نیب نے پنجاب کے سینئر وزیر علیم خان کو گرفتار کر لیا

Aleem Khan

Aleem Khan

لاہور (جیوڈیسک) ترجمان قومی احتساب بیورو (نیب) نے پنجاب کے سینئر صوبائی وزیر بلدیات علیم خان کی گرفتاری کی تصدیق کر دی۔

نیب لاہور نے علیم خان کو آف شور کمپنی اسکینڈل اور آمدن سے زائد اثاثوں کی تفتیش کے لیے آج طلب کیا تھا جس کے لیے وہ نیب آفس پہنچے جہاں انہیں حراست میں لے لیا گیا۔

علیم خان پونے گیارہ بجے کے قریب ٹھوکرنیاز بیگ پر موجود نیب کے دفتر پہنچے جہاں میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آج جس حوالے سے طلب کیا گیا اس پر واپسی پر بات کروں گا۔

نیب کے دفتر سے علیم خان کا اسٹاف اکیلے روانہ ہوا اور سینئر وزیر نیب کے دفتر سے باہر نہیں آئے۔

ترجمان نیب نے علیم خان کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ سینئر وزیر کو آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں گرفتار کیا گیا ہے۔

علیم خان کے خاندانی ذرائع کا کہنا ہےکہ صوبائی وزیر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ اپنے خلاف کیسز کا سامنا کریں گے۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ علیم خان جب تک نیب کے زیر تفتیش ہیں وہ کسی عہدے پر کام نہیں کریں گے۔

نیب سینئر وزیر علیم خان کے خلاف بیرون ملک جائیداد، آمدن سے زائد اثاثوں اور آف شور کمپنی کے حوالے سے تفتیش کررہا ہے، اس سلسلے میں علیم خان آج چوتھی مرتبہ نیب کے سامنے پیش ہوئے، وہ آخری مرتبہ 8 اگست کو نیب کے سامنے پیش ہوئے جس کےبعد انہیں ایک سوالنامہ دیا گیا اور 6 فروری کو طلب کیا گیا تھا۔

علیم خان کی گرفتاری پر خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے سینئر صوبائی وزیر کو نیب حراست میں لیے جانے کی تصدیق کی۔

انہوں نے کہا کہ نیب کو حق حاصل ہے کہ جو حکومتی عہدیدار، بیوروکریٹ کسی عہدے پر فائز ہو اسے مالی بدعندانی پر گرفتار کرسکتی ہے، اسی سلسلے میں علیم خان کے خلاف ایک کیس چل رہا تھا جس میں وہ دوسری بار پیش ہوئے، علیم خان نے ایک بار بھی نیب یا ریاستی اداروں کے خلاف نہیں بولا اور نہ ہی پنجاب حکومت یا پی ٹی آئی عہدیدار ایسا کریں گے، یہی فرق آلِ شریف، زرداری اور ہمارے درمیان ہے، یہ لوگ جب بھی آتے تھے اداروں پر لعن طعن کرتے تھے۔

صوبائی وزیر کا کہنا تھاکہ یہ علیم خان ملزم ہیں اور نہ ہی مجرم، ان کے خلاف ابھی کوئی ریفرنس دائر نہیں ہوا۔

فیاض الحسن چوہان نے علیم خان کے استعفے کی خبر کی تردید کی اور کہا کہ ابھی استعفے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی استعفیٰ وزیراعلیٰ کو بھجوایا گیا ہے، ابھی نیب مزید تفتیش کرے گا اور پھر ریفرنس دائر کیے جانے کا فیصلہ ہو گا۔