کیوں اپوزیشن کی جماعتیں حکومت کے لئے بال توڑ کا پھوڑا بن گئیں ہیں

Opposition Parties

Opposition Parties

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم

آج تقریبا پندرہ ،بیس دن بعد اپنے پڑھنے والوں سے رابطے کا پھر سے موقعہ مل رہاہے۔ ناغے کی وجہ یہ رہی کہ بال توڑ کے باعث پیدا ہونے والے پھوڑے کی تکلیف اور بخار نے گھیررکھا تھا ۔جس کی وجہ سے کالم لکھنے سے قاصر رہا ،اَب الحمدللہ ، ربِ کائنات اللہ رب العزت کے فضل و کرم سے میری طبیعت میں ایسے ہی بہتری پیداہورہی ہے۔ جیسے کہ کوئی (اَب اپوزیشن والے کچھ بھی کہیں مگر بات اصل میں یہ ہے کہ) ہماری موجودہ حکومت میں معاشی ترقی میں استحکام آرہاہے۔ خیرجی ، جیسے ہی میری طبیعت نے اجازت دی ۔ آج پھر سے اپنے قارئین کے لئے نئے کالم کے ساتھ حاضرِ خدمت ہوں۔

اِس سے اِنکارنہیں ہے کہ آج حکومت کے لئے اپوزیشن جماعتیں بال توڑ سے پیدا ہونے والاپھوڑابنی ہوئیں ہیں۔ جن کا وجودوقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کے لئے باعث تکلیف بنتاجارہاہے، وہ حضرات بال توڑ پھوڑے کی تکلیف سے اچھی طرح واقف ہوں گے جو اِس کی وجہ سے پہنچنے والی تکلیف سے گزر چکے ہیں(جیسا کہ میں پچھلے دِنوںگزرا ہوں) ۔آخر حکومت اپوزیشن کی تکلیف کو کب تک برداشت کرے گی اِسے حزب اختلاف سے پیدا ہونے والی تکلیف اورپریشانیوں سے نجات کے لئے قانونی راستہ تو اپنانا ہی پڑے گا جس کے لئے حکومت نے اپنی مکمل تیاری کرلی ہے بہت جلد حوصلہ افزا پیش رفت سامنے آنے والی ہے۔

بہرکیف، اچھی بھلی سات ، آٹھ ماہ کی حکومت کے لئے اپوزیشن نے اپنے وجود کا احساس انتہائی تکلیف دے سیاسی رویئے کو اپنا کر باور کرانے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے ، جس پر مجھ جیسا ایک عام اور سادہ پاکستانی شہری یہ سوال کئے بغیر نہیں رہ سکا ہے کہ” کیوں اپوزیشن کی جماعتیں( ن لیگ، پی پی پی اور دونوں جماعتوں کی لاڈلی لے پلک جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف))حکومت کے لئے بال توڑ کا پھوڑابنی ہوئیں ہیں؟ “جو حکومت کے قیام کے اول روز سے ہی اِس کی راہ میں کانٹے بچھانے ، بات بے بات ٹانگیں آڑانے ، روڑے اٹکانے، بیجاتنقیدوں کے نشتر چلانے، لات مار کر حکومت گرانے اور حکومت کو بہت برداشت کرلیا جیسے دھمکی آمیز انارگی پھیلانے والے بیانات اور خطابات سے یہ سمجھتی ہیں کہ اِس طرح یہ جمہوریت کی اُوٹ سے مثبت سیاست کررہی ہیں۔ تو اے !میری اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والوں موقعہ پرستوں ، مُلک اور قوم کو لوٹ کھانے والوں مفادپرستوں ، بہروپیوں، ایسا نہیں ہے۔ جو تم سمجھ رہے ہو، بات اصل میں یہ ہے کہ عوام تمہارے گھناو ¿نے اور مکروہ چہروں پر چڑھے نقاب کو سمجھ چکے ہیں ۔ تمہاری سیاست جمہوریت کا نام لے لے کر صرف اور صرف اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ تمہیں نہ کبھی مُلک اور قوم کی بقاءاور سلامتی سے کوئی مطلب رہاہے اور نہ ہی آج تم قوم کی بہتری کے خیر خواہ ہو، تم تو بس اپنے ذاتی ، سیاسی اور کاروباری مفادات کے لئے حکمرانی کی مسند پر سوار ہوتے ہواور اِسی طرح پھر آج اپنے آپ کو کسی کڑے احتساب سے بچانے کے لئے نکل پڑے ہو ،ورنہ تمہاری نظر میں تو مُلک اپنے پرائے سے سود پر قرضے لے کر تمہارے لئے دولت پیدا کرنے کی بھٹی اور اِس کے 22کروڑعوام کی حیثیت کیڑے مکوڑے جیسی ہے۔

