ناوالنی کو سزائے قید: عالمی لیڈروں کی طرف سے مذمت، روس کی جوابی مذمت

Protest

Protest

روس (اصل میڈیا ڈیسک) عالمی رہنماؤں نے روسی اپوزیشن رہنما الیکسی ناوالنی کو سنائی گئی تین سال کی سزائے قید کی سخت مذمت کی ہے جبکہ روس نے اسے اپنے داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے اس مذمت کی ملامت کی ہے۔

بین الاقوامی برادری کی طرف سے روسی صدر پوٹن کے ناقد کو سنائی گئی سزائے قید پر سخت احتجاج کرتے ہوئے ناوالنی کی رہائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ماسکو نے اس پر اپنے رد عمل میں روس کے داخلی معاملات میں مداخلت سے باز رہنے کا مطالبہ کیا ہے۔

روسی حزب اختلاف کے رہنما الیکسی ناوالنی کی فوری رہائی کے عالمی مطالبات میں آج بدھ کے روز شامل ہونے والا ایک اہم ملک آسٹریلیا تھا۔ آسٹریلیا کی خاتون وزیر خارجہ ماریس پین نے کہا کہ وہ 44 سالہ ناوالنی کی گرفتاری اور ان کے لیے سزائے قید کے اعلان سے گہری تشویش کا شکار ہو گئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ”ہم ناوالنی کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘‘ ماریس پین نے گزشتہ چند ہفتوں سے زیر حراست پرامن روسی مظاہرین اور صحافیوں کے ساتھ کریملن کے ناروا سلوک پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔

پیر کو ناوالنی کو معطل سزائے قید کی بنیادی شرائط کی خلاف ورزی کا مرتکب ہونے کے نتیجے میں ساڑھے تین سال کی قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ تاہم وہ دو سال اور آٹھ ماہ قید کاٹیں گے کیونکہ وہ کچھ عرصہ گھر پر نظر بند بھی رہے ہیں۔ ناوالنی نے اپنے خلاف چلائے گئے مقدمے کو عوام کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش قرار دیا ہے۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ناوالنی کے خلاف عدالتی فیصلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس پر کڑی تنقید کی ہے۔ ساتھ ہی میرکل نے روس میں پرامن مظاہرین پر تشدد کے خاتمے کا مطالبہ بھی کیا۔ میرکل کے ایک ترجمان نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں لکھا، ”الیکسی ناوالنی کے خلاف فیصلہ قانونی اصولوں کے معیارات سے ماورا ہے۔ مظاہرین کے خلاف تشدد بند کیا جانا چاہیے۔‘‘ ادھر جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے بھی اس فیصلے کو ‘روس میں بنیادی آزادی اور قانون کی حکمرانی کو لگنے والا دھچکا‘ قرار دیا ہے۔

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے بھی ناوالنی کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے ان کو سنائی گئی سزائے قید کے فیصلے کو ‘خالص بزدلی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے سے روس نے ‘انصاف کے بنیادی معیار کو پامال‘ کیا ہے۔

برطانوی وزیر خارجہ ڈومینیک راب نے ایک بیان میں کہا، ”روس کے گمراہ کُن حکمران نے زہر دینے کی کوشش کرنے والے کی بجائے زہر آلودگی کا نشانہ بننے والے ہی کو سزا دے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ روس بین الاقوامی برادری کے کسی بھی ذمہ دار رکن ملک سے متوقع بنیادی اصولوں اور وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے۔‘‘

اختلاف کبھی بھی جرم نہیں ہوتا۔ ہم ناوالنی کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جمہوری آزادی جیسے انسانی حق پر کوئی سودے بازی نہیں ہو سکتی۔‘‘

یورپی کونسل کے صدر شارل مشیل نے کہا ہے کہ یورپی یونین اس فیصلے کو تسلیم نہیں کرے گی۔ ان کا کہنا تھا، ”ہم اس فیصلے کو رد کرتے ہیں۔ انصاف کو سیاست نہیں بنایا جانا چاہیے۔‘‘ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ”مظاہرین کو پرامن احتجاج اور اپنے سیاسی خیالات کے اظہار کا حق حاصل ہے۔‘‘

امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے روس پر زور دیا ہے کہ وہ ناوالنی اور ان کے حق میں مظاہرے کرنے والوں کو رہا کرے۔ انہوں نے کہا، ”ہم روسی حکومت سے ناوالنی کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کرنے کے ساتھ ساتھ حالیہ دنوں میں اپنے خیالات کے اظہار کے حق کا استعمال کرنے والے سینکڑوں روسی باشندوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔‘‘

ایک روسی نیوز چینل کو بیان دیتے ہوئے روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زخارووا نے عالمی برادری کو روس کے داخلی معاملات میں مداخلت نا کرنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا، ”گزشتہ چند ہفتوں سے ہمیں تبصروں اور بیان بازیوں کی صورت میں حملے کا سامنا ہے۔ آپ کو ایک خود مختار ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے اور ہمارا مشورہ یہ ہے کہ ہر کوئی اپنے معاملات سے کام رکھے۔ ان تمام ممالک میں گوناگوں مسائل موجود ہیں، ان کے پاس کرنے کو بہت کچھ ہے۔‘‘