پاک امریکہ نیا موڑ

Osama bin Laden

Osama bin Laden

اسامہ بن لادن کیخلاف امریکی آپریشن کے مرکزی کردار ڈاکٹر شکیل آفریدی کی سزا کی منسوخی سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں ایک نیا موڑ آ گیا ہے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو ملک سے غداری جاسوسی اور سازش کے الزامات میں گذشتہ برس 33 سال قید کی سزا دی گئی تھی امریکہ جو آفریدی کو ہیرو سمجھتا ہے نے گذشتہ مہینوں میں فیصلہ کن انداز میں اسے رہا کرائے جانے کی کوشش کی ہے دوسری جانب پاکستان کے لیے سی آئی اے کے یہ مخبر جن کی اطلاع پر امریکی فوجیوں نے اسامہ بن لادن کو اسکے گھر میں گھس کر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا امریکہ کے ساتھ سودے بازی کا ایک اہم عنصر ہیں لگتا ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت نے اس عنصر سے کام لینے کا فیصلہ کر لیا ہے اور آفریدی کو آزاد کرنے کے متعلق پاکستان امریکہ کو اشارہ دے گا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو معمول پر لے آیا جائے جس کے بعد ایک طویل عرصے قید خانے کی سلاخوں کے پیچھے رہنے کی بجائے شکیل آفریدی کے لیے غیر متوقع طور پر طویل قید سے نجات پانے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔

آفریدی، جس پر مقدمہ چلائے جانے کی خاطر ایک وقت تھا کہ پاکستان اور پاکستان سے باہر بہت ہلچل ہوئی تھی مگر اب اسکی سزا منسوخ کیے جانے پر پاکستان کو کس بات نے مجبور کیا ہے یہ تاحال واضح نہیں ہے جبکہ سرکاری طور پہ یہ کہا گیا ہے کہ مقدمہ متعلقہ عدالت میں چلایا جائے گا۔ تاہم یہ باور کیا جانا دشوار ہے کہ آفریدی کے مقدمے میں یہ موڑ محض عدالتی چارہ جوئی کے ضمن میں آیا ہے یا یہ تبدیلی کسی ملکی قوت کی سعی کا نتیجہ ہو سکتی ہے، کیونکہ شکیل آفریدی امریکہ کی خصوصی ایجنسی کے لیے کام کرتا تھا اور اس نے اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی کرنے کی بنیاد فراہم کی تھی۔ یہ کارروائی حکومت پاکستان کو اندھیرے میں رکھ کر کی گئی تھی، یوں واشنگٹن نے پاکستان کو نیچا دکھایا تھا۔ تو اس صورت میں کسی کو کسی وجہ سے “ڈاکٹر کے خلاف” مقدمے پر ازسرنو غور کیے جانے کا خیال کیوں آ گیا۔

PM Nawaz Sharif

PM Nawaz Sharif

آفریدی کے مقدمے پر پھر سے غور کیے جانے کا ارادہ ظاہر کرکے پاکستان کی نئی حکومت نے ایک تجربہ کیا ہے تاکہ عوامی رائے جانی جا سکے کہ آفریدی کی رہائی پر ردعمل کیسا ہو گا اور کیا نواز شریف کی حکومت ایک نئے سیاسی ہی جان سے بچ جائے گی۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کا اقدام حکومت کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ تاہم نواز شریف کی حکومت امریکہ کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے، یہ کھیل تو کھیل ہی سکتی ہے کیونکہ” آفریدی، جسے امریکہ میں ہیرو سمجھا جاتا ہے کو دی جانے والی سزا پہ اوبامہ کی انتظامیہ کا شدید ردعمل ہوا تھا امریکہ نہیں سمجھتا کہ ڈاکٹر آفریدی کو گرفتار کیے جانے کی کوئی بنیاد موجود تھی۔ ہم ان کے خلاف مقدمہ چلائے جانے اور سخت سزا دیے جانے پہ تاسّف کا اظہار کرتے ہیںتب کی سیکریٹری آف سٹیٹ ہیلیری کلنٹن نے کہا تھا۔

سزا کو غیر منصفانہ اور نہ قابل قبول گردانتے ہوئے انہوں نے اس عہد کا اظہار کیا تھا کہ امریکہ پاکستان کی حکومت پہ دباؤ ڈالے گا کہ مقدمے پر پھر سے غور کیا جائے۔ امریکہ کے اراکین پارلیمان نے اپنے ردعمل کا اظہار اس سال، جس برس آفریدی کو سزا دی گئی تھی، پاکستان کو دی جانے والی امریکی مالی امداد میں تین کروڑ تیس لاکھ ڈالر کی کمی کرکے کیا تھا تاہم حکومت پاکستان نے باور کرا دیا تھا کہ وہ امریکہ کے دباؤ میں نہیں آئے گی اور پاکستان کے عدالتی نطام کی تعظیم کرے گی۔تب ہی واضح ہو گیا تھا کہ “آفریدی کے خلاف مقدمہ” پاکستان کے پاس ایسا کارڈ ہے جو امریکہ کے ساتھ بہت سے مسائل، پاکستان کی مالی اور عسکری امداد سے لے کر، پاکستان کی سر زمین پہ ڈراؤن طیاروں سے کیے جانے والے حملے روکے جانے اور افغانستان سے راہداری دیے جانے کی خاطر اتفاق بارے اشتراک باہمی تک اور امریکہ میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی پاکستان منتقلی پر بات کرتے ہوئے کھیلا جا سکے گا۔

آج یوں لگتا ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت نے بہت عرصے سے رکھا ہوا یہ کارڈ کھیلنے کا فیصلہ کر لیا ہوا ہے۔ بس یہ جاننا باقی ہے کہ اگر اسامہ بن لادن کے مخبر کو اسلام آباد آزاد کر دے تو اسے واشنگٹن سے بدلے میں کیا ملے گا۔ آخر میں اپنے پڑھنے والوں کے لیے ایک اہم خبر بھی بتاتا چلوں کہ جنرل(ر) پرویز مشرف کے خلاف مقدمے کے اندراج کے بعد اب شہداء فائونڈیشن آف پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ اگلے مرحلے پر بلاتا خیر لال مسجد آپریشن کے دیگر سویلینز افراد کے خلاف مقدمات درج کرائیں گے۔ اس لئے کہ لال مسجد کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جنرل(ر)پرویز مشرف کے علاوہ اس وقت کے دیگر ذمہ دار افسران کو بھی آپریشن کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

شہداء فائونڈیشن آف پاکستان نے دوسرے مرحلے پر جن افراد کے خلاف لال مسجد آپریشن کا مقدمہ درج کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان میں سابق وزیراعظم پاکستان شوکت عزیز، چودھری شجاعت حسین، طارق عظیم، اعجاز الحق، محمد علی درانی، آفتاب احمد خان شیر پائو، خورشید قصوری، چودھری پرویز الٰہی، فیصل صالح حیات، شیخ رشید احمد، کامران لاشاری، چودھری محمد علی، سید کمال شاہ، افتخار احمد چودھری، ظفر اقبال، خالد پرویز اور شاہد ندیم بلوچ شامل ہیں اور بہت جلدان تمام افراد کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کے لئے درخواست جمع کرا دی جائے گی۔

Rohail Akber

Rohail Akber

تحریر : روہیل اکبر
03466444144