پچھلے دِنوں جب سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹرپر وزیراعظم عمران خان نے امیر اور غریب کے لئے الگ الگ قانون سے متعلق ٹویٹ کرتے ہوئے حضورﷺ کا فرمان لکھ کر یہ کیا شیئرکیا ” حضورﷺ کا فرمان ہے کہ نا انصافیوں کی وجہ سے کئی قومیں تباہ ہوئیں، “ گویا کہ اپوزیشن والے آگ بگولہ ہوگئے ۔ جب کہ اپنے ٹویٹر پیغام میں وزیراعظم عمران خان نے صرف یہی تو لکھا تھاکہ” آپ ﷺ کا واضح فرمان موجود ہے کہ تباہی کی وجہ طاقتور اور کمزور کے لئے الگ الگ قانون تھا“ جس کے بعد اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی قومی کرپٹ سیاسی جماعتیں اپنے دردناک انجام سے خوفزدہ ہوکراَب کھلم کھلا طور پر اپنے بچاو ¿ کے خاطر جمہوریت بچاو ¿ کا لبادہ اُوڑھ کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہورہی ہیں،سارے قومی چور گردنیں تان کر ، سینہ پھولا کر ، آستینیں چڑھا کر ہاتھوں کی زنجیر بنا کر حکومت پر دباو ¿ بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہیں تاکہ حکومت اِن کے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے اور مُلکی اور قومی معیشت کا ستیاناس کرنے والے سیاہ کرتوتوں کا احتساب اداروں سے احتساب کرانے سے باز آجائے۔

آج بیشک اِسی بنیادپر تب ہی قومی لٹیروں کی بغل بچہ پارٹی جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اپنی ایک پریس کانفرنس میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن کر یہ کہہ چکے ہیں کہ” ہم نے حکومت گرانے کا فیصلہ کرلیا اِنہوں نے جو کرناہے کرلیں، جعلی مینڈیٹ اور جعلی وزیراعظم ملک و عوام کے لئے عذاب بن چکے ہیں ، نیب انتقامی ارادہ ہے “ اِس پریس کانفرنس میں حکومت سے ازلی خائف مولانا فضل الرحمن نے اور کیا کچھ نہیں کہا جس کا راقم الحرف تذکرہ کرنا مناسب نہیں سمجھتاہے بس ایسے حکومت مخالف اپوزیشن کے تعلق رکھنے والے چیلے چانٹوں کے لئے یہی کافی ہے کہ اِن جیسے بہت سے لوگوں کے لئے احتساب کا شکنجہ تنگ سے تنگ ہوتا جارہاہے عنقریب شکار صیاد کے جال میںہو کر اپنے سیاہ کرتوتوں کے ساتھ اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچنے والے ہیں بس اِن سمیت قوم کی انتظار کی گھڑیاں جلد ختم ہونے والی ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام (ف) سمیت دیگر اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے مُلک اور قوم کی ترقی اور خوشحالی کے ساتھ واقعی مخلص ہیں تو پھر یہ حکومت مخالف تحاریک چلانے کا ارادہ کرنے کے بجائے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے نیب میں پیش ہوجائیں تاکہ دودہ کا دودہ پانی کا پانی ہوجائے ، آج اگر بانی پاکستان مسلم لیگ (ن) نوازشریف اور اِن کے بھائی شہبازشریف ، حمزہ شہباز اور دیگر سمیت پاکستان پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری ، فریال تالپور، بلاول زرداری اور اِسی طرح دوسری اپوزیشن جماعتیں اپنے احتساب سے بھاگ کر مُلک میں لاقانونیت اور انارگی کوپھیلاناچاہتی ہیںتو اِس سے عوام پر یہ واضح تاثر جائے گا کہ دال میں ضرور کچھ کالاہے کیا ؟ بلکہ پوری ہانڈی ہی کالی ہے۔سو ، اَب لازمی ہے کہ جن اپوزیشن جماعتوں کے سربراہان اور اِن کے چیلے چانٹوں کے گرد نیب اور احتساب کے قومی اداروں نے شکنجہ سخت کرکے تنگ کررکھاہے۔ اَب وہ بغیر کیسی بیماری کی حیلہ بازی،حیلہ سازی، حیلہ گری ،حیلہ جوئی عدالتوں میں خاموشی سے پیش ہوجائیں ۔ اِن کی آئندہ کی سیاست کے لئے جو عوام کی نظر میں اچھا عمل ہوگا۔ورنہ، سیاست دانوں کی موجودہ ہٹ دھرمی سے اچھی طرح سے واقف پاکستانی عوام یہی سمجھیں کہ یہ مُلک میں اپنے بچاو ¿ کے لئے اشتعال انگیزی اور انارگی کو ہوانے دینے والے سیاست دان ہی اصل میں قومی لٹیرے اور قومی چور ہیں جس کا وزیراعظم عمران خان باربار اپنے جلسوں ، اور اجلاسوں میں تذکرہ کرتے ہیں، پھر سوچ لیں،قومی لٹیرے عدالتوں کا سا منہ کرتے ہیںیا؟(ختم شُد)

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم

azamazimazam@gmail.com