نئے پاکستان کا بجٹ اور عام آدمی

Budget

Budget

تحریر : محمد نورالھدیٰ

ہمارے ہاں نئے مالی سال کا بجٹ جب بھی آتا ہے شور شرابہ لازمی ہوتا ہے ۔ ترجیحات پر بحث ہوتی ہے۔ اپوزیشن اور عوام کی جانب سے بھی اسے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ اسمبلیوں میں حکومت کو بجٹ پاس کرنے کے حوالے سے ٹف ٹائم دیا جاتا ہے …. مگر پھر چند ہی دنوں بعد بات آئی گئی ہو جاتی ہے ۔ بجٹ ”قبول“ کر لیا جاتا ہے ، پارلیمنٹ سے پاس بھی ہو جاتا ہے اور عوام بھی سب کچھ بھول کر ذہنی طور پر اسی بجٹ کے مطابق چلنے پر خود کو تیار کر لیتے ہیں ۔ حکومتوں کی تمام تر ڈھٹائی کے باوجود یہ سمجھوتہ سیاستدانوں اور عوام کو بہرحال کرنا پڑتا ہے ، کہ اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں ہوتا ۔

ماضی کے بجٹ بھی اگر ہم دیکھیں تو بظاہر ”ٹیکس فری“ بجٹ کہہ کر پیش کیا جاتا ہے مگر جب اس کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں تو لگ پتہ جاتا ہے ۔ اس کی باریکیوں سے ماہرین معاشیات زیادہ بہتر آگاہ کر سکتے ہیں …. البتہ جب سے ”نیا پاکستان“ وجود میں آیا ہے ، معاشی حالات سخت ہوتے جا رہے ہیں اور عوام کی قوت استعداد کم ہو رہی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ اس مرتبہ عوام کو زیادہ سنجیدہ امتحانات کا سامنا ہے ۔ موجودہ حکومت جب سے آئی ہے اس کا سارا زور ہر طبقے پر ٹیکسوں کے نفاذ پر ہے ۔ بجٹ 2019 میں بھی سارا دارومدار ٹیکسوں کو ہی رکھا گیا ہے ۔ حتیٰ کہ ایک ریڑھی والا بھی اس سے محفوظ نہیں رہا ۔ یقینا آج نہیں تو کل ، ہر طبقہ اس بجٹ کو بھی اس کی تمام ”خرافات“ سمیت بھی قبول کر ہی لے گا لیکن یہ حقیقت ہے کہ حکومت کی معاشی پالیسیاں عام آدمی کی حوصلہ شکنی کے سوا کچھ نہیں ۔ موجودہ حکومت جب سے آئی ہے ، یہی کہے جا رہی ہے کہ معیشت آئی سی یو میں ہے ، پچھلوں نے خزانے کا بہت نقصان کیا ، اس نقصان کو عوام کی مدد سے پورا کرنا ہے ۔ آغاز میں جناب عمران خان صاحب نے فرمایا تھا کہ ”گھبرانا نہیں“ ، بس کچھ ہی دنوں کی بات ہے ، لیکن وہ ”کچھ دنوں“ کی ڈیڈ لائن بھی گزر گئی …. آئی ایم ایف کے خلاف محاذ کھولا گیا لیکن پھر وقت نے دیکھا کہ آئی ایم ایف کے بغیر سانس لینا بھی دشوار ہو گیا اور معاشی امور چلانے کیلئے اسی کا سہارا لینے پر مجبور ہوئے ۔

حکومت کو اس کا ادراک نہیں لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ اس بجٹ کا سارا بوجھ ایک عام آدمی پر منتقل ہوگا ، آئیے دیکھتے ہیں کیسے : ؟ بجٹ میں ایک چھوٹے سے ہئیر ڈریسر کو مجبور کیا گیاہے کہ وہ ٹیکس دے ۔ اپنی دکان کا ٹیکس تو وہ پہلے ہی دے رہا ہے لیکن کاروبار کا ٹیکس بھی دینے لگ جائے گا تو وہ یہ رقم ظاہر ہے عام آدمی سے نکلوائے گا ۔ پہلے اگر وہ ڈیڑھ سو روپے کٹنگ کے لیتا تھا تو اب دو سو روپے لیا کرے گا ۔ یعنی پسے گا تو دیہاڑی دار طبقہ ہی ۔ دودھ ، چینی ، کوکنگ آئل ، گھی ، گوشت ، دالیں وغیرہ ہر گھر کی بنیادی ضرورت ہےں ۔ ایک مستند آئل اور گھی پہلے ہی بہت مہنگا ہے جبکہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد ہونے سے اس کی قیمت کو بھی پر لگیں گے اور متاثر ایک عام آدمی ہی ہوگا …. دودھ پہلے ہی مارکیٹ میں خالص نہیں مل رہا ، ڈیوٹی بڑھانے سے اس میں ضروری اجزاءکم اور غیر ضروری زیادہ ڈالے جانے لگیں گے ، نتیجتاً یہ بے اثر اور بے فائدہ تیار ہونے لگ جائے گا …. فرق کسی اور کو نہیں عام آدمی کو پڑے گا …. سفید پوش فرد کیلئے گوشت اور دالیں پہلے ہی ”عیاشی“ کے زمرے میں آتی تھیں ، موجودہ بجٹ کے بعد یہ چیزیں اس کی پہنچ سے مزید دور کر دی گئی ہیں ۔

