ملکی سالمیت اور استحکام کی لاش

Khushab

Khushab

صوبہ خان ضلع خوشاب کے گائوں کالی بیر کا باسی تھا اس کا اصل نام ملک فتح خان تھا صوبہ خان کے والد غلام محمد کی تمام عمر معرکہ آرائی میں گزری اس کا تعلق چونکہ پہاڑی علاقہ پوٹھوہار سے تھا جرات اور بہادری صوبہ خان کو ورثہ میں ملی صوبہ خان جواں ہوا تو اس کا خاندانی پس منظر پسماندگی اور مہیب مسائل تھے۔

غربت اور زندگی کے ساتھ منسلک مسائل کے اژدہام نے صوبہ خان کو بلوچستان پولیس جوائن کرنے پر مجبور کیا صوبہ خان کی دلیری، فرض شناسی، حب الوطنی نے کلیدی نشستوں پر بیٹھے پولیس آفیسرز کے دلوں پر انتہائی قلیل عرصہ میں تسلط جما لیا اس کی بہادری کے واقعات کو تقریبات، نجی محفلوں میں وہ فخریہ انداز میں بیان کرتے۔

صوبہ خان ایسا ہی تھا ملک اور سماج دشمن عناصر کے خلاف صوبہ خان ایک ایسی چٹان تھا جس کے سینے میں شگاف ڈالنا ناممکن ہوتا ہے ملک دشمن عناصر کی سرگرمیاں اور صوبہ خان کی ان کیخلاف معرکہ آرائی ہمیشہ ساتھ ساتھ چلی پنجاب کی دھرتی کا یہ باسی بلوچستان پولیس کے ساتھی دوستوں سے اکثر یہ کہا کرتا ہم ناں تو پنجابی ہیں، ناں سندھی، ناں بلوچی ہیں اور ناں ہی سرحدی ہم صرف اور صرف پاکستانی ہیں اور پاکستان ہی ہماری پہچان ہے ایک دفاعی محکمہ میں ہوتے ہوئے ہمیں یہ بات مدنظر رکھنا ہے کہ ہم نے صرف اور صرف وطن عزیز کی سالمیت اور استحکام کا دفاع کرنا ہے پھر نائن الیون کا خود ساختہ واقعہ ہو گیا۔

دنیا کے معروضی حالات بدل گئے، عالمی طاقتوں کی ترجیحات تبدیل ہو گئیں دہشت گردی کی ایک نئی اختراع کے وجود نے جنم لیا اور ہم نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ بن گئے، ڈالروں کی بارش میں ایک بے ضمیر حکمران نے اپنا ایمان، غیرت بیچ ڈالی وطن عزیز کو اس جنگ کی بھاری قیمت چکانا پڑی ملکی استحکام و سالمیت کی ضامن شخصیات اس جنگ کی زد میں آگئیں۔

بے نظیر بھٹو ،اکبر بگٹی کو راستہ سے ہٹا دیا گیا ملک دشمن ایجنسیاں ،را،موساد،کے جی بی اور سی آئی اے کے کارندے متحرک ہو گئے اور ملک کے میر جعفروں اور میر صادقوں نے ملکی سرحدوں کے اندر انکے داخلے کی نہ صرف راہ ہموار کی بلکہ وطن عزیز کے معصوم نوجوانوں کے اذہان وقلوب کو یرغمال بنا کر وطن عزیز کے خلاف نفرت کا بارود بھر دیا یہ متنفر نوجوان ملک دشمن ایجنسیوں کے آلہ کار بن گئے، پرامن شہر دھماکوں سے گونجنے لگے، بے گناہ اور معصوم شہریوں کی لاشیں گرنے لگیں، وطن عزیز کے ٹوٹنے کی باتیں ہونے لگیں، صوبوں کی علیحدگی کے نعرے لگنا شروع ہو گئے۔

