خواتین پر تشدد لمحہ فکریہ

Violence Against Women

Violence Against Women

تحریر:عینی نیازی
سمن باد کی ایک صبح کا منظر تھا جب ایک ماں اپنے بچوں کو اسکول پہنچانے جا رہی تھی اس خاتون نے کچھ عر صے قبل ہی اپنے ظالم شوہر سے روز روز کی مار پیٹ سے تنگ آکر علیحدگی حا صل کی تھی اب اپنے بچوں کے ساتھ پر سکون زندگی گزارنا چا ہتی تھی وہ ان کی اچھی تعلیم و تر بیت پر توجہ رکھنا چا ہتی تھی اسی لئے وہ انھیں صبح سویرے اسکول چھوڑنے آئی تھی لیکن اس کے سا بقہ شوہر کو اس کی یہ آزادی ایک آنکھ نہ بھا ئی تھی حسد وانا کی آگ میں جلتے اس نے تیزاب کی بھری بو تل اس پر انڈیل دی یہ وا قعہ کسی دوردراز گا ئوں دیہات کے جا ہل دہقان کے ہا تھوں نہیں پیش آیا بلکہ شہری علا قے میں رہنے والے کے ہا تھوں انجام پا یا اس قسم کے در جنوں واقعات ہما رے معا شرے کا حصہ ہیں

وہ بد نصیب لڑکیا ںو خواتین جو زندہ در گو ر ہو جا تی ہیں ان میں وہ بھی شا مل ہیں جن کے اپنے قریبی رشتے بطور سزا نا ک کا ٹ دیتے اور انھیں سا ری زندگی منہ چھپا کر جینا پڑتا ہی۔ ایک جا نب ہما رے سماج میں شدت پرست افراد ہما رے معا شرے کا ناسور ہے وہاں چند قا بل ستا ئش ا فراد بھی ہیں جو ان خوا تین کے زخموں پر ہر ممکن مر ہم رکھنے کی کو شش کر تی ہیں ایسے ہی ایک بیوٹی پا رلر کی با ت میں یہاں کر نا چا ہوں گی اس پا رلر کی خاص بات یہ ہے کہ وہاں کی ما ہر حسن وہ لڑ کیاں ہیں جن کے چہرے بھیا نک انداز میں جلے ہوئے ہیں

جنھیں معاشرے کے انا پر ست بیما ر ذہنیت مردوں نے اپنی بدلے کی بھیٹ چڑھا دیا تھا تیزاب اور جلا ئے جا نے والی ان لڑکیوں کا کو ئی پر سان حال نہیں وہ اپنے جلے ہو ئے چہروں کے سا تھ زندگی کو کس طرح انجوائے کر سکتی ہیں کہ نہ کو ئی ذریعہ معا ش ہے نہ کو ئی پنا ہ ! بیوٹی پا رلر کی اونر مسرت مصباح نے اس نیک کا م کا بیڑ ہ اٹھا یا وہ قابل تعریف ہیں کہ معا شرے کی ستا ئی ہو ئی ان بے سہا رالڑ کیوں کے روز گا ر اور علا ج کا نتظام کر تی ہیں۔ ہما رے معا شرے میں خواتین پر تشدد اور تیزاب پھینکنے کے وا قعات عام ہو تے جا رہے ہیں افسوس کی بات تو یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے کو ئی سخت اقداما ت نظر نہیں آتے ۔ پا کستا ن میں 2009ء کی نسبت010 ء میں خوا تین پر جبر تشدد کے وا قعات میں زیادہ اضا فہ ہو ا ہے 2013 ئکیسما جی سروے کے مطا بق پا کستان دنیا بھر میں خوا تین کے یشدد کے حوالے سے تیسرے نمبر پر ہے

