مسلمانوں کا مستقبل روشن ہے

Knowledge

Knowledge

علم حاصل کرنے اور علم کی روشنی پھیلانے، دونوں کے لیے ہی تڑپ، نیک جذبہ اور اخلاص ضروری ہے۔ یہی اوصاف ایک صالح، تعلیم یافتہ اور کامیاب ملت تشکیل دے سکتے ہیں۔ علم، جستجو اور تحقیق نے انسان کو چاند پر قدم رکھنے کے قابل بنایا ہے۔ علم ہی ہے جس نے انسان کو امراض سے لڑنے کی قوت عطا کی ہے۔ علم ہی انسان کو عزت و مرتبہ عطا کرتا ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے نزدیک علم کا حاصل کرنا لوگوں کے فرائض میں سے ایک ہے کیونکہ علم جہالت کی ضد ہے اور جہالت ایک لعنت ہے۔ سر سید احمد خاں، مولانا ابوالکلام آزاد، شبلی نعمانی، حسرت موہانی، علامہ اقبال، اے پی جے عبدالکلام جیسے شہرت یافتہ اشخاص کی شہرت کا راز بھی تعلیم میں ہی پوشیدہ ہے۔ انھوںنے تعلیم کی اہمیت کو سمجھا اور خود کو اعلیٰ مقام پر فائز کرنے کے لیے علم حاصل نہیں کیا بلکہ تلاش و جستجو کے جذبہ نے انھیں حصول علم کی طرف راغب کیا۔

افسوس کا مقام ہے کہ مسلمانوں میں تعلیم کو لے کر بے حسی گزشتہ دہائیوں میں اس طرح عام رہی کہ اس شعبہ میں پیچھے اور بہت پیچھے چھوٹ گئے۔ خصوصاً عصری تعلیم سے بے توجہی نے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن اب تبدیلی کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ سچر کمیٹی رپورٹ نے مسلمانوں کی جو ابتر صورت پیش کی تھی، اس سے لوگوں میں بیداری پیدا ہوئی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ حکومت مسلمانوں کی عصری تعلیم کی طرف خاص طور پر توجہ دے رہی ہے۔ دراصل آزادی کے بعد مسلمانوں کی حالت دگر گوں ہو گئی تھی اور وہ پوری طرح بکھر گیا تھا۔

تقسیم ہند کا نقصان مسلمانوں کو کچھ زیادہ ہی ہوا۔ مسلمان پوری طرح منتشر ہو گئے۔ اس منتشر شیرازے کو دوبارہ سجانے اور سنوارنے کی کوششیں مولانا ابوالکلام آزاد، سر سید احمد خاں، ذاکر حسین اور شبلی نعمانی جیسے مسلم قائدین نے کیں لیکن فکر معاش میں مبتلا مسلمان نے اس طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔البتہ گزشتہ کچھ سالوں سے حالات میں تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ دراصل مسلمانوں نے اپنی چاق و چوبندی اور حالات کے تھپیڑوں سے الجھ کر حکومت کے سامنے یہ بتانے کی کوشش کی کہ انہیں بھی عصری تعلیم کی ضرورت ہے کیونکہ وہ صرف روایتی علوم سے جڑ کر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ جب مسلمانوں میں بیداری بڑھی تو حکومت پر بھی دبائو بڑھا اس لیے حکومت نے اس سلسلے میں کئی طرح کے منصوبے تیار کیے۔

سچر کمیٹی کی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف ہوا تھا کہ مسلمان عصری تعلیم میں بہت پیچھے ہیں لیکن اب اس میں بہتری درج کی گئی ہے۔ جہاں پہلے صرف 4 فیصد طلبا اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے تھے وہیں تازہ رپورٹوں میں اس شرح میں کافی اضافہ ہوا ہے اور طلبا نہ صرف اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں بلکہ میڈیکل، انجینئرنگ وغیرہ کورس میں داخلے بھی لے رہے ہیں۔ اس تعلیمی بیداری کے سبب مدارس کو، جن سے مسلمانوں کی تعلیم کا رشتہ قدیمی ہے، مرکزیت دینے کی کوشش کی گئی ہے اور ہندوستان کے بہت سارے مدارس کے سرٹیفکیٹ کو اعلیٰ تعلیم کے لئے تسلیم کیا جانے لگا ہے۔ نیز ان مدارس کے نصاب کو بھی عصری علوم سے جوڑا گیا ہے تاکہ دینی علوم کے ساتھ مسلمان عصری علوم میں بھی آگے بڑھیں تاکہ دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھ سکیں۔ اس کا مثبت ریزلٹ دھیرے دھیرے ہی سہی لیکن ہمارے سامنے آ رہا ہے۔

