میانمار کی فوجی جنتا کا میڈیا کے خلاف بڑا کریک ڈاؤن

Myanmar Protest

Myanmar Protest

میانمار (اصل میڈیا ڈیسک) میانمار میں فوج نے میڈیا کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کردیا ہے۔ ملک میں درجنوں صحافی پہلے ہی زیر حراست ہیں۔ پیر کو حکومت نے ملک میں جاری مظاہروں اور پرتشدد واقعات کی کوریج کرنے والے پانچ میڈیا ہاؤسز کے لائسنس منسوخ کر دیے۔ سرکاری چینل ایم آر ٹی وی کے مطابق ان میڈیا ہاؤسز پر کسی بھی ٹیکنالوجی یا میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے نشریات پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

میانمار میں فوج کے زبردستی اقتدار پر قبضے کے خلاف جوں جوں مظاہرے بڑھ رہے ہیں، حکام کی طرف سے احتجاج کچلنے میں بظاہر تیزی آ رہی ہے۔

ان میڈیا ہاؤسز نے ملک کے بگڑتے حالات کی مسلسل کوریج کی تھی اور بعض نے اپنے ڈجیٹل پلیٹ فارمز پر عوامی مظاہرے لائیو دکھائے کیے تھے۔

پابندی کی زد میں آنے والے میڈیا ہاؤسز میں ”میانمار ناؤ‘‘ نیوز سروس بھی شامل ہے۔ اس ادارے کے مطابق پیر کو پولیس اہلکار ان کے دفتر کے دروازے توڑ کر اندر داخل ہوئے اور ان کے کمپیوٹر، پرنٹر اور دیگر مواد اٹھا کر لے گئے۔ ادارے کے مطابق اس نے یہ دفتر پانچ ہفتے پہلے ہی بند کر دیا تھا۔

میانمار میں فوج نے پہلی فروری کو حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا اور تب سے منتخب نمائندوں سمیت سینکڑوں لوگوں کو نظر بند کر رکھا ہے۔ پچھلے پانچ ہفتوں کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں فوج کے اس اقدام کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ پر تشدد واقعات میں کم از کم 60 لوگوں کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔

”میانمار ناؤ‘‘ نیوز سروس کے ایڈیٹر ان چیف سُوے وِن کے مطابق اس وقت ملک میں صحافتی کام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ جیل بھی جا سکتے ہیں اور جان سے بھی جا سکتے ہیں، ”لیکن یہ بھی واضح ہے کہ یہ حکومت ملک بھر میں جن جرائم کی مرتکب ہو رہی ہے، ہم اس کی کوریج بند نہیں کریں گے۔‘‘

پابندی کا نشانہ بننے والے ایک اور نجی میڈیا گروپ ”مِزیما‘‘ نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ اپنے آن لائن اور ملٹی میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے ”فوجی اقتدار کے خلاف اور جمہوریت اور انسانی حقوق کے حق میں لڑتے رہیں گے۔‘‘

میانمار میں فوج لمبا عرصہ اقتدار پر قابض رہی ہے۔ پچھلے دس سالوں کے دوران ملک میں آہستہ آہستہ جمہوری اصلاحات متعارف ہونا شروع ہوئی تھیں۔ تاہم اس دوران بھی اظہار آزادی پر قدغنیں رہیں اور ملک میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ فوج کی مبینہ زیادتیوں پر رپوٹنگ کی اجازت نہیں تھی۔

لیکن مبصرین کے مطابق اقتدار پر فوج کے براہ راست قبضے کے بعد ملک جمہوری اقدار کے حوالے سے بہت پیچھے چلا گیا ہے۔