میانمار میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کیوں کر لیا؟

Myanmar Army

Myanmar Army

میانمار (اصل میڈیا ڈیسک) میانمار میں فوج نے ایک دہائی تک ایک ’ہائبرڈ‘ یا نیم جمہوری نظام کا تجربہ کرنے کے بعد واپس اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اس فوجی بغاوت کے ممکنہ محرکات کا تفصیلی جائزہ۔

میانمار میں گزشتہ 73 سالوں کے دوران فوج سب سے طاقتور اور مضبوط ادارہ رہا ہے۔ فوجی جرنیلوں نے کئی دہائیوں تک ملک پر براہ راست حکومت کی۔ اس فوجی اقتدار کو چین کی حمایت بھی حاصل رہی۔ خطے میں دیگر آمرانہ حکومتوں کے بھی میانمار کی فوجی جنتا سے قریبی تعلقات رہے۔ لیکن گھٹن کے اس ماحول میں ملک کی سماجی ترقی اور معیشت مسلسل متاثر ہوتی رہی۔ امریکا اور دیگر مغربی ممالک اقتصادی پابندیوں کے ذریعے فوجی حکمرانوں پر دباؤ ڈالتے رہے کہ ملک میں انسانی حقوق کی پامالیاں بند کی جائیں اور جمہوری اصلاحات متعارف کرائے جائیں۔

جب سفارتی دباؤ زیادہ بڑھ گیا تو فوجی جنتا نے محدود نوعیت کے ‘اصلاحات‘ پر آمادگی ظاہر کی۔ فوج نے میانمار کے لیے ایک نیا آئین تشکیل دینے پر کام شروع کردیا جس میں پانچ سال لگ گئے۔ بالآخر یہ نیا دستور سن 2008 میں منظور ہو گیا۔

اس آئین کی دلچسپ بات یہ تھی کہ اس میں پارلیمان میں فوجی کمانڈروں کے لیے ایک چوتھائی نشستیں مختص کی گئیں۔ آرمی اور سکیورٹی کے تمام تر معاملات اور تعیناتیاں فوج نے اپنے ہاتھوں میں رکھیں۔

آئین میں کسی ترمیم کی منظوری کے لیے اراکین پارلیمان کی 75 فیصد اکثریت لازمی قرار دی گئی۔ یوں اس نئے ڈھانچے میں فوج نے یہ یقینی بنایا کے اس کی مرضی کے بغیر دستور میں کوئی ردوبدل نہ کیا جاسکے۔

اس نظام کے نتیجے میں کہنے کو ایک آئین، پارلیمان اور منتخب حکومت وجود میں آ گئی لیکن اصل اختیار فوج نے اپنے ہاتھوں میں ہی رکھا۔

ان حالات میں آنگ سان سوچی کے پاس دو راستے تھے۔ یا تو وہ سول – ملٹری عدم توازن پر مبنی اس ڈھانچے کو ایک نمائشی تبدیلی قرار دے کر مسترد کردتیں۔ ایسی صورت میں انہیں اور ان کی جماعت نیشنل لیگ برائے ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کو انتخابی سیاست سے باہر بیٹھنا پڑتا جس سے فوج کے ایجنڈے پر چلنے والی پارٹیوں کے لیے راہ ہموار ہو جاتی۔

دوسرا راستہ یہ تھا کے برسوں کی مزاحمت کے بعد اگر ایک لُولی لنگڑی جمہوریت کے لیے راہ ہموار ہو رہی تھی تو اس کا حصہ بن کر اس میں آہستہ آہستہ بہتری لائی جائے۔ آنگ سان سوچی اور ان کے ساتھیوں نے دوسرا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور فوج کے ساتھ شراکت اقتدار کے لیے تیار ہوگئے۔ فوجی جنتا نے انہیں سن 2010 میں اس شرط پر رہا کیا کہ اپنی تمام تر عوامی مقبولیت کے باوجود وہ کبھی بھی ملک کی صدر بننے پر اصرار نہیں کریں گی۔

