حکومتی بوکھلاہٹ

Dr Tahir-ul-Qadri

Dr Tahir-ul-Qadri

عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے23جون کو اسلام آباد ایر پورٹ پر اترنے کا اعلان کر رکھا ہے،اس اعلان سے قبل مسلم لیگ(ق) کے رہنمائوں چوہدری شجاعت و چوہدری پرویز الہی نے طاہر القادری سے ملاقاتیں کیں، جس میں موجودہ حکومت کے خاتمے کے لئے تحریک چلانے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ،عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے ٹرین مارچ کا اعلان کر رکھا تھا ،جو اب ملتوی ہو گیا ہے ،تحریک انصاف بھی حکومت مخالف تحریک کا حصہ بننے کے لئے تیار تھی،ادھر دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج نے شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کر دیا کراچی ایر پورٹ پر حملے کے بعد آپریشن ہی حل تھا اسکے سوا کوئی راستہ باقی نہیں بچا تھا کیونکہ مذاکرات کے نام پر دہشت گردوں نے کاروائیاں بھی جاری رکھیں اور پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچایا ،ایسے حالات میں جب وطن عزیز مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔

پنجاب پولیس نے لاہور میں جو”کارنامہ” سرانجام دیا اسے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت سخت دبائو میں اور بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائشگاہ اور منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کے معاملے پر پولیس اور عوامی تحریک کے کارکنوں میں خونیں تصادم کے نتیجے میں دو خواتین سمیت 8 افراد جاں بحق جبکہ پولیس اہلکاروں اور خواتین سمیت 97 سے زائد افراد زخمی ہو گئے، کارکنوں نے شدید مزاحمت کرتے ہوئے پولیس کو کئی گھنٹوں تک رکاوٹیں ہٹانے سے روکے رکھا تاہم پولیس 15گھنٹے بعد منہاج القرآن سیکرٹریٹ میں داخل ہوگئی۔ پولیس کی طرف سے مظاہرین پر لاٹھی چارج’ ہوائی فائرنگ اور آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی۔

جبکہ مظاہرین اور پولیس کے درمیان پتھرائو کا شدید تبادلہ ہوا جس سے ایس پی ہیڈ کوارٹر معروف صفدر واہلہ اور ایک ڈی ایس پی سمیت کئی پولیس اہلکار اور راہگیر زخمی ہوئے۔ پولیس نے کئی کارکنوں کو حراست میں لے کر تھانے منتقل کر دیا، پولیس اور کارکنوں میں تصادم کے باعث ماڈل ٹائون میدان جنگ بنا رہا اور رہائشی گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے۔ پولیس نے بھاری مشینری کے ہمراہ رات کے اندھیرے میں لاہور کے علاقے ماڈل ٹائون میں عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائشگاہ اور منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کے لئے آپریشن کی کوشش کی تو عوامی تحریک کے کارکنوں کی بڑی تعداد نے شدید مزاحمت کی۔

پولیس اور سیکرٹریٹ منتظمین کے درمیان مذاکرات ہوئے لیکن ناکامی کے بعد پولیس اور عوامی تحریک کے کارکنوں کے درمیان تصادم ہو گیا۔ پولیس آپریشن کی اطلاع ملنے پر گھروں میں موجود عوامی تحریک کے کارکن اور منہاج القرآن کے تعلیمی اداروں سے وابستہ طالب علموں کی بڑی تعداد بھی مرکزی سیکرٹریٹ کے باہر پہنچ گئی جس میں خواتین بھی شامل تھیں جنہوں نے پولیس کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ پولیس اور کارکنوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہا۔

عینی شاہدین کے مطابق پولیس اور کارکنوں کے درمیان جھڑپوں کے دوران ایک دوسرے پر تشدد کے کئی مناظر دیکھنے میں آئے۔ پولیس اہلکار ہتھے چڑھ جانے والے کارکنوں کوتشدد کا نشانہ بناتے رہے تو کارکنوں نے بھی اہلکاروں کو نشانہ بنایا۔ تمام زخمیوں کو طبی امداد کے لئے ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ پولیس نے بکتر بند گاڑی کے ذریعے بھی کارکنوں کو منتشر کرنے کی کوشش کی لیکن کارکن بکتربند گاڑی پر بھی پتھرائو اور ڈنڈے برساتے رہے۔ مشتعل کارکنوں کے کنٹرول نہ ہونے پر پولیس افسر مزید نفری اور ایلیٹ فورس کے اہلکاروں کے ہمراہ ماڈل ٹائون پہنچ گئے۔

واقعہ کے خلاف ملک بھر میں واقعہ کے خلاف مظاہرے کئے گئے۔۔ رانا مشہود نے کہا کہ عوامی شکایات پر رکاوٹیں ہٹانے کے لئے معمول کا آپریشن کیا گیا لیکن پولیس پر فائرنگ کی گئی اور پولیس نے اپنے دفاع میں فائرنگ کی۔ کسی کو ریاست کے اندر ریاست بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ترجمان تحریک انصاف قاضی فیض کے مطابق پولیس نے کارکنوں پر سیدھی گولیاں چلائیں۔ ترجمان منہاج القرآن کا کہنا ہے کہ ہمیں جوڈیشل کمشن منظور نہیں ہے، شہداء کا قصاص لیں گے۔

آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا نے منہاج القرآن اور پولیس کے درمیان تصادم اور ہونے والے ناخوشگوار واقعہ پر تین سینئر پولیس افسران پر مشتمل انکوائری کمیٹی مقرر کردی ہے جو پولیس اہلکاروں کے حوالے سے قانون ہاتھ میں لینے اور فائرنگ سمیت دیگر تشدد کے واقعات پر تحقیقات کرے گی۔ پولیس پر مظاہرین کی جانب سے پٹرول بم پھینکے گئے اور فائرنگ بھی کی گئی جس سے پچیس سے تیس پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ آئی جی کا کہنا تھا کہ قیمتی جانوں کے ضیاع پر پنجاب پولیس گہرے دکھ کا اظہار کرتی ہے اور دعائے مغفرت کرتی ہے، پولیس کا کام عوام کے جان ومال کی حفاظت کرنا ہے۔

آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ وہ انکوائری کے لئے پہلے پولیس افسران کو خود پیش کرتے ہیں انکوائری ہوگی جو اہلکار ذمہ دار ہوں گے ان کیخلاف کارروائی کی جائے گی۔ فیصل ٹائون پولیس نے سانحہ ماڈل ٹائون کا ہلاک ہونے والوں کے ورثاء کی بجائے سرکار کی مدعیت میں مقدمہ نمبر 510/14 بجرم 353/324/ 302/148/ 149 ت پ اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ سیون اے ٹی اے کے تحت درج کر لیا ہے۔ آئی جی پنجاب مشتاق احمد سکھیرا نے کہا ہے کہ ایک واقعہ کا صرف ایک مقدمہ درج ہو سکتا ہے۔ ہلاک ہونے والوں کے ورثاء یا دوسرا فریق جو موقف دے گا اسے ریکارڈ کا حصہ بنائیں گے۔ آنسو گیس کی شیلنگ کے باعث لوگ آنکھوں پر گیلا کپڑا رکھتے اور پانی ڈالتے رہے۔ آئی جی پنجاب پولیس مشتاق احمد سکھیرا سانحہ ماڈل ٹائون کے حوالے سے پریس کانفرنس میں صحافیوں کے سوالات کا جواب دینے کی بجائے اٹھ کر چلے گئے۔ سانحہ ماڈل ٹائون پر سی سی پی او لاہور چودھری شفیق احمد اور قائم مقام ڈی آئی جی آپریشنز رانا عبدالجبار کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔

Shahbaz Sharif

Shahbaz Sharif

وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے احکامات پر چودھری شفیق احمد اور رانا عبدالجبار کو او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔ پولیس انکوائری کمیٹی کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی سرمد سعید جبکہ دو ممبران ڈی آئی جی ٹیلی علی عامر ملک اور ڈی آئی جی فنانس حبیب امتیاز شامل ہیں۔ ایس پی ماڈل ٹائون طارق عزیز کو بھی او ایس ڈی بنایا گیا ہے۔ طاہر القادری نے کہا ہے کہ پولیس کی مدعیت میں کسی ایف آئی آر اور انکوائری کمیٹی کو تسلیم نہیں کرتے، کارکنوں کی شہادت کے بدلے حکومت کا جانا ٹھہر چکا، مجھے ماردیا جائے یا نظر بند، ہر صورت 23جون کو پاکستان آئوں گا، شہادت کو چوم کر سینے سے لگا لوں گا،پولیس نے میرے گھر کے دروازوں پر فائرنگ کیوں کی، حکمران انقلاب کو نہیں روک سکتے، انقلاب کا آغاز ہو چکا ہے، ہمارے گارڈز کے پاس بھی لائسنسی اسلحہ تھا۔

اگر وہ چاہتے توپولیس کو نشانہ بنا سکتے تھے، لیکن ہم نے صبر اور تحمل سے کام لیا۔ ہم نے اچھے مقاصد کیلئے فوج کی حمایت کی ہے جس کی ہمیں سزا دی جارہی ہے۔ جہاں تک بیرئیر لگانے کا تعلق ہے تو یہ لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر لگائے گئے اور اسوقت کے پولیس افسران خود یہاں آکر یہ بیرئیر لگواتے رہے، اگر یہ بیرئیر غلط تھے تو چار برس سے پنجاب کے حکمرانوں کو کیوں نظر نہیں آئے اور یہاں پر مسلم لیگ (ن) کی ہی حکومت رہی ہے لیکن اصل مسئلہ بیرئیر نہیں بلکہ وہ انقلاب ہے۔ کارکنوں کی شہادت کا مقدمہ وزیر اعظم نواز شریف’ وزیر اعلیٰ شہباز شریف’ وفاقی وزراء چوہدری نثار ‘ خواجہ آصف’ خواجہ سعد رفیق’ پرویز رشید ‘ عابد شیر علی’ وزیر قانون رانا ثنا اللہ ‘ آئی جی ‘ ڈی آئی جی اور ایس پی اور متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کیخلاف درج کرائیں گے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر السلام کو خط لکھ دیا جس میں کہا گیا ہے۔

اگر مجھے یا میرے خاندان کو کچھ ہوا تو ذمہ دارن شریف برادران اور مسلم لیگ (ن) کے وفاقی وزراء ہونگے۔ طاہر القادری نے مزید کہا کہ وہ جوڈیشل کمیشن کو مسترد کرتے ہیں، حکمران جو چاہیں کرلیں ہر چیز کیلئے تیار ہوں۔ ظالموں کی حکومت کا خاتمہ کروں گا حکومت جو چاہے کرلے ہر چیز کیلئے تیار ہوں۔

Mumtaz Awan

Mumtaz Awan

تحریر:ممتاز اعوان
برائے رابطہ:03215473472