٤ ​ااگست یوم آزادی پاکستان ٢٠٢١ئ

14th August Independence Day of Pakistan

14th August Independence Day of Pakistan

تحریر : میر افسر امان

پہلے کی طرح اس سال ١٤ اگست٢٠٢١ء کو بھی یوم آزادی آیا مگر وہی پرانا حال ہے۔برعظیم کے قربانیاں دینے واے مسلمانوں کی رُوحیں اب بھی پاکستان کے اہل اقتدار سے سوال کر رہی ہیں کہ کیا ہم نے پاکستان اس لیے بنایا تھا کہ آپ پاکستان اسلامی نظام حکومت کے بجائے طرح طرح کے نظاموں کے تجربے کرتے رہیں۔نہیں نہیں! پاکستان میں کلمہ” لاالہ الا اللہ” کی سربلندی ہونی چاہیے۔ وہ ہونا چاہیے کہ جس کا ہم نے اپنے رب سے وعدہ کیا تھا۔ پاکستان کا مطلب کیا”لا الہ الا اللہ”۔ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے وژن کے مطابق پاکستان میں مدینہ کی فلاحی جہادی اسلامی ریاست قائم ہو گی ۔مگر پاکستان بنانے والی سیاسی جماعت آل انڈیامسلم لیگ کے کھوٹے سکوں نے توپاکستان بنتے ہی اقتدار کا وہ کھیل کھیلا گیا کہ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے وزیر اعظم پنڈت اہر لال نہرونے طنزً کہا تھا کہ پاکستان میں تو اتنی وزارتیں تبدیل ہوتیں ہیںکہ میں اِتنی دوتھیاں بھی تبدیل نہیں کرتا؟ غیرت سے عاری اہل اقتدار نے اس طنز پر بھی شرم نہیں آیا۔

سکندر مرزا نے پاکستان کو جمہوریت کی پڑی سے ہٹا کر ڈکٹیٹر شب میں تبدیل کر دیا۔ انگریز سے فوجی تربیت حاصل کرنے والے ڈکٹیٹر ایوب خان نے سنکدرمرزا کو فارغ کرکے مارشل لا لگا دیا۔ ١٩٥٦ء کا مشترکہ آئین توڑ کر پاکستان توڑنے کی بنیاد رکھ دی۔ دس سال تک عوام پر ڈکٹیٹر مثلت رہا۔ مسلمانوں کا شادی بیاہ یعنی عالی نظام بدل کر انگریزی کر دیا۔ سیاست دانوں پر ایبڈو پابندیاں لگائیں ۔ بنیادی جمہوریت کا نظام ایجاد کیا۔ پھر ذلیل ہو کر اقتدار سے علیحدہ ہو ا۔ دوسرے ڈکٹیٹر یخییٰ خان کو اقتدار منتقل کیا۔ڈکٹیٹر یخییٰ خان دنیا کی تاریخ کے منفرد سولین ڈکٹیٹر ذوالفقار علی بھٹوکے ساتھ مل کر پاکستان کو توڑنے کا سبب بنا۔١٩٧٠ء میںبھٹو نے قائداعظم کے اسلامی وژن اور برعظیم کے مسلمانوں کی روحوں کے ساتھ زیادتی کی۔تحریک پاکستان کے دوران اللہ سے کیے وعدے کہ پاکستان میں اسلامی نظام ِحکومت قائم کیا جائے گا، کی رو گردانی کرتے ہوئے ایک نیا شوشہ ”اسلام ہمارامذہب،سوشلزم ہماری معیشت ، طاقت کا سرچشمہ عوام اور روٹی کپڑا مکان کے نعرے سے عوام پرمسلط ہوا۔ دوسری طرف اگر تلہ سازش کا سرغنہ ، بھارت کا ا یجنٹ اور بنگالی قومیت کا پرچارک، شیخ مجیب نے بنگالیوں کے بے بنیاد حقوق اور بنگالی قومیت کے نام پر گمراہ کر تشدد کی بنیاد پر ووٹ حاصل کیے ۔بھارت نے شیخ مجیب کے ساتھ مل کر مکتی باہنی جو دراصل بھارت ہی لوگ تھے بنائی۔پاکستان کے حامی بنگالیوں اور مغربی پاکستان کے لوگوں کو بے دریغ قتل کرنا شروع کیا۔

پاکستان بچانے والی جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی مرکزی لیڈر شپ کو جعلی یوڈیشنل ٹریوبلیونل بنا کر سزائے موت دیں۔ دنیا نے اس ٹریوببیونل کو جعلی کہا۔ ڈکٹیٹریخییٰ کے فوجی آپریشن کی وجہ مشرقی پاکستان کے حالات خراب ہوئے ۔ بھارت نے اپنے ڈاکٹرین پر عمل کرتے ہوئے پاکستان پر حملہ کر کے پاکستان کے دو ٹکڑے کر دیا۔ پاکستان بنتے وقت ہندئو قائد اعظم کے دو قومی نظریہ کے سامنے ہار گئے تھے۔انہوں نے اپنے لوگوں کو اِس ڈاکٹرائین پر مطمئن کیا تھا کہ اب تو مذہب کے جنوں میں مسلمان آل انڈیا مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے ہیں ۔ابھی توپاکستان بننے دو۔ پاکستان بننے کے بعد ہم پاکستان کو سیکولر اور قومیتوں میں بانٹ کر اکھنڈ بھارت میں ضم کر لیں گے۔

