حکومت بوکھلاہٹ کا شکار

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

بالآخر شریف حکومت نے آخری پتہ کھیل کر اپنی بوکھلاہٹ کا ثبوت پیش کر دیا ہے۔ ادھر پنجاب پولیس نے حکومتی اشارے (Order ) پر پاکستان تحریک انصاف اور تحریک منہاج القرآن کے کارکنوں کی بلا جواز گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ لاہور میں منہاج القرآن کے کارکنوں پر حکومتی پالتو کتوں کا تشدد ریاستی غنڈہ گردی ہے۔شاہرائیں بند کرنے۔ روکاوٹیں کھڑی کرنے۔ آرمی طلب کرنے۔ ڈبل سواری پر پابندیاں لگانے اور پیٹرول کی بندش کرنے اور کارکن گرفتار کرنے سے انقلاب کبھی نہیں رکتے۔

میاں نواز شریف خود اس مرحلے سے گزرچکے ہیں۔ ادھر عمران خان نے کہ دیا ہے کہ 14 اگست کے بعد اس وقت واپس آئیں گے جب جھرلو حکومت کا خاتمہ ہو گا اور ہمارے انقلاب سے تبدیلی آئے گی اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے بھی آزادی مارچ میں شمولیت کا اعلان کر کے تحریک انصاف کی حمایت کر دی ہے جھرلو سے اقتدار میں آنے والی (ن) لیگ کی حکومت صرف اور صرف تھانے اور کچہری کی سیاست کر رہی ہیں۔ اس نے جمہوریت کے بارے میں کوئی احسن اقدام نہیں اٹھایا اور نہ ہی ملک کے لیے۔۔

پاکستان کا قیام مسلمانان برصغیر کی مسلسل جدوجہد اور عظیم قربانیوں کا حاصل ہے یہ قائداعظم کی پر عزم اور دانشمندانہ قیادت کا نتیجہ تھا کہ مسلمانان برصغیر کا علیحدہ وطن قائم ہوا اس طرح مسلمانوں کے علیحدہ قومی تشخص کی ضمانت مل گئی اور ان کی آنیوالی نسلوں کا مستقبل محفوظ ہو گیا ۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے ایک موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اپنی زندگیوںکو اسلام کی تعلیمات کے مطابق ڈھال سکیں اور ایسا معاشرتی ، سیاسی اور اقتصادی اور اسلامی نظام قائم کریں جو پاکستان کو صیح معنوں میں ایک جمہوری اسلامی ریاست بنا دے۔ اور مسلمان علیحدہ رہ کر اپنی زندگی اسلام کے زریں اصولوں کے مطابق گزار سکیں۔

جہاں امن و امان کی فضا برقرار ہو ، جہاں بھائی چارہ ہو، جہاں سب ایک دوسرے کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہوںاور پوری قوم ایک جسد واحد کی طرح ہو جنکی خوشیاں سانجھی اور غم ایک ہو ۔ ہمارے ملک میں سرکاری اور نجی اداروں میں 67ویں سالگرہ کی تقریبات منائی جا رہی ہیں۔ ان 67 سالوں میں ہو سکتا ہے کہ ہم نے بہت ترقی کی ہو ہم ایٹمی طاقت بن گئے اور خود کو اسلام کا قلع بھی سمجھنے لگے لیکن جمہور کو کیا ملا محرومیاں، ناکامیاں، صدمات، دکھ درد، ملک کے ایک بازو کا کٹ جانا اور جو باقی ہے اس کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے جو قومیں ترقی کرتی ہیںوہ اپنی ناکامیوں سے سبق سیکھتی ہیں اور اس میں سے کامیابی کی راہیں ڈھونڈتی ہیں ہم ہیں کہ ناکامی در ناکامی اور ناکامی کا سبق دہرانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ اور اس دوڑ کے نتیجہ میں ہماری آنکھیں اشک بار اور دل نگار ہے مگر افسوس کہ ہم اب تک سمبھل نہیں پائے۔
بقول شاعر
وائے ناکامی کہ متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

اس احساس زیاں کے چلے جانے سے ہم ایک ایسی سمت جا رہے ہیں جو ہمیں کبھی بھی منزل مقصود تک نہیں لے جا سکتی۔ موجودہ ملکی صورت حال پر جب بھی غور کیا تو مایوسی کی اتھاہ گہرائی میں خود کو ڈوبتا ہو ا محسوس کیا جمہوریت کی تعریف کچھ یوں ہے کہ “عوام کے ووٹوں سے عوام کی حکومت عوام کے لیئے ” لیکن ہمارے ہاں جو جمہوریت رائج ہے اس میں 3 باتیں ہیں۔ ہمارے ہاں حکومتیں عوام کے ووٹوں سے نہیں بلکہ بیرونی اشاروں سے بنتی بگڑتی ہیں۔ اور حکومتیں عوام کے لیئے نہیں خواص کے لیئے ہوتی ہیں۔ اور یہ حکومتیں عوامی نہیں ہوتیں کہ کچھ خاندان ہیں جنہوں نے روز اول سے ہی اس ریاست کو یرغمال بنا رکھا ہے جبھی تو ہمارے ملک میں جمہور کچھ اور ہے۔ جمہوریت کچھ اور ہے اور سیاست دان کچھ اور۔