سن 2015 کے انتخابات میں آنگ سان سوچی کی جماعت این ایل ڈی نے بھاری اکثریت حاصل کرلی۔ ان انتخابات کو میانمار میں پچیس سال کے دوران سب سے صاف شفاف الیکشن قرار دیا جاتا ہے۔

ان انتخابات کے بعد آنگ سان سوچی کے لیے ”اسٹیٹ کونسلر‘‘ کے نام سے ایک نیا عہدا تشکیل کیا گیا جس کے تحت انہوں نے پیچھے سے اپنی پارٹی کی حکومت چلانے کی کوشش کی۔ ملک میں اس سیاسی تبدیلی کے بعد امریکا نے میانمار پر ایک عرصے سے عائد اقتصادی پابندیاں ختم کردیں۔

اپنی حکومت کے دوران آنگ سان سوچی نے فوج کو اپنے ساتھ ملا کر چلنے کی کوشش کی اور فوجیوں کے متنازعہ ترین اقدامات کا دفاع بھی کیا۔ انہوں نے سن 2017 میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف فوجی آپریشن کی حمایت کی اور عالمی عدالت انصاف میں ملک کے فوجی جرنیلوں کا بھرپور دفاع کیا۔

آنگ سان سوچی کے اس مؤقف کے بعد ان کی عالمی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی سرکردہ تنظیموں نے ماضی میں انہیں دیے جانے والے اعزازات واپس لینے کا اعلان کیا۔ لیکن آنگ سان سوچی پر اس عالمی تنقید کے باوجود فوجی جنتا انہیں شک کی نگاہ سے دیکھتی رہی۔

فوج کے تحفظات کو اس وقت مزید تقویت ملی جب مارچ 2020ء میں سویلین حکومت نے آئین میں ترامیم کرکے حکومتی معاملات میں فوج کے اختیارات کم کرنے کی کوشش کی۔ ان اصلاحات میں پارلیمان میں باوردی فوجی افسران کے لیے مختص نشستیں کم کرنے کی تجویز بھی شامل تھی۔ منتخب حکومت کے ان اصلاحات کو پارلیمان کی اکثریت ملی لیکن فوج نے ان تجاویز کو ویٹو کرکے ان کا راستہ روک دیا۔

لیکن آنگ سان سوچی کی جماعت نے ہمت نہ ہاری اور ملک کو آگے لے جانے کے لیے ان آئینی ترامیم اور اصلاحات کو ناگزیر قرار دیا۔ گزشتہ برس نومبر کے انتخابات میں انہیں اس بنیاد پر زبردست عوامی پذیرائی ملی اور ان کی این ایل ڈی پارٹی بھاری اکثریت سے یہ الیکشن جیت گئی۔

فوجی جنتا امید کر رہی تھی کہ الیکشن میں آنگ سان سوچی کی مقبولیت میں کمی آئے گی لیکن ان انتخابات میں الٹا فوج نواز پارٹیوں کی پسپائی ہوگئی۔ تاہم فوج نے اپنی شکست تسلیم نہیں کی اور انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے۔ اس سلسلے میں ان سیاسی جماعتوں کے ذریعے سینکڑوں شکایتیں درج کرائی گئیں اور یہ الزامات سپریم کورٹ تک لائے گئے۔

انجام کار پچھلے ہفتے فوج کے ترجمان نے ایک بیان میں باقاعدہ دھمکی دی کہ اگر ان کی شکایات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تو وہ ”ملک کی خودمختاری کے دفاع میں‘‘ اقتدار اپنے ہاتھ میں لے کر ہنگامی حالات کا نفاذ کر سکتے ہیں۔

اس سے قبل کے میانمار کی پارلیمان فروری کے پہلے ہفتے میں الیکشن کے نتائج کا باضابطہ طور پر اعلامیہ جاری کرتی، آنگ سان سوچی سمیت کئی منتخب سیاسی رہنماؤں کو نظر بند کرکے فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ یوں پیر یکم فروری کو میانمار کی فوجی جنتا نے ایک بار پھر ملک میں جمہوریت کے پودے کو کچلتے ہوئے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