اہل اقتدار جس میں فوجی اور سول مقتدر حلقے شامل ہیں، نے مل کر پاکستان کی اسلامی شناخت ختم کرنے میں ملوث رہے۔سارے حکمران سیکولر عناصر کو آگے لاتے رہے۔قائد اعظم کی وفات کے بعد مسلم لیگ کے کھوٹے سکوں نے قائد اعظم کے اسلامی وژن کی اعلانیہ مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ چودہ سو سالہ پرانہ اسلامی نظام حکومت قائم نہیں ہو سکتا۔اللہ بھلا کرے جماعت اسلامی کے بانی سید ابو الاعلی مودودی کا کہ اس نے قائد اعظم کے ساتھی، علامہ شبیر احمد عثمانی، کہ جس نے قائد اعظم کا جنازہ بھی پڑھایا تھا، کو ساتھ ملا کر ٣٢ علماء کو جمع کر کے حکومت کے سامنے متفقہ طور پر طے کیے گئے ٢٢ نقاط رکھے۔ کہ ایسے اسلامی نظام حکومت اب بھی قائم ہو سکتا ہے!سید مودودی نے اس سے قبل دستوری مہم بھی چلائی تھی۔

پاکستان کے پہلے وزیر اعظم شہید ملت نواب زادہ لیاقت علی خان نے قرارداد پاکستان کو دستور میں شامل کیا تھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ قائد اعظم کے اسلامی وژن کے حقیقی جان نشین سید مودودی ہیں، نہ مسلم لیگ کے کھوٹے سکے جو کہتے تھے کہ چودہ سو سالہ اسلامی نظام حکومت اس دور میں قائم نہیں ہو سکتا؟ یہی مسلم لیگ اب الف سے یے تک تقسیم درتقسیم ہوتے ہوتے بلا آخر نواز لیگ تک پہنچی ۔ جس کے سربراہ نے نواز شریف نے بھی قائد اعظم کے ا سلامی وژن سے بغاوت کر کے اعلانیہ سیکولر ہونے کا اعلان کیا۔پاکستان کی ازلی دشمن بھارت کے بیانیہ سے اپنا بیانیہ ملا دیا۔آئین کی دفعہ ٦٢۔ ٦٣ پر پورا نہ اترنے پر پاکستان کی اعلی عدالت سپریم کورٹ نے نواز شریف کو سیاست سے تاحیات نا اہل قرار دیا ۔ تو پورے پاکستان کو سر پر اُٹھا لیا۔ شہروں شہر عدلیہ اور فوج پر بھارت کی ایما پر تنقید کرنی شروع کی۔ بھارت کی سلامتی کے مشیر اجیل دوت نے کہا تھا کہ نواز شریف پر بھارت نے انوسٹمنت کیا ہوا ہے، اسے ضائع نہیں ہونے دیں۔ امریکا کے حکمران اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ اگر نواز شریف کچھ مدت اور اقتدار میں رہتا تو ہم پاکستان

کو مکمل کنٹرول کر لیتے۔ یعنی بھارت کی کالونی بنا دیتے۔ نواز شریف نے ٢٠١٨ء کے قومی انتخابات میں شکست کھائی ۔پھر کرپشن میں قید کی سزا ہوئی۔ اب ملک سے جھوٹی میڈیکل رپورٹ پر انسانی ہمدردری کی بنیاد پر لندن اپنے بیٹوں اور جائداد پر چلا گیا۔وہاں بیٹھ کرخود اور اپنی بیٹی کے ذریعے فوج کے سر براہ کانام لے کر تنقید کرتا رہا ہے۔دوسری طرف فوج کے پاس اپنا بندہ بھیج کرکرپشن کے مقدمے ختم کرانی کی درخواست بھی کرتا ہے۔نواز شریف جسے فوج کے جنرل جیلانی سیاست اور اقتدار میں لائے۔ جنرل ضیاء نے پروان چڑہایا۔ اسی فوج کو کہہ رہا ہے میں ہی اکیلا آپ کا چیہتا ہوں۔ آپ عمران خان کو کیوں خاہ مخواہ لے آئے۔ مجھے ہی چوتھی دفعہ بھی وزیر اعظم پاکستان بناتے؟ اس قبل ڈکٹیٹر پرویز مشرف بھی قائد اعظم مسلم لیگ بنا کر پاکستان کو روشن خیال پاکستان بنانے کی کوشش کرتا رہا۔مگر اب ذلیل ہو کر ملک سے فرار ہے۔ جس جس نے قائد اعظم کے اسلامی وژن کی مخالفت کر کے مثل مدینہ مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اسلامی پٹڑی سے اُتارنے کی کو شش کی۔ برعظیم کے مسلمانوں کی روحوں سے غداری کی، اس کا حشر اس دنیا میں ہی اللہ نے خراب کیا۔ کوئی ڈکٹیٹر ایوب خان اور ڈکٹیٹر یخیی خان کی طرح ذلیل ہوکر اقتدار سے علیحدہ ہوا۔ کوئی بھٹو، مجیب اور اندرا گاندھی کی طرح جان سے گئے۔ کوئی ڈکٹیٹرپرویز مشرف اور نواز شریف کی طرح ذلیل ہوا ۔بیماری کا بہانہ بنا کر ملک سے فرار ہوا۔