Terrorists

Terrorists

بلوچ نوجوان ملک دشمن ایجنسیوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن گئے ان کے ذہن میں علیحدگی کا لاوہ ابلنے لگا ایسے میں صوبہ خان جیسے نوجوان ملکی استحکام اور سالمیت کی جنگ کا ہراول بن گئے کوئٹہ شہر لسانی فسادات کی زد میں آگیا پنجاب کے لوگوں کو نشانہ بنایا جانے لگا جب بھی پنجاب کے کسی فرد کی لاش گرتی بلوچستان میں اپنے فرائض منصبی ادا کرنے والے نوجوان حوصلہ ہار جاتے صو بہ خان اپنے صوبہ کے لوگوں کو ایسے میں حوصلے اور ہمت کی آکسیجن فراہم کرتا پنجاب کے لوگوں کی لاشیں گرتی رہیں اور یہ تعداد ٢٠٠٠ تک پہنچ گئی صوبہ خان کا حوصلہ پہلے روز کی طرح جواں تھا اسکے مضبوط بازو اپنوں کی لاشیں اٹھا اٹھا کر شل ہو چکے تھے لیکن اس کے باوجود اسکی یہ منطق ناں ٹوٹی کہ یہ لاشیں ملکی سالمیت کے خلاف لڑے جانے والے محاذ میں گری ہیں پھر دہشت گردوں نے صوبہ خان کو اپنے ہدف پر رکھ لیا اپنے مضبوط نیٹ ورک کے ذریعے انہوں نے صوبہ خان کی حب الوطنی، حوصلے اور جرات کو توڑنا چاہا میزان چوک کوئٹہ میں جب بم دھماکہ ہوا تو اس دھماکہ کا اہم ٹارگٹ صوبہ خان تھا معصوم شہریوں کی کئی لاشیں گریں مگر صوبہ خان بچ گیا اس کا چہرہ اور ہاتھ جھلس چکے تھے اسکی گردن پر کاری زخم آیا صوبہ خان کا مضبوط حوصلہ یہا ں بھی دہشت گردوں کے ارادوں کو شکست دے گیا زخمی ہونے کے باوجود چیتھڑہ چیتھڑہ افراد کی لاشیں اسکی مضبوط باہیں اٹھا رہی تھیں۔

صوبہ خان گائوں آیا تو احباب کا موقف تھا اب سروس کو خیر باد کہہ دوحالات اب اجازت نہیں دیتے صوبہ خان کا جواب تھا میں اب واپس نہیں آسکتا جب تک بلوچ پنجاب کو اپنا بھائی نہیں سمجھ لیتا میں ان نوجوانوں کو چھوڑنا نہیں چاہتا جن کے ٹوٹے ہوئے حوصلوں کو میں نے جوڑا ہے جو ملکی دفاع کی خاطر اپنے گھر سے سینکڑوں میل دور اپنے لہو کا خراج ادا کر رہے ہیں۔

٤جون ٢٠٠٩کا سورج طلوع ہواتو بلوچستان کے ساتھ صوبہ خان کی شکل میں پنجاب کی ٢٠سالہ رفاقت ٹوٹ گئی دہشت گردوں نے صوبہ خان کو شہید کر دیا پیشین سٹاپ پر پنجاب کا لہو بلوچستان کی سالمیت کیلئے بہہ رہا تھا شہید صوبہ خان کی لاش نے جب بلوچستان کی سرحد عبور کی تو ایسا لگ رہا تھا جیسے سارا پنجاب رو رہا ہے۔

جب نواب اکبر بگٹی کی لاش گری توصوبہ خان نے مجھے کہا تھا یہ نواب اکبر بگٹی کی لاش نہیں گری یہ ملکی سالمیت اور استحکام کی لاش گری ہے بلوچستان سے مزدوری کر کے واپس لوٹنے والے پنجاب کے مزدوروں کو جب پہاڑی گزرگاہوں کے درمیان گاڑیوں سے اُتار کر موت کے گھاٹ اُتار کر اِس موت کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی کے افراد جب قبول کرتے ہیں تو مجھے صوبہ خان کا سچ یاد آتا ہے سابق رکن بلوچستان اسمبلی بختیار ڈومکی، نواب اکبر بگٹی کی پوتی، براہمداخ کی بہن کی لاشیں گریں، طلال اکبر بگٹی نے پریس کانفرنس میں کہا کہ بلوچستان میں بنگلہ دیش جیسے حالات پیدا کیئے جا رہے ہیں، قصر سفید سے بلوچستان کی آزادی کی آواز آئی تو مجھے صوبہ خان یاد آیا۔

M.R. Malik

M.R. Malik

تحریر : ایم آر ملک