تکمیلِ ذات

Books

Books

تحریر : نگہت سہیل
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہیں

انسان کی زندگی ہر قدم پے ترقی کی منازل طے کرتی ہے وہ نہ صرف بہت کچھ سیکھتا ہے٬ بلکہ اپنے سوچ و فکر کے ذریعہ اپنی زندگی کو بہتر بھی بناتا ہے٬ جوں جوں زندگی ارتقائی منازل طے کرتی ہے٬ انسان کے ذہن کو جِلا ملتی ہے۔

اس کی زندگی میں آنے والے انسان واقعات ان سے حاصل شدہ تجربات تغیر پزیری میں اہم کردار ادا کرتے ہیں٬ ایسا ہی کچھ میرے ساتھ بھی ہے٬ زمانہ طالبعلمی سے مطالعے کی بہت شوقین رہی ہوں ٬ جب چھوٹی جماعت میں تھی تو اپنی خالی پھوپھو کی کتابوں سے استفادہ حاصل کرتی تھی اور جو سمجھ نہیں آتا تھا ان سے سوال کرتی تھی٬۔

مُطالعے کا شوق مجھے لائبریری تک لے جاتا یوں ادب سے جان پہچان ہوئی تو وابستگی دن بدن بڑھتی گئی٬ کالج کے زمانے میں مستنصر حسین تارڈ بانو قدسیہ اور کرشن چندر پسندیدہ ناول نگار رہے ٬ شاعری میں اقبال غالب فیض اور تمام وہ شعراء جنہوں نے اردو ترویج و ترقی میں اہم کردار ادا کیا زیر مُطالعہ رہے٬ اس کے بعد درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہوا توقرآن کے ترجمہ و تفسیر نے آنکھیں کھول دیں٬ شعبہ کیونکہ ادب ہی رہا ٬ اسی لئے زندگی میں کبھی حدِ ادب کو عبور نہیں کیا٬ پھر یوں ہوا کہ شادی ہو گئی ٬ مجھے پیرس آنا پڑا شوہر ِ نامدار زیادہ باذوق نہیں تھے۔

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

اس لئے کچھ عرصہ کیلیے میں بھی مُطالعے سے دور رہی٬ یورپ میں آ کر مصروفیت کچھ ایسی بڑہی کہ اکثر تنہائی میں میں یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتی کہ میرے ذہن کو زنگ تو نہیں لگ رہا ٬ ایک بار تو پاکستانی ایمبیسی میں بھی میں نے لائبریری کی فرمائش کر ڈالی ٬ جو تاحال پوری نہیں ہوئی ٬ جیسا کہ میں نے کہا کہ انسان کی زندگی میں آنے والا ہر انسان تبدیلی لاتا ہے٬ یہی میرے ساتھ ہوا٬۔

تقریبا 13 سال بعد مجھے وہ لوگ ملے جنہوں نے میری پوشیدہ خوبیوں کو جانچ لیا اور مجھے بصد اِصرار کیا ٬ ان میں سرِ فہرست شاہ بانو میر ممتاز ملک ہیں اور وقار النساء نگہت احمد یہ لوگ میرء لئے مثِلِ صندل ہی جب ہم اکٹھی ہوتی ہیں تو گویا مجھے ان کی گفتگو سے خوشبو کا احساس محسوس ہوتا ہے٬ اب میرے لیے لکھنا نا گزیر ہوگیا ہے کیونکہ عرصہ دراز سے یہ میری وہ خوابیدہ خواہش تھی جو اب مکمل ہو گئی ٬ دوسری مُلاقات میں”” بانو جی”” نے مجھے دُرِّ مکنون کا تحفہ پیش کیا۔

تجسس کے مارے میں نے وہیں اس کو کھول کر پڑھنا اور دیکھنا شروع کر دیا٬ اور مجھے اس میں وہ سب ملا جو یورپ میں مقیم پاکستانی خواتین کی ذہنی ادبی روحانی نفسیاتی حس کو جِلا بخشتا ہے ٬٬ مذہبی معاشرتی جدید دور کے تقاضے بچوں کی دنیا اور شاعری سمیت وہ تمام لوازمات اپنے اندر سموئے ہوئے۔

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

دُرّ مکنون نے بِلآخر مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا اور یوں میرے لکھنے کا آغاز ہوا ٬ مختلف معاشرتی موضوعات پر آرٹیکلز لکھنے کے بعد اب شاہ بانو جی کے بیحد اِصرار پر ایک ناول چلے کہاں سے کا آغاز کر چکی ہوں٬ یہ ناول نہ صرف زندگی کے تغیرات اور واقعات پر مبنی ہوگا بلکہ اس کے اندر بہت سے معاشرتی مسائل کو بھی موضوع سُخن بنایا گیا ہے۔

میں سمھجتی ہوں کہ اس شاندار میگزین میں جو خزانہ موجود ہے اگر اس سے کسی ایک انسان کی بھی ذہنی سوچ مثبت ہو کر اصلاح ہو جاتی ہے تو یہ ہماری ٹیم کی بہترین کامیابی ہوگی اور ہمارے قلم کا اصل حق ادا ہو گا۔

تحریر : نگہت سہیل