Education

Education

اس کے علاوہ مدارس میں’ منی آئی ٹی آئی’ کا قیام، لڑکیوں کے لئے دوسرے پروفیشنل کورسیز کی طرف خصوصی توجہ دے کر ان کو روزگار سے جوڑنے کی کوششیں بھی کی گئی ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ میں مسلمان لڑکیوں کو لڑکوں کی بہ نسبت بہت پیچھے اور انتہائی کم تعلیم یافتہ بتایا گیا تھا۔ مسلمانوں نے اس طرف بھی خاص توجہ دی ہے اور اب لڑکیوں کو بھی کالج یا یونیورسٹیوں میں بھیجا جانے لگا ہے۔

دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی یونیورسٹی وغیرہ میں مسلم لڑکیوں کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہیں۔ وزارت برائے ترقیات انسانی وسائل نے مفت میں مدارس کو یا تعلیمی اداروں کو NIOS (نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن اسکولنگ) کے سنٹرس فراہم کرنے کی اجازت بھی دے چکی ہے اور اس سے بھی مسلم طبقہ فائدہ حاصل کر رہا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پورے ہندوستان میں ہزاروں مراکز کھل چکے ہیں جہاں سے مسلمان بچے اور بچیاں یکساں استفادہ کر رہے ہیں۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (NCPUL) کے اداروں نے مختلف فاصلاتی کورسز کے لئے بھی سنٹرس کھولے ہیں۔ اس سے اعلیٰ تعلیم کی طرف کم تناسب میں تیزی کے ساتھ اضافہ درج کیا گیا ہے۔ سول سروسز، انجینئرنگ، میڈیکل، مینجمنٹ ان تمام شعبوں مسلمان بچوں کی نمائندگی میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے اپنے مراکز کے جال پورے ہندوستان میں بچھانے شروع کر دئیے ہیں۔

ان مسلمانوں کو جن کے پاس خوشحالی ہے وہ اپنے بچوں کو پرائیویٹ اداروں میں بھیج رہے ہیں اور عصری علوم کی اہمیت کو بہت اچھی طرح جان گئے ہیں۔ لیکن اس قوم کی بدقسمتی ہی کہی جائے گی کہ دیہی علاقوں میں آج بھی لوگوں میں بیداری اس سطح کی نہیں ہے جیسی کہ ہونی چاہیے۔

ہمیں موقع مل رہا ہے آگے بڑھنے کا۔ ہمیں موقع مل رہا ہے قدم سے قدم ملا کر ساتھ چلنے کا۔ ہمیں موقع مل رہا ہے چاند پر کمندیں ڈالنے کا۔ ہمیں اپنی رفتار کو مزید تیز کرنا ہوگا۔ حکومت کے ذریعہ کئی منصوبے ایسے ہیں جس کا ہم خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا پاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس تعلق سے بیدار ہوں اور اپنے دوست و احباب کو بھی اس طرف راغب کریں۔

خصوصاً دیہی علاقوں تک ان منصوبوں کو پہنچانا بہت ضروری ہے۔ مسلمانوں کی تعلیم کے لیے مختص بجٹ کا بہت بڑا حصہ آج استعمال نہ ہونے کے سبب واپس ہو جاتا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ ہم اپنا حق حاصل کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہیں۔ حکومت کے ذریعہ عصری تعلیم کی کئی مفت اسکیمیں بھی چلائی جا رہی ہیں، کم از کم کمزور معاشی حالت کے مسلمان اس سے تو استفادہ کر ہی سکتے ہیں۔

Muslims Education

Muslims Education

اگر مثبت انداز میں اور تیز رفتاری سے قدم آگے بڑھایا جائے تو ہمیں اپنا مستقبل روشن نظر آ رہا ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ حالات کتنے بھی سنگین کیوں نہ ہوں یہ سفر جاری رکھا جائے۔

تحریر: تنویر احمد، نئی دہلی