جہاں گھری؛و تشدد کو شکار ہو نے والی عورتوں کا تنا سب نوے فی صد ہے یہ بھی بد قسمتی ہے کہ جو خواتین اس ظلم کا شکا ر ہو ئیں ان میں اکثریت کے کیس رجسٹرڈ ہی نہیں کیے جا تے کہیں بد نا می کے خوف سے تو کہیں اس ڈر سے کہ خوا مخواہ کی دشمنی ہو گی ملز م کو سزا نہیں ملتی وہ عدالت کے کٹہرے سے با عزت بر ی ہو کر وا پس آجا تا ہے ہما رے قا نونی قوا نین کمزور ہیں ایسی بہت ہی کم مثا لیں ہیںجو ملزم نے اپنے کیے کی سزا بھگتی ہو۔ ہیو من را ئٹس کمیشن آف پا کستا ن ایک ایسا ادارہ ہے جوحقو ق انسا نی سے محروم سماج میں محروم طبقے کے لیے انصاف کی آواز اٹھا تی ہے۔

جو مذہب رنگ نسل ،زبا ں اور علا قے کی تفریق کئے بنا ء سب کے حقوق کی با ت کر تی ہے یہ ادارہ 80ء کی دھا ئی میں قا ئم ہو ا۔اور 1990ء میںاس ادراے نے پا کستان میںاپنی سالا نہ رپو ٹوں کا دا ئرہ کا ر شروع کیا پا کستان میں انسانی حقوق خصوصا خوا تین پر تشدد کے واقعات پریہ رپو ٹیں کم صفحات پر مشتمل تھیں پھر ان میں اضا فہ ہو تا گیا ان رپوٹوں میں عمر بھر کے لیے معذور کئے جا نے ، جنسی تشد د ،اغو اء و زنا ،خو دکشی ،چولھا پھٹنے اور تیزاب سے جلا ئے جا نے کی دلخراش داستانیں شامل ہیں جس قدر بھیا نک احوال اس ضخیم رپوٹ کا ہے دل دہلا دینے کے لیے کا فی ہی۔یہ ہما رے مسلم معا شرے کی بے حسی اور سنگ دلی کا منہ بو لتا ثبوت ہے مسلم معا شرے میں یہ سب وہ لوگ کر تے ہیں جنھوں نے ا سلام کا کلمہ پڑ ھاہے

لیکن حجتہ لوداع کے پیا رے خطیبؐ کی بات بھول گئے جنھوںنے فر ما یا ’’لو گوں عورتوں کے معا ملے میںاللہ سے ڈرو وہ تمھا رے پا س خدا کی امانت ہیںپس تم ان سے نیک سلوک کرو تمھا را عورتوںپر اور عورتوں کا تم پر حق ہے ‘‘۔ عورتوں کو تعلیم کا حق دیا گیا لیکن شما لی علا قوں مین شدت پسند وں کے ہا تھوں لڑ کیوں کے تعلیم اداروں کو ایک سو چے سمجھے منصوبے کے تحت تحس نحس کیا جا رہا ہے ایسا لگتا ہے ہم قبل اسلا م کے زما نے میں داخل ہو گئے ہیںجب عورت دنیا میں با عث شرم وذلت اور گنا ہ سمجھی جا تی تھی ھندو مذہب میں ویدوں کی تعلیم کا ا دروازہ عورتوں کے لیے بند تھا وہ دا سی کہلا تی پتی ورتا اس کا دھرم تھا شوہر اس کا معبود اور دیو تا تھا یہو دیت اور عیسا ئیت میں عورت گنا ہ کی با نی سمجھی جا تی تھی

انھیں کسی مذہب میں کو ئی مقام نہیں حا صل تھا لا طینی امریکہ اور یو رپی مما لک میں خو اتین کو دوسرے درجے کا شہری ما ناجا تا تھا ان پر تشد اور جبر عام سی با ت تھی۔ قیام اقوام متحدہ نے جہا ں دنیا کے مسا ئل حل کر نے میں مدد دی وہاں انسانی حقوق کی تنظیمیں، ادارے قا ئم ہو ئے اقوام متحد ہ نی5نومبر کو خواتین پر تشدد کے خلا ف عالمی دن قرار دیا اس دن کے پس منظر تین بہنوں کاالمنا ک قتل تھا جن کا گنا ہ یہ تھا کہ انھوں نے اپنے ملک کے ایک ظالم و جابر آمر سے ٹکر لی 25 نومبر 960ء کو ڈومینکن ری پبلک کے آمر را فیل لیونڈیس مولینا(efael Leanidas Molina) نے مرابیل نا می چار بہنوں کو ان کی گستاخیوں کی سخت سزا دی ان کے خاندان کو کئی بار قید و بند کی صعو بیتں بر داشت کر ناپڑی آخر 25نومبر کو تین بہنوں کو بہیما نہ طریقے سے قتل کر دیا گیا

