تحریر : انجینئر افتخار چودھری این اے ١٢٥ سے سعد رفیق کا مینڈیٹ جعلی قرار دے دیا گیا ہے۔وہ وفاقی وزیر ریلوے ہیں جس دن انہیں ہٹایا گیا حکومت نے اگلے دن انہیں مشیر وزیر داخلہ بنا دیا ہے۔اسے کہتے ہیں قومی ادروں کی بے تو قیری جواب دے دیا گیا کہ ہم الیکشن ٹربیونل تمہیں پائوں کی نوک پے رکھتے ہیں ۔برطانوی وزیر کو مستعفی ہونا پڑا کہ کسی زمانے میں اس نے ایک غیر قانونی طور پر مقیم شخص کو نوکر رکھا تھا۔ابھی ایوان میں ایزا صادق کو بھی نکلنے کی چٹھی ملنے والی ہے۔یعنی جس اسمبلی کا وزیر ریلوے جعلی ہو سپیکر جعلی ہو تو اسے جعلی اسمبلی کہنے میں ہرج ہی کیا ہے۔دوستو! انتحابات کسی بھی ملک کی زندگی کا رخ پلٹ دیتے ہیں۔پاکستان میں جو بھی انتحاب ہوئے اس سے ملک متآثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔پاکستان کی تاریخ کے پہلے انتحابات جو ١٩٧٠ میں ہوئے ان میں جھرلو تو نہ پھرا لیکن ان انتحابات کے نتائیج سے رو گردانی کی گئی جس کے نتیجے میں پاکستان ٹوٹا۔
مجھ سے نوجوان پوچھتے ہیں کہ پاکستان کس نے توڑا؟یقین کیجئے ہر مورخ کی اپنی ایک سوچ ہوتی ہے۔پہاڑ پر کھڑے ہونے والا شخص جو کچھ شمالی سمت میں کھڑا ہو کر دیکھتا ہے جنوبی سمت پر کھڑے کو شائد نظر نہ آئے۔ہر کوئی اپنی سوچ کے مطابق بات کرتا ہے۔مجھ سے بے شمار لوگ اختلاف کریں مگر جو سچ میں نے دیکھا سنا اور سمجھا اسے لکھ رہا ہوں۔میرے کالم میری ہڈ بیتی ہوتے ہیں میں وہ کالم نویس نہیں ہو جس نے پنڈی دیکھا نہیں اور آپ کو دیوار چین کی لمبائی چوڑائی بیان کرتا پھرے۔دیکھئے میں کیا کہہ رہا ہوں۔اسے اپنے ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ایوب کے خلاف تحریک میں بلکل حصہ نہیں لیا فقط ایک تعصب کی وجہ سے وہ تھا تعصب گرائیں ہونے کا تھا۔ ریحانہ نلہ سے بیس کلو میٹر دور ہے میں ہزارے وال ہوں جو پنجاب میں پلا بڑا۔جوانی صحرائے عرب میں لوٹا دی کھانسے لگا تو پاکستان پہنچ گیا۔پڑھئے سر دھنئے۔
ستر کے انتحابات کا زمانہ تھا۔ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر ہونے والے انتحابات کی وجہ سے عوام بڑا جوش و خروش پایا جاتا تھا۔آئے روز ہمارے شہر میں جلسے ہوا کرتے تھے زیادہ تر شیرانوالہ باغ یا پھر گھنٹہ گھر چوک میں ہوا کرتے تھے۔اس زمانے میں پرنٹ میڈیا چھایا ہوا تھا۔میرا رحجان شروع سے ہی بھٹو مخالف رہا ہے اس کی وجہ کوئی خاص نہیں۔ گا۔بس میں چ تھا جو بہر حال انسانی فطرت میں شامل ہے ہم کوئی بیس سال پہلے ہری پور ہزارہ سے معاشی ہجرت کر کے گجرانوالہ آئے تھے صدر ایوب خان ہمارے گائوں سے چند کلو میٹر دور ریحانہ سے تعلق رکھتے تھے۔جناب ذوالفقار علی بھٹو ان کی کابینہ کے ذہین و فطین وزیر تھے پھر پتہ نہیں تاشقند میں کیا ہوا بھٹو صاحب نے ایوب خان کی وزارت چھوڑ دی۔وہ ان کے خلاف ہو گئے تھوڑا عرصہ گزرا ایوب خان کو اقتتدار چھوڑنا پڑا یحی خان نے زمام اقتتدار سنبھالی اور عام انتحابات کا اعلان کر دیا۔