اب عمران خان کی شکل میں ایک حکمران ملا ،جوخود تو کرپشن فری ہے۔ مگر اس کے اِرد گرد سارے ویسے ہی جیسے پہلے حکومتوں کے ساتھ تھے۔ یہ علامہ اقبال کے خواب، قائد اعظم کے وژن اور کرپشن فری پاکستان کے منشور پر اقتدار میں آئے ہیں ۔ پہلے دن سے مدینہ کی اسلامی ریاست کی گردان دھراتا رہاتے رہتے ہیں۔جب کہ سوائے غریبوں کے کھانے کے علاوہ کوئی کام نظر نہیں آرہا۔ کرپشن کرپش ہی کرتے رہتے ہیں۔بار ہا لوگ لکھ رہے ہیں کہ ایک آرڈینس پاس کریں کہ کسی کے بھی آمدنی سے زیادہ اثاثے ہوں، وہ فرد چھ ماہ کے اندر اپنی بے گناہی خود ثابت کرے ورنہ اس کے آمدنی سے زیادہ اثاثے بحق سرکار ضبط کر کے غریب عوام کے خزانے میں داخل کیے جائیں۔ ابھی تک سود کے خلاف شہریت کورٹ کے فیصلہ کے خلاف نواز شریف کے درخواست سپریم کورٹس میں پڑی ہے۔ اسے واپس لے کے سود ختم نہیں کیا گیا۔انگریزی قانون کے بدلے سلام کاعدالتی نظام، قاضی کورٹ قائم نہیںکی گئیں۔ جس سے عوام کو جلد اور سستا انصاف مہیا ہوتا ہے۔بنگنگ کو سود سے پاک اورتجارت کو شراکت کی بنیاد پر نہیں کیاگیا۔بلکہ پاکستان کو سودی ادارے آئی ایم ایف کے حوالے کر دیا۔ جس کام صرف اپنا سود وصول کرنا ہے۔ آئی ایم ایف نے نئے نئے ٹیکس لگا کر عوام کی چیخیں نکالنا شروع کی ہوئی ہیں۔ عوام کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے ۔اگر عمران خان نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے تو ان کا انجام بھی پہلے حکرانوں سے مختلف نہیں ہو سکتا۔

صاحبو! آزادی کا ہر سال ایسا ہی آتا رہے گا۔ مقتدر حلقے نوے (٩٠) فی صد خاموش پاکستانی عوام کی اکشریت کا گلہ ایسے گھوٹتے رہیں گے۔کب بابرکت مدینے کی اسلامی ریاست کی جھلک دکھائیں گے۔کب تک بانی پاکستان قائد اعظم اور برعظیم کے مسلمانوں کی روحوں کو تکلیف پہنچاتے رہیںگے۔کب تک پاکستان کا ازلی دشمن بھارت پاکستان کے مذید دس ٹکڑے کرنے کی دھمکیاں دیتا رہے گا۔ نہیں نہیںعوام اب ایسا نہیں ہونے دیں گے؟۔ عوام تحریک پاکستان جیسی تحریک اُٹھا کر اسلام بیزار سیاست دانوں کو ہٹا کر قائد اعظم کے اسلامی وژن کے حقیقی جان نشین، مخلص ، کرپشن سے پاک، آزمائے ہوئے، جہادی، مسلمانوں کے پشتی بان،نڈر، پڑھے لکھے ،سیاست دانوں کومنتخب کر کے آگے لائیں گے۔اپنے اللہ سے لا الہ الا اللہ کا کیا ہوا وعدہ پوراکریں گے۔ پھر کشمیر بھی آزاد ہو گا۔ بھارت کے مظلوم مسلمانوں کے دکھ بھی کم ہو گیں۔ اللہ بھی اپنا د عدہ ،کہ بستیوں کے لوگ اگر اللہ کے احکمامات پر عمل کرتے تو اللہ آسمان سے رزق نازل کرتا اور زمین اپنے خزانے اُگل دیتی۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ اور پاکستان کے عوام حقیقی آزادی منانے کے قابل ہوں آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان