نیا پاکستان یا پرانا پاکستان

Pakistan

Pakistan

تحریر : لقمان اسد
نئے پاکستان کا نعرہ کیونکر بلند ہوا اور ایسا کیا تھا ہمارے پرانے پاکستان میں کہ ملک کے اندر ایک نئے پاکستان کا تصور اُبھرا ۔شاید اس لئے کہ اب پرانا پاکستان نصف صدی کی عمر کراس کر چکا ہے اور طرح طرح کے مرض اس بوڑھے پاکستان کو موروثی سیاست کی طرف سے لاحق ہوئے۔کچھ مرض اس حد تک بگڑے اور بگاڑے جا چکے ہیں کہ جن کا علاج پرانے چارہ گروں سے گویا اب ممکن نہیں رہا ۔اُس وقت نئے پاکستان کا قیام ناگزیر محسوس ہوتا ہے جس وقت کوئی بھی محب وطن پاکستانی ایک گہری نظر سے پرانے پاکستان میں تباہ ہوتے انفراسٹرکچر، اداروں اور اُن کی تباہی کے ذمہ داروں کو دیکھتا ہے وہ ایک گہرے صدمے سے دوچار ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ایسے نظام اور ایسے نظام کو چلانے والے افراد سے جتنا جلد ممکن ہو چھٹکارا حاصل ہو اور ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھی جائے۔

قارئین !ہمارے وزیروں ،مشیروں کے اکثر ایسے کلمات اور جملے اخبارات کی زینت بنتے ہیں کہ ہمارے سیاسی قائدین کے یا ہمارے کاروبار ملک کے اندر ہی ہیں اور ملکی معیشت میں وہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ان صاحبان سے کوئی پوچھے نام نہاد جمہوریت کی صنعت میں قدم رکھنے سے پہلے انکے کتنے کارخانے ،ملز اور اثاثے تھے اور وزیر ،مشیر یا ایم این اے ،ایم پی اے بننے کے بعد اب کس کس ملک میں جناب کے فائیو سٹار ہوٹلز ،کارخانے ،مارکیٹیں ، کاروباراور صنعتی ایمپائرز ہیں۔ خود آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف کا محض مالی اعتبار سے موازنہ کیا جائے اُس دور سے کہ جب وہ پاکستانی سیاست سے دور تھے اور اُن کے پاس اقتدار نہ تھا اور اُس دور کا کہ جب وہ اقتدار کی دنیا میں داخل ہوئے ،ملک کے اہم عہدوں پر بر اجمان ہوئے تب اُن کے اثاثوں میں کتنا اور کس قدر تیزی سے اضافہ ہوا۔

میاں صاحبان سے وابستہ یا منسلک ایک مہران بنک سکینڈل کو ہی دیکھ لیں یا اب حال ہی میں آنے والے عدالتی فیصلے نے جو قلعی کھولی کہ تین ارب جو ایک بنک سے میاں صاحبان لے چکے تھے عدالت نے فیصلہ دیا کہ برائے مہربانی وہ تین ارب جمع کرائیں۔ گو میاں صاحبان کیلئے اقتدار کے دنوں میں یہ تین ارب اب سود سمیت بھی جمع کرانا کوئی مسئلہ نہیں لیکن ایسے عوامل ،کردار یا طرز عمل اور وہ بھی ایک پارٹی لیڈر شپ اور ملک کے تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے والی شخصیت کا ہو تو پھر کیا ان حالات و واقعات کے پس منظر میں ایک نئے پاکستان کا تصور دم توڑ سکتا ہے؟ اس سے ملتا جلتا حال احوال پاکستان کی ایک اور بڑی سیاسی اور سٹیٹس کو کی حامل جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ لیڈر شپ کا بھی ہے جس سے منسوب سوئس بنک سیکنڈل ہی کافی ہے۔

Money

Money

بات کرنے کی یہ ہے کہ یہ تو تذکرہ ہے صاحبانِ اقتدار کا جو ملک کو سدھارنے کے عزائم لیکر سیاست کی راہ پر چلے جن کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان میں انقلاب کیلئے اور جمہوری انقلاب کیلئے جدوجہد کررہے ہیں لہذا اسی جرم کی پاداش میں انہیں جلاوطنیاں جھیلنا پڑتی ہیں اور پابند سلاسل ہونا پڑتا ہے مگر حیرت اس وقت ہوتی جب یہ صاحبان بنکوں سے بھاری بھرکم قرضے لیکر معاف کروالیتے ہیں یا تب تک جمع نہیں کرواتے جب تک عدالتی حکم ان کے خلاف جاری نہ ہو، یہ صاحبان اس قدر مالیاتی سکینڈلزمیں ملوث پائے جاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

یہی حال پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم کے سربراہان چوہدری برادران کا بھی ہے ان کے حوالے سے بھی کئی سکینڈل سامنے آچکے ،متحدہ کے قائد الطاف بھائی کی کہانی بھی بڑی پراسرار ہے۔قارئین! یہ تو وہ شخصیات ہیں جو ہمارے ملک میں بڑی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہیں تو ان کے نیچے ان کے وزیروں کی موج مستیوں کا اندازہ آپ خود ہی کرلیں،کہ ان سے پوچھ گچھ کرنے والی سرکاریں تو خود اسی کاروبار میں ہاتھ رنگتی نظر آتی ہیں تواب ان کا احتساب کون کرے گا۔پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے والے ادارے پاکستان ایئر لائنز،پاکستان سٹیل ملز اور پاکستان ریلوے اب اس قدر زبوں حالی کا شکار ہیں کہ اربوں روپے سالانہ نقصان میں جارہے ہیں اور جو میاں صاحبان کا محبوب مشغلہ بھی ہے ”شغل نجکاری”کے قریب ہیں ۔جگہ جگہ بیٹھے کمیشن مافیازمگرمچھوں کی طرح ہر ادارے کو ہڑپ کرنے میں مصروف ہیں اور ان کو نہ تو کسی احتساب کا ڈر ہے اور نہ کسی عدالتی کاروائی کا خوف۔

نئے پاکستان کی آواز بلند کرنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف اقتدار میں آئے یا نہ آئے لیکن اب پاکستانی عوام نئے پاکستان کے قیام کو ناگزیر سمجھتے ہیں اور ہرسُو گو نواز گو اور گو زرداری گوکا نعرہ سن کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے عرصہ ہائے دراز سے محرومیوں کی دلدل میں دھنسی اور جعلی لیڈر شپ کے پرفریب نعروں سے ڈسی پاکستانی قوم کو امید کی کوئی تازہ کرن نظر آنے لگی ہے، اب وہ یہ فیصلہ کرچکی ہے کہ اپنے حقوق پر شب خون مارنے والوں کو مزید وہ نہ وقت دے سکتے ہیں اور نہ برداشت کرسکتے ہیںگویا نئے پاکستان کا حصول اُن کی منطقی منزل ہے اور30نومبر کو شاید یہی ہونے جا رہا ہے۔

Luqman Asad

Luqman Asad

تحریر : لقمان اسد