Pakistan

Pakistan

اس قتل سے پورے ملک میں غم وغصے کی آگ بڑھک اٹھی عوامی اجتجاج رنگ لا یا اور را فیل کو حکو مت چھوڑنا پڑی ڈومیکن ری پبلک کے نما ئندے نے 74ممالک کی حما یت کے سا تھ اقوام متحدہ میں قرار داد پیش کی اس دن کو خوا تین پر تشدد کے حوا لے سے منا نے کا اعلا ن ہو اڈو مینکن کے عوام نے ان بہنوں کی جدوجہدپر خراج تحسین پیش کیاانھیں ’’نا قابل فراموش تتلیاں ‘‘کے لقب سے یا دگا ر بنا دیا ۔ اقوام متحدہ کی رپوٹ کے مطا بق دنیا بھر میں 70 سے 80 فی صد خوا تین کو زندگی کے کسی مرحلے میں تشدد اور جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس میں پندرہ سے چا لیس سال کی عورتوں اور لڑکیوں کے لیے زنا اور گھریلوتشدد کے وا قعات میں زیا دہ اضافہ ہوا ہے۔

دیہی اور قبا ئلی علا قوں میں کا روکا ری کی رسم جا ری ہے ایک قبیلے کا دوسرے دشمن قبیلے سے خون بہا کے بدلے لڑکی کو ونی کر نے کا رواج ہے اس میں کو ئی قبا حت نہیں سمجھی جا تی کہ مرد کتنا بڑا ہے یا معذور ہے ایسے جرائم کو روکنے کے لیے قومی اسمبلی میں ایک قانون پا س کیا گیا ہے جس کے تحت زبر دستی کی شادی پر قید اور جرما نہ کی سزا ئیں رکھی گئی ہیں اگر یہ قابل عمل بھی ہو تو بہت اچھا فیصلہ ہے ۔کیونکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ طاقت ور اور کمزور کے لیے الگ الگ قانو ن کا دہرا نظام ہے

دیکھا جا ئے توعالمی حقوق انساں کی تنظیمیں بھی دہرا معیا اپنا ئے ہو ئے ہیں اس کی شر مناک مثال عا فیہ صد یقی کیس ہے اس عورت پر کیے گئے ظلم وستم کے خلا ف یہ تنظیمیں مجرما نہ خامو شی اپنا ئے ہو ئے ہیں قدرت کا نظام ہے کہ نیکی اور بدی آپس میں صف آرا رہی ہیں ان سب با توں کا روشن پہلو یہ ہے کہ خوا تین کو اپنے حقوق کی پہلے سے زیا دہ آگا ہی ہورہی ہے جن جرا ئم کی پہلے پردہ پو شی کی جا تی تھی اب کھل کر عوام کے سامنے آرہی ہیں یہ کا رنامہ کا فی حد تک ان دلیر صحا فیوں کے سر جا تا ہے۔

Violence

Violence

مختاراں ما ئی کیس ہو یا نصیر آبا داور خیر پور میں پیش آنے والے نا قابل یقین وا قعات ہو ں ان آوازوں نے ایوان با لا کو ہلا کر رکھ دیا اسی لئے ہر بڑا لیڈر اور صا حب اختیار ان سے نا لا ں نظر آتا ہے خواتین پر تشدد کے خلا ف جہا ں معا شرے میں درد مند دل رکھنے والے اپنا کر دار اداکر رہے ہیں وہاں عورت فا ونڈیشن و مسرت مصبا ح جیسی خوا تین بھی اپنی کو ششوں میں مصروف عمل ہیں کہ چھوٹی چھوٹی کو ششیں ہی بڑی تبدیلیوں کا با عث بنتی ہیں

تحریر:عینی نیازی