نیوزی لینڈ انتخابات: جیسینڈا آرڈرن کی ’تاریخی جیت‘

Jacinda Ardern

Jacinda Ardern

نیوزی لینڈ (اصل میڈیا ڈیسک) نیوزی لینڈ کے پارلیمانی انتخابات میں وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن کی لیبر پارٹی نے واضح کامیابی حاصل کر لی ہے۔ یوں آرڈرن کے لیے دوسری مرتبہ بھی وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔

اس مرتبہ کے انتخابات میں آرڈرن کا مقابلہ دائیں بازو کی قدامت پسند رہنما جوڈتھ کولنز سے تھا۔ تاہم کولنز کی جماعت لیبر پارٹی سے 27 فیصد نشستیں حاصل کر پائی۔ لیبر پارٹی نے قریب 50 فیصد نشستیں حاصل کی ہیں۔
ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمان میں بائیں بازو کے اتحاد کو واضح اکثریت حاصل ہوئی ہے۔

قبل ازیں نیوزی لینڈ میں عام انتخابات کے لیے سنیچر 17 اکتوبر کی صبح مقامی وقت کے مطابق نو بجے پولنگ مراکز کھولے گئے اور لوگ بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے نکلے تھے۔ ملک میں تقریبا 35 لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز ہیں جن میں سے تقریباﹰ نصف رائے دہندگان اپنا ووٹ پہلے ہی ڈال چکے تھے۔

کورونا وائرس کی وجہ سے یہ انتخابات تقریباﹰ ایک ماہ کی تاخیر سے ہورہے ہیں۔ طے شدہ پروگرام کے تحت عام انتخابات کے لیے 19 ستمبر کو ووٹنگ ہونا تھی تاہم کووڈ 19 کی وجہ سے انہیں 17 اکتوبر تک کے لیے مؤخر کردیا گيا تھا۔

وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن دوسری بار تین برس کی معیاد کے لیے ملک کی قیادت سنبھالنے کے مقصد سے میدان میں اتری تھیں جبکہ ان کا مقابلہ اپوزیشن ‘نیشنل پارٹی‘ کی رہنما جوڈتھ کولنز سے تھا۔ پولنگ سے پہلے کے مختلف جائزوں میں بتا دیا گیا تھا کہ آرڈرن کی جماعت لیبر پارٹی انتخابات میں دوبارہ کامیاب ہو جائے گی۔

حکومت سازی کے لیے پارلیمان کی 61 نشستوں پر کامیابی ضروری ہوتی ہے ورنہ اکثریت نہ ملنے کی صورت میں دوسری جماعتوں کے ساتھ ملکر مخلوط حکومت بنانا پڑتی ہے۔ ملک میں سن 1996 میں پارلیمانی طرز حکومت کو اپنایا گيا او اس وقت سے اب تک کسی بھی جماعت کو انتخابات میں واضح اکثریت نہیں حاصل ہوئی ہے۔ تاہم لیبر پارٹی پہلی مرتبہ ایسا کرنے میں بھی کامیاب رہی ہے۔

نیوزی لینڈ میں قانون کے مطابق پولنگ کے دوران میڈیا کوریج اور سیاسی اشتہارات پر مکمل پابندی عائد ہے۔ پولنگ کے بعد ایگزٹ پول کی بھی اجازت نہیں ہے اس طرح ووٹنگ مکمل ہونے پر گنتی کے بعد ہی نتائج آنا شروع ہوتے ہیں۔

بھنگ اور ایتھنیزیا پر ریفرنڈم
40 سالہ وزیر اعظم جسینڈا آرڈرن کی جانب سے کورونا وائرس کی وبا اور کرائسٹ چرچ کی مسجد میں فائرنگ جیسے واقعات سے نمٹنے کی کوششوں کو کافی سراہا گيا ہے۔ لیکن 61 سالہ حزب اختلاف کی رہنما جوڈتھ کولنز کا کہنا ہے کہ ایسے وقت جب وبا کے خطرات کے سائے میں ملک معاشی مندی کی مار جھیل رہا ہے، وہ ملک کو بہتر سمت میں لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

ان انتخابات کے ساتھ ملک میں گانجے یا بھنگ کے استعمال اور ایتھنیزیا (یعنی لا علاج بیماری کی صورت مریض کی خواہش کے مطابق نجات دینے کے لیے مریض کو آرام کی موت دینے) پر قانون بنانے کے حوالے سے بھی ریفرنڈم کرایا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ برس ایک ایکٹ پاس کیا گيا تھا اور اب عوام سے پوچھا گيا ہے کہ کیا اسے قانون بننا چاہیے یا نہیں۔ اس ریفرنڈم کے نتائج 30 اکتوبر سے پہلے نہیں جاری کیے جائیں گے۔