Election
انہی انتحابات کے سلسلے میں عوامی رابطہ مہم شروع ہوئی میں پندرہ سال کا تھا شروع ہی سے میرے شوق الگ سے تھے ہر اخبار پڑھنا ہر کتاب جہاں سے بھی ملے اسے پڑھے بغیر نہ سونا بچوں کے رسالے تعلیم و تربیت اخبار جہان نوائے وقت کوہستان غرض چارہ کاٹنے والی برقی مشین کی طرح ہر چیز کتر ڈالی۔گھر میں ایک ہی اخبار آتا تھا وہ تھا نوائے وقت۔جابر سلطان کے خلاف قلمہ ء حق کہنا اس اخبار کا موٹو تھا ہم اسی پر عمل کرتے رہے۔گجرانوالہ دیسی سا شہر ہے مذہبی لگائو انتہا کو ہے اس شہر کی مسجدیں آباد و شاد ہیں کسرت باڈی بلڈنگ اس کی رگ رگ میں شامل ہے۔وہ کوئی گجرانوالوی ہے ہی نہیں جو اکھاڑے یا جم نہ گیا ہو۔ہم بھی گئے۔١٩٧٠ کی سردیوں میں انتحابی مہم ذوروں پر تھی۔
میں ہر جلسے میں شرکت کرتا۔ایک بار ہمارے شہر میں جناب نصراللہ خان آئے ان کے ساتھ جناب نورالامین،صابر جعفری مولوی فرید ایم انور بار ایٹ لاء اور خواجہ رفیق بھی آئے۔یہ وہ خواجہ رفیق ہیں جن کے صاحبزادے سعد رفیق نے آگے چل کر سیاست میں بڑا نام کمایا۔خوجہ سعد رفیق کے بارے میں میرے پرانے دوست اور اپنے وقت کے طلبہ سیاست کے ماہر سلیمان کھوکھر نے آج نوائے وقت میں کالم بھی لکھا ہے۔خواجہ رفیق اچھے مقرر تھے۔انہیں ایک روز اسمبلی ہال کے پچھواڑے میں چند بدمعاشوں نے شہید کر دیا وہ غلام مصطفی کھر کا دور تھا کھر کی مستیاں عروج پر تھیں۔آئے روز سکینڈل مشہور ہوا کرتے تھے۔انہیں کے وزراء میں افتخار تاری بھی تھے ان کے دست راست گجرانوالہ کے چودھری ارشاد بھی تھے جو بعد میں بدنام زمانہ دلائی کیمپ میں بھی رہے۔کھر شہر کے طلبہ جن کی شہرت خراب تھی ان پر ہاتھ بھی رکھتے تھے۔ایک اور وزیر افتخار تاری تھے۔شہر کے ایک اور نعروف شخص طارق وحید بٹ بھی کھر ہی کی شہہ پر کھر مستیاں کرتے تھے ان میں ریلوے روڈ پولی ٹیکنیک کے دیان خان محبوب بٹ موسی خان عیسی خان اور چند اور اوباش لڑکے بھی ہوا کرتےy تھے جو تعلیم میں کم اور غنڈہ گردی پر زیادہ توجہ دیا کرتے تھے،
میں نے اس ادارے میں ١٩٧١ میں داخلہ لیا پہلا سال تو شہر کو سمجھنے میں لگا اور دوسرے سال سے طلبہ سیاست میں حصہ لیا اسی ادارے میں اسلامی جمعیت طلبہ کی بنیاد رکھی اور بڑے نام گرامی طلبہ کو انتحابات میں شکست دی۔مجھے یی ساری باتیں آج اس لئے یاد آئیں کہ خواجہ سعد رفیق کے والد کو اس وقت شہید کر دیا گیا جب وہ بہت چوٹے تھے۔گویا جمہوریت کے لئے ان کے والد نے جان دے دی۔خواجہ رفیق ایک مڈل کلاس کے سیاست دان تھے جنہوں نے نوابزادہ نصراللہ کی قیادت میں بھر پور جد و جہد کی۔بد قسمتی سے ان انتحابات کے نتائیج بھٹو صاحب کی مرضی کے خلاف نکلے مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں واضح اکثریت حاصل کی۔جمہوری پارٹی کا نام و نشان مٹ گیا ادھر مغربی پاکستان میں اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے پاکستان پیپلز پارٹی ابھری سیاسی طالب علموں کے لئے ان انتحابات کے نتائیج لکھے دیتا ہوں،یاد رہے ان انتحابات میں ووٹر کی عمر ٢١ سال تھی جسٹس عبدالستار کو پاکستان کا پہلا چیف الیکشن کمشنر بنایا گیا۔