ہر آدمی کا خواب ہوتا ہے کہ اپنا گھر بنائے اور کرایہ کے گھر سے نجات حاصل کرے ۔ لیکن اپنا گھر ایک سفید پوش فرد کسی صورت نہیں بنا سکتا ، یہاں تک کہ وہ مطلوبہ وسائل جمع نہ کر لے ۔ اس سے قبل تک وہ اپنا پیٹ کاٹ کر اتنے وسائل جمع کرتا تھا کہ گھر کا ایک کمرہ ڈال لے ، لیکن موجودہ بجٹ میں سیمنٹ پر ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے کے علاوہ بجری ، ریت ، سریا اور اینٹوں کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں …. اسی طرح وہ گھر خرید بھی نہیں سکتا ، کیونکہ اس پر عائد مختلف قسم کی ڈیوٹیاں بڑھ چکی ہیں ۔ یعنی ایک غریب آدمی کا اپنا گھر بنانا اور لینا مزید مشکل ہو گیا ہے ۔
ایک غریب کی بیٹی اپنی شادی کے موقع پر بیوٹی پارلر تیار ہونے جاتی ہے ۔ اگر کوئی بیوٹی پارلر کسی دلہن سے کم از کم دس ہزار روپے چارج کرتا تھا تو اب ٹیکس عائد ہونے کے بعد وہ بیس ہزار روپے چارج کیا کرے گا ۔ یوں ایک سفید پوش کے معاشی بوجھ میں مزید اضافہ ہوگا ۔

فیکٹریوں پر ٹیکس عائد ہونے سے مارکیٹ میں پہنچنے تک اشیاءکی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہوں گی …. متاثر عام آدمی ہو رہا ہوگا ۔ نجی ڈاکٹرز کی فیسیں پہلے ہی متوسط طبقے پہنچ سے باہر ہیں ۔ آپ ان پر مزید ٹیکس عائد کر رہے ہیں تو جو ڈاکٹر پہلے دو ہزار روپے فیس لیتا تھا اب ڈھائی ہزار روپے لے گا ۔ تو ، متاثر کون ہوا؟ ظاہر ہے عام آدمی ….
پٹرول کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے ۔ جس کی وجہ سے لوکل ٹرانسپورٹرز کرایوں میں اضافہ کر چکے ہیں ۔ اس کا براہ راست اثر عام آدمی کی جیب پر پڑے گا ۔
سوئی گیس گھر گھر کی ضرورت ہے ، سردیوں میں تو یہ نایاب ہو جاتی ہے ، لیکن اسے بھی مہنگا کر دیا گیا ہے …. جبکہ بجلی کے نرخ بھی ہر دوسرے مہینے بڑھ رہے ہیں ۔
کم از کم اجرت ”بڑھا“ کر 17500 کر دی گئی ہے لیکن دوسری جانب ہر طبقے ، ہر چیز پر ٹیکس لگا کر اس ”بڑھائی گئی“ تنخواہ کی ”وقعت“ کو بھی گھٹا دیا گیا ہے …. حالانکہ ٹیکس بڑھنے سے وقت خرید کم ہوتی ہے ، اور جب وقت خرید کم ہوگی تو یہ معیشت کا بہت بڑا نقصان ہے ۔
فلاحی ادارے جہاں یتیموں مسکینوں کو پانچ اشیاءدیتے تھے ، اب وہ انہیںکم کر کے تین چیزیں دینے پر مجبو ر ہوئے ہیں ۔ یعنی متاثر ہوا تو عام آدمی ۔
ان ٹیکسوں سے تو درزی بھی نہیں بچا ۔ جو درزی پہلے ایک ہزار روپے سوٹ کی سلائی لے رہا تھا ، اب اس کا ریٹ پندرہ سو روپے ہو جائے گا ، ظاہر ہے ، یہ پیسے سوٹ سلوانے والے عام آدمی کی جیب سے جائیں گے ، کیونکہ اے کلاس طبقہ تو ریڈی میڈ (امپورٹڈ) خریداری کر لیتا ہے ، مسئلہ پسماندہ طبقے کیلئے ہوگا ۔
اسی طرح بے شمار چیزوں سے سبسڈی واپس لیتے ہوئے سیلز ٹیکس لگ چکا ، جس کا براہِ راست بوجھ سفید پوش کے کندھوں پر منتقل ہوگا ۔
اس بجٹ سے چند ماہ پہلے ادویات کی قیمتوں کو بڑھایا گیا جو کہ تقریباً دگنی ہو گئیں ۔ گو کہ بعد میں اس ”بڑھوتری“ کو واپس لینے کا اعلان کیا گیا لیکن لوگ تاحال نئی ، دگنی قیمت پر ہی ادویات خریدنے پر مجبور ہیں۔ موجود بجٹ میں ٹیکسوں اور بے جا ڈیوٹیوں کی بھرمار سے ان کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا جس کا اثر سفید پوش کی جیب پر پڑے گا ۔

