قومی اداروں کو نقصان پہنچانے کی مہم جاری، سخت نوٹس لے لیا گیا

Army Leaders

Army Leaders

اسلام آباد (جیوڈیسک) فوج کی اعلیٰ قیادت کے اندر تقسیم سے متعلق حالیہ خبروں پر اعلیٰ سینئر آفیشل حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ قومی اداروں کو نقصان پہنچانے کی منظم مہم چلائی جارہی ہے۔

ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ ہم نے من گھڑت خبروں کا سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے۔ اس بات پر نہایت تشویش پائی جاتی ہے کہ ہمارے مؤقف کو نقصان پہنچانے کیلیے بعض اخبارات میں مسلح افواج کے خلاف گمراہ کن مہم چلائی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ جنگ گروپ کے اخبارات میں گزشتہ ہفتے سے یہ خبریں شائع کی جارہی ہیں۔

کہ فوج کی اعلیٰ قیادت کے درمیان شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ان خبروں میں بالخصوص آئی ایس آئی کو نشانہ بنا کر دانستہ طور پر اسے ایک ایسے الگ ادارے کے طور پر پیش کیا جارہا جو اپنا مختلف ایجنڈا رکھتا ہے۔ ان خبروں میں یہ بے سروپا افواہیں پھیلائی گئیں۔

کہ اعلیٰ فوجی کمانڈر مبینہ طور پر آرمی چیف پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اسلام آباد میں پائے جانے والے سیاسی بحران کے تناظر میں حکومت کے خلاف سخت اقدامات کریں۔ ایسی ہی ایک اسٹوری دی نیوز میں شائع ہوئی جس میں کہا گیا کہ ’’ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے جاری تماشے کے بارے میں کئی حلقوں کا خیال ہے کہ اس سے فوج کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

وزیراعظم سمیت مسلم لیگ ن کے کئی اعلیٰ رہنماؤں نے اس بات کا اظہار سیاستدانوں اور میڈیا سمیت کئی لوگوں کے ساتھ کیا کہ اس تمام معاملے میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا کوئی کردار نہیں۔ البتہ حکومت نے آئی ایس آئی کے ایسے چند عناصر کا ذکر ضرور کیا۔

جو مبینہ طور پر اس معاملے میں ملوث ہیں۔ ایک اور اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ یہ بات ہرگز تسلیم نہیں کی جاسکتی کہ آئی ایس آئی فوج کی ہائی کمانڈ کے برعکس کام کررہی ہے۔ آئی ایس آئی مسلح افواج کا ہی حصہ ہے جس کی سربراہی تھری اسٹار حاضر سروس جنرل کرتا ہے اور تینوں مسلح افواج کے اہلکار اس میں شامل ہوتے ہیں۔

اس ادارے کو دنیا کی چند بہترین خفیہ ایجنسیوں میں شمار کیا جاتا ہے جو قومی مفادات اور مقاصد کے تحفظ کیلیے مسلح افواج کے ڈسپلن کے تحت کام کرتی ہے۔ یہ کہنا کہ آئی ایس آئی فوج کی اعلیٰ قیادت سے ہٹ کر کسی ایجنڈے پر کام کررہی ہے آئی ایس آئی بلکہ بحیثیت مجموعی مسلح افواج کی ساکھ خراب کرنے کے مترادف ہے۔

یہ دراصل مسلح افواج کو بدنام کرنے اور اس کی قیادت پر الزام تراشی کی ایک کوشش ہے۔ ایک اور خبر میں دی نیوز نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو ہیرو قرار دیا کیونکہ انہوں نے مبینہ طور پر اپنے چند اعلیٰ کمانڈروں سمیت متعدد حلقوں کی طرف سے وزیر اعظم کو استعفیٰ دینے پر مجبور کرنے کے مطالبے کی مزاحمت کی۔

اس خبر میں جہاں بظاہر آرمی چیف کی تعریف کی گئی لیکن درپردہ طور پر یہ تاثر دیا گیا کہ ان کی کمانڈ میں موجود ادارے اور لوگ مختلف سمتوں میں سرگرم عمل ہیں۔ اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ ایک حساس سیاسی صورتحال بالخصوص جبکہ جنگ گروپ نے آئی ایس آئی کے خلاف بے بنیاد الزامات کی مہم شروع کر رکھی ہے میں یہ ایک انتہائی خطرناک بات ہے۔

جنگ گروپ کے انگلش اخبار دی نیوز میں شائع ہونے والی خبروں پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک رٹائرڈ جنرل نے کہا کہ ان خبروں کا مقصد جان بوجھ کر فوج کی اعلیٰ قیادت میں اختلافات کا تاثر قائم کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان خبروں سے مسلح افواج کے طریقہ کار سے لاعلمی کا بھی پتہ چلتا ہے۔

فوج میں یونٹی آف کمانڈ کا سختی سے خیال رکھا جاتا ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ کسی مسئلے پر بحث ہوتی ہے اور کمانڈر اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں لیکن آخر میں حتمی فیصلہ من وعن قبول کیا جاتا ہے۔ اس رٹائرڈ جنرل نے کہا کہ دی نیوز کی یہ خبریں انتہائی غیر ذمہ دارانہ بلکہ اسکینڈل بنانے کے مترادف ہیں۔

کہ موجودہ سیاسی بحران کے تناظر میں فوجی قیادت نے کسی قسم کی تقسیم پائی جاتی ہے۔ اعلیٰ فوجی افسر نے کہا کہ ہائی کمان کی سطح پر جو فیصلے کیے جاتے ہیں ان کی حیثیت ادارہ جاتی ہوتی ہے۔ ایسے فیصلوں سے سینئر کمانڈروں کی اجتماعی دانش کی عکاسی ہوتی ہے۔ یہ فیصلے ذاتی پسند یا ناپسند کی بنیاد پر نہیں بلکہ وسیع تر قومی مفادات میں کیے جاتے ہیں۔

یہ مسلح افواج کے اندر نظام کی طاقت ہے جو اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ فوجی اپنی خدمات پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہو جاتے ہیں لیکن ادارہ ان کی بنائی پالیسی اپنائے رکھتا ہے۔ میچور اداروں کا طریقہ کار ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس تناظر میں دی نیوز میں شائع ہونے والی خبریں واضح طور پر آرمی چیف کے عہدے اور شخصیت کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔

اس عہدیدار نے کہا کہ اس الزام کہ آئی ایس آئی جمہوریت کے مفادات کے خلاف کام کر رہی ہے کا مطلب دراصل یہ ہے کہ آرمی چیف یہ سب کچھ کررہے ہیں۔ کیونکہ کسی بھی ادارے کے سربراہ کو اپنے ماتحت اداروں کے افعال کار سے لاتعلق نہیں سمجھا جاسکتا۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کہ ہم کہیں کہ وزیراعظم بہت اچھا کام کررہے ہیں لیکن ان کی کابینہ کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے۔