Pakistan Political Parties
کہا گیا کہ ملکی تاریخ کے یہ پہلے اور آخری شفاف انتحابات تھے جو ایک ملٹری ڈکٹیٹر یحی خان کی زیر نگرانی ہوئے کل مشرقی اور مغربی پاکستان کے رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 56941500تھی جس میں مشرقی پاکستان کے ووٹ 31211220تھے اور مغربی پاکستان کے25730280تھے انتحابات سات دسمبر انیس سو ستر کو ئے اکا دکا جگہوں پر لڑائی جھگڑے ہوئے۔مجموعی طور پر ان تحابات کو پر امن قرار دیا گیا انتحابات تو ہوگئے مگر ان کے نتائیج قبول نہ کئے گئے۔ ذوالقار علی بھٹو اور یحی خان کا منفی کردار یہاں شروع ہوتا ہے بھٹو نے صدر یحی کو یقین دہانی کرائی کہ میں وزیر اعظم بنوں گا اور آپ صدر ہوں گے۔کہتے ہیں اگر المرتضے ہائوس لاڑکانہ کے ایک درخت کے سائے میں یہ منحوس زبانی معاہدہ ہوا جسے آپ پاکستان توڑنے کا معاہدہ کہہ سکتے ہیں۔اب ذرا نتائیج دیکھئے،١۔عوامی لیگ جس کے سربراہ شیخ مجیب تھے انہوں نے12937162ووٹ لئے اور تین سو کے ایوان میں 160نشستیں حاصل کیں انہوں نے39 فی صد ووٹ حاصل کئے۔اب بتائیے کیا ان کا حق نہیں بنتا تھا کہ وہ حکومت بنائیں۔بلکل بنتا تھا۔بنگالی چوبیس برسوں سے گلہ کر رہے تھے کہ مغربی پاکستانی ان کے حقوق غصب کیا کرتے تھے۔انہوں نے پاکستان کے پہلے انتحابات میں بھر پور حصہ لیا اور مغربی پاکستانی اسٹیبلیشمنٹ کو بتا دیا کہ ہم جمہوریت پسند ہیں اور اب ہمیں ہمارا حق دیا جائے۔یہی وہ وجہ بنی جب انہیں اقتتدار دینے کی بجائے غدار کہا گیا تو وہ ڈنڈے سوٹے لے کر باہر آ گئے۔میرے خیال میں پاکستان انہوں نے نہیں توڑا بلکہ ہر اس شخص نے پاکستان کو دو لخت کیا جس نے شیخ مجیب کے حوالے اقتتدار نہیں کیا،آگے چل کر بتائوں گا کہ میں بھٹو کو کیوں ذمہ دار ٹھہراتا ہوں۔
٢۔ان انتحابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے6148923ووٹ حاصل کئے پیپلز پارٹی کے حصے میں81نشستیں آئیں اس کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو تھے پارٹی ١٩٦٧ میں قائم ہوئی تھی۔بھٹو نے ساڑھے اٹھارہ فی صد ووٹ لے کر دوسری پوزیشن حاصل کی۔کہتے ہیں بھٹو صاحب فرمایا کرتے تھے کہ مجھے کبھی بھی نمبر دو آنا پسند نہیں کہیں لکھا گیا کہ جب وہ سکول میں دوڑ میں دوسرے نمبر پر آئے تو انہوں نے پہلے والے کو طکٹری سٹینڈ سے گرا دیا گیا تھا۔سکول میں کی گئی زیادتی انہوں نے ١٩٧٠ میں دہرائی اور ایمپائر سے مل کر نمبر ون کو دھکیل دیا۔مجیب کی جگہ اگر کوئی اور بھی ہوتا تو وہی کرتا جو مجیب نے کیا تھا۔