Democracy

Democracy

ہمارے ہاں جمہوریت، انقلاب اور تبدیلی کے نعروں کی گونج تو سنائی دیتی ہے لیکن عملاََ کچھ نہیں ہے۔ زبانی جمع خرچ کرنے ، شرانگیز بیان بازی اور بلند و بانگ دعووں سے اگر ہم نے ترقی کر لی تو یہ اپنی طرز کا ایک انوکھا معجزہ ہو گا کہ کسی بھی قوم نے ان باتوں سے ترقی نہیں کی ۔موجودہ صورتحال پر نظر دوڑائیں تو کوئی بھی چیز اپنی جگہ پر دیکھائی نہیں دیتی ۔ جمہور کو دال، روٹی کی فکر چین نہیں لینے دیتی تو سیاست دانوں کو جمہوریت کی بھی بقاء اور اسکا استحکام چین سے سونے نہیں دیتا۔ پارلیمنٹ کی صورتحال یہ ہے کہ وہاں جانے کے لیئے نہ ہمارے وزیراعظم کے پاس وقت ہے اور نہ ہمارے قومی لیڈروں (سیاستدانوں ) کے پاس ، اداروں کے بارے میںکہا جاتا ہے کہ یہ ریاست کے کمائو پوت ہیں مگر ان کی صورتحال یہ ہے کہ ہم ان کو ٹھیکے پر دینے یا بیچنے کے لیئے کمربستہ ہیں۔

اب ان حالات میںدنیا ہمیں ناکام ریاست کا نام نہ دے تو اور کیا کہے؟ رہی سہی کسر دہشت گردی نے پوری کر دی ہے کہ جس نے ملکی معشیت کی کمر توڑ کر دکھ دی ہے۔ کرپشن ، اقرباء پروری، مہنگائی، بے روزگاری، غربت، لاقانونیت ان سب نے مل کر عوام کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے۔ ایک طرف ملکی بقاء دائو پر لگی ہوئی ہے تو دوسری طرف ہمارے سیاست دان ایک دوسرے کے دست و گریباں نظر آتے ہیں ۔ اور سچ تو یہ ہے کہ کسی نے ملک و قوم کے لیئے کچھ نہیں سوچا ہے اگر کچھ غور و فکر کرتے تو آج ہماری یہ حالت نہ ہوتی۔

آجکل آزادی کے لیئے PTI اور تحریک منہاج القرآن سڑکوں پر نکل آئی ہے کیا حکومت کو اس بات کا ذرا بھی احساس نہیں کہ تصادم کی زرا سی بھی راہ نکل آئی تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ موجودہ صورتحال میں ملک کسی ایڈونچرازم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اب بھی وقت ہے کہ مذاکرات کی ٹیبل پر مل بیٹھیں اگر طالبان سے مذاکرات ہو سکتے ہیں تو آپس میںکیوں نہیں ہو سکتے ۔ موجودہ حکومت ہوش کے ناخن لے اور ملک میں امن و امان کی فضاکو فروغ دے حیرت کی بات ہے کہ ادھر حکومت کہتی ہے کہ ہمیں کوئی خطرہ نہیں اور اسلام آباد میں فوج بھی طلب کر لی ہے اور PTI اور منہاج القرآن کے کارکنوں پر تشدد اور ان کو گرفتار بھی کروا رہی ہے۔

یہ کہاں کہ بہادری ہے۔ بھلے آدمی نے کہا تھا کہ میدان میں تیتر نہیں لڑتے بلکہ کاریکگروں کے ہاتھ مدمقابل ہوتے ہیں۔ اور حکومت بیرونی اشاروں پر ناچ رہی ہے اور کچھ نہیں ۔ میری دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ان سب کو ہدایت دے اورملک میں تبدیلی کو یقینی بنائے تاکہ ہمارا ملک اور ہماری قوم تباہی سے بچ سکیں تاکہ ہم ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑے ہو سکیں۔

Mubarak Shamsi

Mubarak Shamsi

تحریر:سید مبارک علی شمسی
ای میل۔۔۔۔۔mubarakshamsi@gmail.com