تعلیم یافتہ اولاد ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے ۔ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبنے والے والدین کا خواب بھی چکنا چور ہو جائے گا ۔ نہ صرف تعلیمی اداروں والے فیسیں بڑھائیں گے بلکہ ٹیکسوں کی شرح بڑھنے سے لگی بندھی تنخواہیں بھی کم پڑ جائیں گی ۔ تنخواہ کم پڑے گی تو والدین اخراجات کم کرنے کیلئے دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ بچوں کی تعلیم سے بھی ہاتھ کھینچیں گے ۔ یعنی متاثر بہرحال عام طبقہ ہی ہو رہا ہے ۔

اس قدر تمہید سے یہ بتانا مقصود ہے کہ حکومتی اقدامات سے سفید پوش طبقے کی زندگی کیسے متاثر ہو رہی ہے ۔ لوگوں کی جائز کمائی پر بھی ٹیکس لگا کر کبھی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی بلکہ ایسے اقدامات الٹا گلے پڑ جایا کرتے ہیں ۔ یہ ٹیکسز نہیں ”جگا“ ہے جو قوم سے لیا جارہا ہے ۔ آپ نے ٹیکس لگانا ہے ، لگائیے لیکن بڑے کاروبار کرنے والوں سے وصول کیجئے ، چھوٹے طبقے کے لوگ جو اپنی بساط اور ہمت کے مطابق چھوٹے موٹے کام کر رہے ہیں ، ان پر اتنا بوجھ ڈالیں جتنا وہ برداشت کر سکیں …. یہ وہ لوگ ہیں جو اپنا کاروبار جیسا تیسا چلا کر اپنے بچے پال رہے ہیں ۔ یہ دن کو کنواں کھودتے ، رات کو پانی پیتے ہیں ۔ ایک پرچون کی دکان کرنے والا ایک چیز کے بدلے ایک ، دو ، پانچ یا زیادہ سے زیادہ دس روپے کماتا ہے ۔ اگر وہ یہ اضافی ٹیکسز بھی دینے لگ جائے گا تو گھر کیسے چلائے گا؟ ۔ مزدور طبقے کا تو پہلے ہی گذشتہ حکومتوں کی پالیسیوں کی وجہ سے برا حال ہے ۔ اگر آپ بھی نئے پاکستان کے استحکام کے نام پر ، ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرنے لگ جائیں گے جیسا گذشتہ حکمرانوں نے کیا ، یا پھر سابق ارباب اقتدار کی نالائقیوں کا بوجھ عوام پر ڈال کر ان کی وجہ سے عوام کی توقعات کا خون کریں گے تو ، پھر عوام آپ سے مایوس ہو کر ایک مرتبہ پھر انہی لوگوں کو چننے پر مجبور ہوں گے ، جن سے وہ ڈسے ہوئے ہیں۔

زندہ رہنے کے سب اسباب مٹا کر ہم کو
کس قدر پیار سے جینے کی دعا دیتے ہیں

Muhammad Noor-Ul-Huda

Muhammad Noor-Ul-Huda

تحریر : محمد نورالھدیٰ