ہمارے پاس ایک سرٹیفیکیٹ ہے ہم جب جی چاہتا ہے وہ کسی کو دے دیتے ہیں۔مجیب کو غدار ٹھہرایا گیا حالنکہ وہ ملکی انتحابات میں جیت کر سامنے آئے تھے۔لوگ مجیب اور الطاف کا موازنہ کرتے ہیں ۔مجیب کو غدار ہم نے بنایا جب کیہ الطاف را کا تیار کردیہ ایجینٹ ہے جو دشمن کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کی داڑھی نوچتا ہے۔ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیجئے مجیب نے کبھی فوج کو گالی نہیں دی۔کاش اس وقت کے فوجی سربراہ بھٹو کی باتوں میں نہ آتے تو آج ملک یک جا ہوتا۔ ٣۔تیسرے نمبر پرجماعت اسلمی نے ووٹ حاصل کئے گرچہ اس کی سیٹیں کم تھیں لیکن سید مودودی کے چاہنے والے ہر حلقہ ء انتحاب میں ہوتے ہیں اسی طرح اس وقت بھی یہی صورت حال تھی۔جماعت اسلامی کو پاکستان دوستی کی سزا وہاں پلٹن میدان میں دی گئی مولانا سید مودودی کا جلسہ الٹ دیا گیا۔انتحابی مہم میں گھیرائو جلائو کا عنصر بھی شامل ہو گیا مولانا سید عبدالحمید بھاشانی اس کے علمبردار تھے وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کو لینن گراڈ کا نام بھی دے گئے تھے۔
انہوں نے ان انتحابات کا بائیکاٹ کیا۔جماعت اسلامی کو کل 1989461ملے جماعت کو چار نشتیں حاصل ہوئیں ڈیرہ غازی خان سے منتحب ہونے والے ڈاکٹر نذیر کو کھر،بھٹو دور میں شہید کر دیا گیا۔ظاہر ہے جاگیر داروں اور وڈیروں کے خلاف جیتنے کی یہ کم سے کم سزا ہے۔جماعت کو چھ فی صد ووٹ ملے۔مولانا مودودی نے زور دور کر کہا کہ مینڈیٹ کو مانا جائے۔لیکن جب انڈیا نے شیخ مجیب کی پشت پر ہاتھ رکھا تو جماعت اسلامی نے فوج کا بھر پور ساتھ دیا۔البدر میں شامل رضا کار سارے اسلامی جمیعت طلبہ سے تعلق رکھتے تھے انہیں اس جرم کی سزا اب بھی دی جا رہی ہے بنگلہ دیش کو بنے چھیالیس سال ہو چکے ہیں وہ ان طلبہ اور جماعت کے رفقاء کو اب بھی پھانسی دے رہا ہے ۔اسے کہتے ہیں آزمائیش یہ لوگ ہنستے کھیلتے جھول جاتے ہیں۔ فراز نے تو لکھ دیا مگر اس کو عملی جامہ سید مودودی کے شاگردوں نے پہنا دیا۔ جشن مقتل ہی نہ سجا ورنہ ہم بھی پابجولاں ہی سہی ناچتے گاتے جاتے جماعت اسلامی کی بد قسمتی یہ ہے کہ وہ سارے مل کر ایک مودودی نہ دے سکے جب کے مودودی نے عالم اسلام کو نئی راہیں دکھائیں کبھی اخوان کی شکل میں اور کبھیجسٹس پارٹی ترکی کے روپ میں سچ پوچھیں اگر سید مودودی زندہ ہوتے تو شائد تحریک انصاف بھی نہ ہوتی عمران خان چیئرمین تحریک انصاف کی اسلام دو قومی نظریے سے وابستگی میں جو شدت ہے وہ اقبال کے بعد سید مودودی کی فکر کی وجہ سے ہے۔میری اس بات سے شائد لوگ اختلاف کریں مگر جو پیار اور محبت سید مودودی کے وارث قاضی حسین احمد کی عمران خان سے تھی وہ کسی اور سے نہ تھی۔جب عمران خان کو جمعیت نے یونیورسٹی میں تشدد کا نشانہ بنایا تو قاضی حسین احمد رو پڑے تھے۔