس کا خوف بھی ہوتا ،جب خدا ہی نہیں تو پھر کسی کے دل میں خوف ِ خدا کیونکر ہوگا میں نے کہا یہ غلط ہے میں نے مظاہر میں خدا دیکھا ہے۔

اُس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا یہ بہت پرانی بات ہے جب تو نے دیکھا تھا ،اِس ‘تھا’ کو اُس نے لمبا کر کے کہا اگر خدا ہوتا تو آج یہ بم دھماکے ،خود کش حملے،فرقہ واریت کے پر تشدد واقعات جن میں ہزاروں معصوم عوام مارے جا چکے ہیں کیوں؟ کہ ملک میں خوف ِ خدا نہیں اِسلئے کہ یہاں،خدا نہیں صرف نام کی گردان ضرور ۔،زرہ غور کریں مسجد جو خانہ خدا ہے جب کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ خانہ خدا ہے وہ یہاں موجود ہے جب سجدہ ریز ہوتے تو وہاں بم دھماکہ ہوتا ہے۔

Blast

Blast

کل کی بات ہے دو مساجد میں دھماکے ہوئے ٢٠ جاں بحق اور ١٢٠ ،زخمی ، تو کیا خیال یہاں خدا ہے ہر گز نہیں مصنوعی پرستاروں نے اپنے خالق و مالک کون و مکاں کو ملک سے نکال دیا ہے ،یہ کہا جاتا ہے کہ دشت گرد اغیر ملکی ہیں ،لیکن یاد رہے جب تک انہیں یہاں سے سپورٹ نہ ملے کچھ نہیں کر سکتے ۔ یاد رکھئے لوہے کی کلہاڑی اُس وقت تک لکڑی نہیں کاٹ سکتی جب تک اُس میں لکڑی کا دستہ نہ دیا جائے علامہڈاکٹر اقبال ، نے صدی قبل آج کے حالات پر کیا تبصرہ کیا۔

ارمغانِ حجاز میں نظم ابلیس کی مجلس شوریٰ میں ،ابلیس اپنی شوریٰ سے مخاطب ہے
ع؛جانتا ہوں میںیہ اُمٹ حاملِ قُرآں نہیں۔ہے وہی سرمایہ داری بندئہ مومن کا دیں:یہ خطہ جودیں کا گہوارہ تھااب ان کو قرآں سے دور کا بھی تعلق نہیں رہا اب ان لوگوں کا دین اور ایمان صرف پیسہ ہے اب سرمایہ داری ہی بندئہ مومن کا دین بن چکی ہے..، خصوصاًوارثان ِ ممبر رسولۖ دینی راہنما،خوف زدہ کیوں ؟اور کس سے ؟وہ بھی زاتی محاظوں کے بغیر نکل نہیں سکتے۔

کس تعلیم کااثرہے کہ قومی رہنماہوں یادین کے علمبردار،ہر وقت موت کے خوف کے سائے میں کیوںاور یہ اِس لئے کہ خدا یہاں نہیں؛مچھر کے ان دلائل میں وزن تھا میرے پاس خاموشی،اور میری طرف غور سے دیکھا کہ میرے پاس کوئی جواب نہیں،تو پھر بولا !ع؛ میں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیّت کا خواب،میں نے توڑامسجد و دَیر و کلیسا کا فسوں۔ ، اب یہ صرف یورپ ہی میں کلیسا سے وابستگی کا جنون و فسوں اُس نے نہیں توڑا کہ وہاںیہ عمارتیں مکیں سے خالی ہیں۔

بلکہ پاکستان میں بھی مسجد کا فسوںو جنون توڑ دیا ہے ، اِس وقت دنیا میں کیا ہو رہا کون کر رہا ، ع؛ہے مرے دستِ تصرف میں جہانِ رنگ و بو ؛!کیا زمین،کیا مہر و ماہ ،کیا آسمانِ تُو بتُو دیکھ لیں گے اپنی آنکھوںسے تماشا غرب و شرق ؛! میں نے جب گرما دیا اقوام یورپ کا لہو (صرف تین برس بعد دنیانے یہ تماشا دیکھا کیا اما مانِ سیاست،کیا کلیسا کے شیوخ ؛!سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہُوغور کریں پون صدی پہلے اقبال آج کے حالات پر کیا نبوت کر رہے ہیں۔

جو کچھ ان اشعار میں بیان کیا آج کسی تبصرے کے حرف بہ حرف سچ ہو رہا ہے ،ابلیس کہہ رہا ہے کہ دنیا کے فرد وبشر ہی کیا چاند سورج اور ستارے تک میرے قبضئہِ قدرت میں ہیں جب چاہوں جو چاہوں دنیا میں کر سکتا ہوںمیری اک ہُو، دنیا کو پاگل بنانے کے لئے کافی مچھر نے کہا آج کے لئے اتنا سبق کافی کل پھر ملاقات ہوگی اور وہ بنسری بجاتا ہوأ اور میں سوچ رہا تھا اقبال نے جو کہا درست ہے، اِس وقت روئے زمین پر خُدا کیا۔

ابلیس کی مرضی بات کسی اور دنیا کی نہیں اپنی دنیا کی ہے ، اور اب یہاں کہیں بھی خدا کی مرضی نہیں کہ وہ تو یہاں موجود ہی نہیں تب ہی تو انسانوں کا خون چوسا جا رہا ہے ،دیانتداری (مگر یہ کہاں) سے اپنے گھر میں دیکھیں کیا خدا کی مرضی ہے ،غرض کہیں بھی نہیں ہر جگہ ابلیس کی مرضی جسے خدا کی مرضی کا لبادہ پہنا کر ، خود اور ابلیس کو بری الزمہ کر دیتے ہیں ،سب کچھ ہی خدا کیکھاتے میں ڈال دیتے ہیں کہ جو کچھ کر رہے یا ہو ریا ہے یہ سب خدا کی مرضی

Badar Sarhdi

Badar Sarhdi

تحریر: بدر سرحدی